کیا کم خوابی ، نفسیاتی مرض ہے ؟
(Khalid.Naeemuddin, Islamabad)
کہتے ہیں کہ جس اِنسان کی نیند
اُڑ جائے وہ بالآخر نفسیاتی مریض بن جاتا ہے ؟
ایسا نہیں ہے ، انسانی جسم ، اپنے کھانے ، پینے ، آرام کا خود متلاشی رہتا
ہے ، نیند انسانی جسم کے آرام و سکون کا مظہر ہے ، خواہ وہ یہ 24 گھنٹوں
میں چار گھنٹے کے لئے ، کسی بھی وقت لے ۔لایعنی سوچ کے بلبلوں میں ہوا
بھرنے والے ، راتوں کو جاگتے ہیں کیوں کہ تنہائی میں ، ایک بلبلہ معدم ہوتے
وقت اپنی ہوا دوسرے کو دے دیتا ہے اور ایک بلبلہ تو نہیں ہوتا بلبلوں کا
ایک جم ِغفیر ہوتا ہے ۔
لیکن عمر کے لحاظ سے نیند کی کمی بیشی انسانی زندگی ، کا ایک پرتو ہے ،
جوانی اور بڑھاپے کی نیند میں فرق ہوتا ہے لیکن ہر انسان کی نیند کی مقدار
ایک جتنی نہیں ہوتی ، جسمانی کام کرنے والوں کی نیند کا دورانیہ زیادہ ہوتا
ہے اور ذہنی کام کرنے والوں کی نیند کا دورانیہ کم ہوتا ہے ، کیوں کہ کام
کے بعد بھی اُن کا دماغ ، سوچوں کے بلبلے بناتا ہے ، جو ایسا کیوں ہوا ؟
کیسے بہتر ہو سکتا ہے ؟ اور کس طرح کرنا چاہیئے؟
یہ کیوں کیسے اور کس طرح ، ہر انسان کی سرشت میں ہے ، یہاں تک کہ ایک بچہ
بھی اِسی ترتیب سے سوچوں کو اپنے دماغ میں مشغول رکھتا ہے ۔
سوچوں کی وجہ سے نیند کا کم ہونا ، جبکہ کوئی نفسیاتی مرض نہیں بلکہ ایک
عام جسمانی بیماری ہے ۔ لیکن اِس کی زیادتی ، جبکہ سوچوں کے کوئی نتائج نہ
ہوں ، کو "نفسیاتی مرض " سے آسانی کے لئے موسوم کر دیا گیا ہے ۔جس میں
انسانی دماغ ایک صحت مند انسانی دماغ کی مانند کام نہیں کرتا ، کیوں کہ
سوچیں بے ربط ہوتی ہیں ، اُن کے درمیان رابطہ نہیں ہوتا ، یوں سمجھیں کہ
دماغ میں پیدا ہونے والے ، سوچوں کے ہم ربط بلبلے ایک دوسرے میں اپنی جڑیں
پیوست کرکے اُنہیں یوں سمجھیں ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کرتے ہوئے ایک
بامعنی اکائی بناتے ہیں ۔
دماغی طور پر صحت مند انسان میں ، سوچوں کی اِس اکائی کو بنانے ،میں دشواری
نہیں ہوتی یہ سب ایک قدرتی خودکار نظام کی مانند ہوتا ہے ، جب کہ ایک
لایعنی سوچوں کی دماغی بیماری میں مبتلاء انسان کے لئے ، ایک خاص ٹیکنیک سے
سوچوں کے بلبلوں کی ایک اکائی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
وہ ٹیکنیک "ذہنی ارتکاز کی ٹیکنیک" کہلاتی ہے ۔ جسے مختلف مذاہب کے لوگوں
نے اپنی دکانداری چمکانے کے لئے الگ الگ نام اور طریقے ایجاد کر لئے ہیں ۔
جو کسی بھی طریقے سے حاصل ہو سکتی ہے ، لیکن اِس ٹیکنیک کے الفاظ یا انسان
کو انسانی بلندیوں پر لے جاتے ہیں یا پستیوں میں گرا دیتے ہیں ۔ بلندیوں پر
جانے والا انسان ، انسان ہی رہتا ہے اور " میں اُس سے بہتر ہوں " کی سوچ
رکھنے والا پستیوں کی طرف دوڑنے لگتا ہے ۔
|
|