مودی کی خاموشی پر ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کا سوال

نریندرمودی اور باراک اوبامہ کی دوستی ایک نئی شکل اختیار کرتی جارہی ہے ۔نریندرمودی یہ چاہ رہے ہیں کہ ہندوتو کے ایجنڈا کو فروغ دینے کی ہماری پالیسی بھی حسب دستور جاری ہے اور باراک اوبامہ سے رشتہ بھی خوشگوار رہے ۔ لیکن باراک اوبامہ اس کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ وہ باربار مودی کو یہ نصیحت کررہے ہیں کہ وہ آرایس ایس کے خول سے باہر نکلیں ۔ہندوستان میں موجود مسلمان ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتنے کی روایت ختم کریں۔ چناں چہ اس حوالے سے باراک اوبامہ نے اپنے دورہ ہندکے دوران بھی دہلی میں سری فورٹ ویلیم ہال میں27 جنوری 2015 کو خطاب کرتے ہوئے یہ کہاتھاکہ مذہبی رواداری قائم کئے بغیر ہندوستان ترقی نہیں کرسکتا ہے ۔ اور امریکہ پہنچنے کے بعد بھی انہوں نے 5 فروری کوواشنگٹن میں ہائی پروفائل ’’نیشنل پریئر بریک فاسٹ‘‘کے دوران اپنے تبصرے میں کہاکہ مشیل اور میں ہندوستان سے واپس لوٹے ہیں۔ خوبصورت ملک ہے ۔ گرینڈتنوع سے بھرا ہوا ہے ۔ لیکن وہاں گزشتہ سالوں میں کئی مواقع پر دوسرے مذہب کے دوسرے لوگوں نے صرف اپنی وراثت اور عقیدے کی وجہ تمام مذاہب کے لوگوں کو نشانہ بنایا ہے۔اس عدم تحمل کے رویہ سے مہاتما گاندھی ساکت رہ گئے ہوتے۔

اوبامہ کے ان دوبیانات کے بعد امریکہ کے کثیر الاشاعت اخبار نیو یارک ٹائمز نے بھی 6 فروری کے شمارے مودی حکومت کی خبر لی ہے ۔چناں چہ نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کو مذہبی عدم برداشت کے معاملے پر اپنی ’’گہری خاموشی‘‘توڑنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کے مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہورہے تشدد کے بارے میں وزیر اعظم نریندر مودی کو بولناچاہئے؟۔جس انسان کو ملک کے ہر شہری کے نمائندے کے طور پر، ان کی حفاظت کے لئے منتخب کیا گیا ہے، اس کی طرف سے عیسائی مذہبی مقامات پر بڑھتے حملوں کو لے کر کوئی رد عمل نہیں آیا ہے۔نہ ہی انہوں نے عیسائیوں اور مسلمانوں کو پیسے دے کر یا زبردستی ہندو بنائے جانے کے مسئلہ پر لب کشائی کی ہے ۔اخبار نے ہندوستان کے وزیراعظم پر یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ان کی خاموشی سے یہ پیغام جاتا ہے کہ اس طرح کے عدم تحمل پر مودی کا مسلسل چپ رہنا یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ کچھ ہندو پرستوں کو یا تو قابو کرنا نہیں چاہتے، یا کر نہیں پا رہے ہیں۔

امریکی صدر کے بیان اور نیویار ک ٹایمز میں لکھے گئے اداریہ کا ہر چہار جانب سے خیر مقدم کیا گیا ہے ۔ تمام دانشواران مودی حکومت سے یہی کہ رہے ہیں کہ فرقہ پرستی کے رہتے ہوئے ہندوستان کی ترقی ناممکن ہے ۔’’ اکنامک ٹائمس نے بھی اپنے اداریہ میں آج لکھا ہے کہ ہندوستان معیشت کے اعتبار سے عالمی سطح پر ایک نئی تاریخ رقم کررہا ہے لیکن اس میں کامیابی اسی وقت ملے گی جب مذہبی ہم آہنگی برقرار رکھی جائے گی ۔ کیوں کہ مذہبی اختلافات کے ہوتے ہوئے معاشی ترقی ناممکن ہے۔ یورپ کے معاشی اعتبار سے ترقی یافتہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے مذہبی روادی کو برقرار رکھاہے ۔ لہذا مودی کو اوبامہ کے پیغام کا خیال کرنا چاہئے ‘‘۔

امریکی صدر کے بیان اور نیویارک ٹائمز کے اداریہ کے بعدبی جے پی خیمہ میں کھلبی مچی ہوئی ہے ۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی کہ رہے ہیں کہ ہندوستان میں مذہبی رواداری ہزاروں سال پرانی ہے ۔ ہمیں کسی کی نصیحت کی کوئی ضرور ت نہیں ہے ۔ اوبامہ نے جو کچھ کہاہے وہ افسوسناک ہے ۔ ہمیں ان دونوں رہنماؤں کے بیان سے مکمل طو رپر اتفاق ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سلسلہ گذشتہ کچھ دنوں سے ٹوٹتا ہوا نظر آرہا ہے۔ گھر واپسی کے نام پر جبر ا مذہب تبدیل کروانا ، لو جہاد کا پیروپیگنڈہ کرنا ۔ مسجد اور چرچ پر حملہ کرنا مذہبی رواداری نہیں بلکہ فرقہ پرستی کی حمایت ہے ۔ جس کے تناظر میں امریکی صدر کو نصیحت کرنے کی ضرور ت پڑی ہے اور عالمی سطح پر اس بیان کا خیر مقدم کیا جارہا ہے ۔
آئین کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوکر اگر حکومتی ذمہ داری انجام دی جاتی ۔ ارباب اقتدار ایماندارانہ طور پر زمام اقتدار سنبھالتے ۔ فرقہ پرستوں پر لگام لگایا گیا ہوتا تو شاید ہندوستان کے وزیر اعظم کو نصیحت کرنے اور یہاں کی ہزاروں سال پرانی مذہبی رواداری پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملتا ۔

وقت تقاضا یہ ہے کہ ارباب اقتدار اوبامہ کے بیان کی مذمت کرنے کے بجائے ہندوستان کی ترقی پر توجہ مبذول کریں ۔ مذہبی رواداری کا سنہر ا سلسلہ پھر سے شروع کریں ۔ مسلم دورحکومت کی کی نظیر از سرنو قائم کریں جہاں تمام مذاہب کا یکساں خیا ل رکھا جاتھا۔ مذہب کے نام پر کسی کے ساتھ کو ئی امتیاز نہیں برتا جاتا تھا۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 163675 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More