فروری کے مہنینے کے آغاز کے ساتھ ہی تقریبا
پوری دنیا میں ویلنٹائن ڈے کو منانے کی تیاریوں کا آغاز ہو جاتا ہے ۔یہ دن
فروری کی چودہ تاریخ کو پوری دنیا میں ــمحبت کے دن کے طور پر منایا جاتا
ہے جس میں محبت کا ثبوت پیش کرنے کے لئے نو جوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو
تحائف دیتے ہیں۔سرخ رنگ کے لباس اور سرخ رنگ کے تحائف کو اس دن سے مخصوص
کیاجاتا ہے ۔ 14فروری کی آمد کے ساتھ ہی پورے ملک میں تقریبا ہر دکان پر
سرخ رنگ کے تحائف ، ا ور غبارے نظر آنے لگتے ہیں ۔ آج سے چند برس پہلے تک
پاکستان میں یہ دن اس طرح سے نہیں منایا جاتا تھا ۔ لیکن نجی ٹی وی سٹیشز
نے اس دن کی تشہیر کی جس کی وجہ سے عام لوگوں میں بھی یہ دن منایا جانے لگا
۔ اور اب اس دن صبح سے لیکر شام گئے تک ٹیل ویژن پر تقریبا ہر چینل اس دن
کی مناسبت سے نہ صرف پروگرام بنائے جاتے ہیں بلکہ سپشل ٹرانسمشن کا اہتمام
کیا جاتا ہے ۔ میڈیاعوام کی سوچ پربہت حد تک اثر انداز ہوتا ہے اس کا
اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں اس طرح
کی غیر اسلامی اور غیر شرعی تقریبات کو منانا نہ صرف عام ہوتا جا رہا ہے
بلکہ عوام ان تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لینے لگے ہیں ۔ اس کا اندازہ
فروری کے آغاز سے ہر گلی محلے سے لیکر بڑے بڑے سٹورز تک میں سرخ رنگ اور
سرخ رنگ کے تحائف ، خاص الخاص سفید بھالو پر سرخ رنگ سے کندہ لفظ "love you
" نظر آنے لگتا ہے ۔ تحائف کی دوکانوں کو خاص طور پر سرخ رنگ سے سجایا جاتا
ہے ۔ اس دن کو منانے والوں میں نوجوان نسل پیش پیش نظر آتی ہے ۔ مغربی
تہذیب کی تقلید کے دلدادہ یہ نوجوان جو ترقی کا معیار ہر طرح کی اقتدار سے
آزادی کو سمجھتے ہیں وہ اس دن کو منانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں ۔14فروری
کو نجی سطح پر پارٹیوں کا انعقادکیا جاتا ہے اور اس دن کی تقریبات کو ہر
طبقہ بالخصوص پوش طبقہ میں کروفر کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔
اس دن کی تقریبات باضابطہ آ غاز تیرہویں صدی میں سینٹ ویلنٹائن کی یاد میں
کیا گیا جس نے غیر قانونی طور پر فوجیوں کی شادیاں کروائیں اور غیر قانونی
طور پر عورت اور مرد کے تعلقات کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ اس نے غیر
قانونی طور پر لڑکے لڑکیوں کے ملنے اور تحائف کا تبادلہ کرنے کو جائز قرار
دیا جس کی پاداش میں فروری ہی کے مہینے میں اسے پھانسی دے دی گئی ۔ تیرویں
صدی کے آغازسے14 فروری کو محبت کرنے والوں کے دن کے طور منایا جانے لگا ۔
پہلے پہل یہ دن چند ہی ممالک میں منایا جاتا تھا جن میں فرانس ، امریکہ اور
مغربی ممالک قابل ِ ذکر ہیں لیکن اب ویلنٹائن ڈے تقریباتمام دنیا میں منایا
جانے لگا ہے ۔ اور اس دن کی تقریبات منانے میں مسلمان مما لک بھی شامل ہیں
۔
فروری کے مہینے کے آغاز سے ہی اس بحث کا آغاز شروع ہو جاتا ہے کہ ویلنٹائن
ڈے منایا جائے یا نہیں ۔ نوجوان نسل اس ابہام کا شکار ہے کہ یہ دن کسی سے
بھی حقیقی محبت کے اظہار کے طور پر منایا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ یہ بحث ہر
سال کسی بھی حتمی نتیجے پر پہنچے بنا ختم ہو جاتی ہے۔ کسی بھی تہوار کو
منانے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ وہ تاریخی اور تہذیبی اعتبار سے کس
قوم سے متعلق ہے اور اس کے معاشرے پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوں گے ۔
اسلامی لحاظ سے دیکھا جائے تو کوئی بھی غیر اسلامی تہوار منانا جائز نہیں۔
اسلام میں یہ واضع کر دیا گیا ہے کہ کون کون سا تہوار منا یا جائے اور کس
تہوار کومنانا جائز نہیں ۔اس میں کسی قسم کے ردو بدل کی اجازت نہیں ہے ۔
اسلام میں تہوار ، ذاتی خیالات کے تحت نہیں بلکہ ایک مجموعی حیثیت رکھتے
ہیں ۔ ابن ِ تمیہ نے فرمایا
تہوار قانون ، اور مذہبی تہوار وہ ہیں جن کو منانا اﷲ نے جائز قرار دیا ۔
جو کہ سب کے لیے ایک سے ہیں کسی کا ذاتی خیال ان میں ردوبدل نہیں کر سکتا
۔قرآن پاک میں ازشادِ باری تعالی ٰ ہے
ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے قانون بنایا اور کشادہ راہ ِ عمل بنائی ۔(
سورت المائدہ : آیٹ ۴۸)
اس سے مراد یہ ہے کہ ہر قوم کے لیے الگ تہوار مقرر کیے گئے ہیں ۔مسلمانوں
کو یہ جائز نہیں کہ کسی قوم کی پیروی کریں۔ ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا ۔
ہر قوم کی اپنی عید ہوتی ہے اور مسلمانوں کی یہ عید (سال میں دوبار )ہے ۔
بلکہ مسلمانوں کو کافروں کے ساتھ مماثلت اختیار کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے
۔اس تہوارکا تعلق تاریخی طور پر خالصتا َ عیسائیوں اور یہودیوں ہے اور
مسلمانوں سے اس کا کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ویلنٹائن ڈے اگرچہ
عیسائیوں کا مذہبی تہوار نہیں تاہم تاریخی اعتبار سے اس تہوار کا سلسلہ
عیسائی پادری سینٹ ویلنٹائن سے ملتا ہے ۔ مغربی ممالک میں ویلنٹائن ڈے کو
شادی یا نکاح سے ہٹ کر محبت کے دن کے طور پر منایاگیااور محبت کو جنسی بے
راہ روی سے منصوب کر دیا گیا ۔ جس کے نتیجے میں بے حیائی اور اخلاقیات میں
تنزلی معاشرے میں عام ہونے لگی ۔ بعد ازاں عیسائی مذہبی رہنماؤں نے بھی اس
دن کو منانے کی مخالفت کی اور اسے روکنے کے لیے سفارشات بھی پیش کی ۔
کچھ لوگوں کا سوال کرتے ہیں کہ کسی سے پیار ، محبت کے جذبات کا اظہار کس
طرح سے غلاط ہو سکتا ہے ؟
اول تو یہ دن کسی سے حقیقی محبت کے اظہار کے طور پر نہیں منایا جاتا ۔ بعض
نوجوان اس دن کو حقیقی محبت کے اظہار کے طور پر منانا چاہتے ہیں جو کہ غلط
ہے ۔ اس دن کو منانے کے آغاز سے لے کر آج تک اس محبت کے اظہار کے طور پر
منایا جاتا ہے جو کسی بھی رشتے پر مبنی نہ ہو ۔ اور اس اظہار میں کسی قسم
کی کوئی روک ٹوک نہ ہو ۔اسلام میں بنا نکاح کے کسی قسم کے جنسی تعلقات کی
اجازت نہیں ۔
اسلام عورت اور مرد کو میاں بیوی کے رشتے میں باندھتا ہے اور ان دونوں کے
درمیاں محبت کو جائز قرار دیتا ہے ۔ اور چاہتا ہے کہ تمام سال یہ دونوں ایک
دوسرے سے اچھا سلوک کریں ۔جتنا اسلام رشتوں کے مابین محبت ، عزت و احترام
کو فروغ دیتا ہے اتنا کوئی اور مذہب فروغ نہیں دیتا۔اسلام میں محبت کو صرف
ایک رشتہ تک محدود نہیں کرتا بلکہ ہر رشتے کے لیے محبت کا اظہار ضروری قرار
دیتا ہے ۔محبت کے اظہار کے لیے ایک کسی ایک دن کا مخصوص کر دیناکسی طور
جائز نہیں ۔
حدیث پاک میں ارشاد ہوتا ہے تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہلِخانہ کے
لیے بہترین ہے ۔ گویا اسلام اظہار ِ محبت کیلیے معاشرتی دائرے مقرر کرتا ہے
تاکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکے جس میں ہر شخص کو اخلاقیات کا پاس
ہو ۔ معاشرہ بے حیائی اور بے راہ روی سے پاک ہو ۔
اسلام ہر اس کام کی ممانت کرتا ہے جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ
ہو ۔ اسلام محبت کو محدود نہیں کرتا بلکہ لامحدود کرتا ہے ۔ پھر محبت ایک
ایسا جذبہ ہے جس کا اظہار صرف ایک دن تک محدود کر دینا بالکل ایسا ہی جیسے
دریا کو گلاس میں محدود کر دینے کی کوشش کی جائے ۔
|