ایک ا خباری خبر کے مطابق وزراء
اور سول بیورو کریسی کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے وزیرِ اعظم مانیٹرنگ
سیل بنا رہے ہیں ۔
بلا شبہ یہ ایک مستحسن قدم ہو گا ۔اسی سلسلے میں مختلف شعبہ جات کے لئے
پانچ تجاویز پیش کی جا رہی ہیں جو ممکن ہے کسی سطح پر کام آسکیں ۔
1 ۔ وز راء کی کارکردگی: وز راء کی کار کر دگی بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے
کہ ان کو شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم ٹارگٹس دیے جائیں اور لئے بھی جائیں ۔وزراء
اپنے ٹارگٹس پر نہ صرف خود کام کریں بلکہ اپنے محکمہ کے افسران تک منتقل
کریں ۔وزراء کی کار کر دگی جانچنے کے لئے جو مانیٹرنگ سیل بنایا جائے وہ
دیانت دار اور اہل لوگوں پر مشتمل ہو ۔وزیرِ اعظم خود اس سیل کی نگرانی
کریں اور وزراء وقتِ مقررہ پر اپنی کار کر دگی وزیرِ اعظم اور مانیٹرنگ سیل
کے سامنے پیش کریں ۔ٹارگٹس پورے نہ ہونے کی صورت میں وزراء کو فارغ کیا
جائے اور نئے لوگوں کو موقع دیا جائے۔بد قسمتی سے پارلیمانی نظامِ حکومت
میں منتخب اراکین ہی وزیر بن سکتے ہیں۔حکومتی مجبوریوں کے پیشِ نظر کوٹے
میں بھی ذمہ داریاں دینی پڑتی ہیں ۔مزید یہ کہ کئی وزراء کو دی گئی وزارت
کے بارے میں خاطر خواہ علم بھی نہیں ہوتااور وہ بیورو کریسی کے رحم و کرم
پر ہوتے ہیں ۔ عجیب بات ہے کہ پاکستان میں ہر مقصد کے لئے تجربہ مانگا جاتا
ہے ۔شاید وزارت واحد شعبہ ہوگا جس میں کسی تجربے کی ضرورت نہیں ۔وزیرِ اعظم
اگر وزراء کی کار کردگی بہتر بنانے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں جتنی جلد ممکن
ہو یہ کام شروع کر دینا چاہیئے۔ پاکستان توانائی کے بحران سے دو چار ہے اور
میاں صاحب نے انتخابی جلسوں میں اس بحران پر جنگی بنیادوں پر کام کرنے کا
اعلان کیا تھا ۔خیال یہ تھا کہ اس محکمہ کا وزیر کوئی ایسا شخص بنایا جائے
گا جو روزانہ کی بنیاد پر اپنے ٹارگٹس بنائے گا اور قوم کو اس بحران سے
نجات دلائے گا مگر ایسا نہیں ہو سکا ۔حالت تو یہ ہے کہ وزیر پانی و بجلی
اپنی ہی حکومت کے پلاننگ کمیشن پر تنقید کر کے اپنا دامن بچا رہے ہیں۔ کیا
ہی اچھا ہو کہ وزراء کی کار کردگی کا جائزہ وزارتِ پانی و بجلی سے شروع کیا
جائے ا ور اگلے چھ ماہ شارٹ ٹرم کے ٹارگٹس قوم کے سامنے رکھے جائیں ۔اسی
طرح لانگ ٹرم ٹارگٹس میں قوم کو بتایا جائے کہ کس طرح یہ حکومت اس بحران پر
قابو پائے گی ۔صرف اعلانات تک محدود رہ کر کام نہیں کیا جاسکتا۔خواجہ آصف
صاحب نے گزشتہ روز اپنی ایک تقریر میں اعلان کیا کہ بجلی کے بحران پر تو ہم
قابو پا لیں گے مگر اب پانی کا بحران بھی آنے والا ہے ۔خواجہ صاحب کیسے
بجلی کے بحران پر قابو پائیں گے ؟قوم کو ضرور بتائیں۔مزید یہ کہ پانی کا
بحران اگر آنے والا ہے تو متعلقہ وزارت کو اس سلسلے میں جاگنا ہو گا اور
وقت سے پہلے اس بحران سے نمٹنے کا انتظام کرنا ہو گا۔
2 ۔ سول بیورو کریسی ۔ سول بیورو کریسی کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے سب
سے پہلے تو سول سرونٹس کو دفتروں سے نکال کر عوام کے خادم بنایا جائے ۔انگریز
دور کے ’’ شاہی نظام ‘‘ سے نکال کر جب تک عوامی نظام نہ بنایا گیا اس ادارے
کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا ۔جس طرح وزراء کی کار کر دگی جانچنی ہے اسی طرح
سول انتظامیہ کو ٹارگٹس دے کر ان سے پوچھ گچھ کا نظام وضع کیا جائے۔ہر
کمشنر اپنے ڈویثرن اور ہر ڈی ․سی ․او اپنے ضلع کے ٹارگٹس بنائے اور ان پر
عمل در آمد کا نظام وضع کرے اور نیچے کی سطح تک احتساب اور کار کردگی کا
عمل شروع کیا جائے۔
3 ۔ سفارتخانوں کی کارکردگی۔ بیرونِ ملک قائم سفارتخانوں میں سفیر اور ان
کے عملہ پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے ۔دیکھا جائے کہ ان سفارتخانوں کی کار
کردگی کیا ہے ؟ سفارتخانوں میں کام کرنے والوں کو یہ کام سونپا جائے کہ وہ
جس ملک میں کام کر رہے ہیں وہاں پاکستان کا تاثر بہتر بنائیں ۔وہاں کے
تاجروں اور حکومتی عہدیداروں سے ملکر نہ صرف پاکستان کی سیاسی ، معاشی ،
تعلیمی اور سماجی حالات سے آگاہ کریں بلکہ ان ممالک سے باہمی معاشی اور
تعلیمی رابطے بہتر کر نے کے لئے کام کریں ۔وہاں کے تاجروں کو پاکستان میں
سرمایہ کاری کے لئے قائل کریں ۔یہاں کے تاجروں کے لئے ان ممالک کی تجارتی
منڈیوں تک رسائی کے لئے کام کریں ۔ وہاں کے طالب علموں کو پاکستان میں
تعلیمی وظائف دے کر یہاں لایا جائے اور یہاں سے طالب علم ان ممالک میں
جائیں ۔اسی طرح کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلوں کے انعقاد کے لئے راہ ہموار
کی جائے ۔پاکستان کے بارے میں خوف کی جو فضا بن چُکی ہے اسے ختم کرنے کے
لئے زیادہ سے زیادہ لوگوں سے روابط قائم کئے جائیں۔
4 ۔ صوبوں میں مقابلے کی فضا ـ : چاروں صوبوں اور گلگت ، بلتستان میں آپس
میں مقابلے کی فضا پیدا کی جائے کہ کہاں امن و امان بہتر ہے ؟ کہاں کا نظامِ
تعلیم اچھا ہے ؟ کس صوبے میں تجارت کے لئے زیادہ مواقع ہیں ؟کس صوبے کا
مالیاتی نظام دیانت دار ہاتھوں میں ہے ؟ صوبوں کے درمیان کھیلوں کے مقابلے
اور تعلیمی مقابلے صحت مند فضا قائم کر سکتے ہیں ۔ہر صوبے کی وزارت دوسرے
صوبے کی وزارت سے رابطہ قائم کر کے اپنی کار کردگی کا موازنہ کرتے ہوئے
اپنی کار کردگی بہتر بنا سکتی ہے ۔
5 ۔ وزیرِ اعظم کے اپنے ٹارگٹس / ترجیحات ـ ـ : وزیرِ اعظم اپنے لئے بھی
ٹارگٹس بنائیں ۔جن میں اپنی ٹیم کی کار کردگی کا جائزہ سر فہرست ہو ۔ وزارتِ
داخلہ ، وزارتِ خارجہ ، وزارتِ پانی و بجلی کی کار کردگی پر با لخصوص نظر
رکھیں۔تعلیم کے شعبہ میں صوبوں کو ٹارگٹس دیں تاکہ نظام میں بہتری لائی جا
سکے۔پاکستان خارجہ پالیسی میں ریت پر کھڑا ہے ۔ وزیر ِ اعظم نے بوجوہ وزارتِ
خارجہ اپنے پاس رکھی ہوئی ہے ۔اگر وہ علیحدہ وزیر خارجہ نہیں بنانا چاہتے
تو پھر اپنی کار کردگی کا جائزہ لیں کہ کس حد تک کامیاب وزیرِ خارجہ ہیں ۔بھارت
کے ساتھ ان کی خارجہ پالیسی میں کامیابی کی جھلک نظر نہیں آرہی۔افغانستان
کے موجودہ صَدر پاکستان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں جس سے فائدہ
اُٹھانے کی ضرورت ہے ۔اَمریکہ اگر ہمیں’’ کرم‘‘ کی نگاہ سے نہیں دیکھتا تو
متبادل’’ نظرِ کرم‘‘ تلاش کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیئے۔ چین کے ساتھ ساتھ
روس سے روابط بڑھائے جا سکتے ہیں ۔اِیران کے ساتھ تعلقات سعودی عرب کی وجہ
سے سرد مہری کا شکار ہیں جسے ختم کرنا ایک اور ٹارگٹ ہو سکتا ہے بدلتے ہوئے
حالات کے تناظر میں وزیرِ اعظم کو تمام محاذوں پر جنگی بنیادوں پر کام کرنے
کی ضرورت ہے ورنہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ |