کشمیریوں کیساتھ جیسا سلوک
1947میں ہوا 2014میں بھی ویسا ہی سلو ک ہو رہاہے۔ فرق صر ف اتنا ہے کہ
اُسوقت منصوبہ سازی کا اختیار چوہدری ظفر اﷲ کے پاس تھا اورالفرقان
بریگیڈکی کمان سیالکوٹ کے احمد ی ڈپٹی کمشنر کے ہاتھ تھی ۔ آجکل منصوبہ
سازی محترمہ فریال تالپور ، رحمان ملک اور آصف علی زرداری کرتے ہیں اور
الفرقان بریگیڈ کی جگہ سلطان بریگیڈ ، مجید بریگیڈ اور یٰسین بریگیڈ نے لے
رکھی ہے اور یہی لوگ ان بریگیڈوں کے کمانڈر ہیں ۔ سر ظفر اﷲ کے بعد جناب
ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ بنے تو مسئلہ کشمیر نے نیا رخ اختیار کیا ۔
آزادکشمیر کا چارج وزیرخارجہ نے سنبھالا اور جوایئنٹ سیکرٹری امان اﷲ نیازی
کشمیر کا وائسرائے بن گیا ۔ مولوی یوسف شاہ ، سردار عبدالقیوم ، سردار
ابراہیم خان اور چوہدری غلام عباس میں اختلافات پیدا ہوئے تو وزرات خارجہ
نے خلیج پر کرنے کے بجائے اسے وسعت دی اور درپردہ دو بڑے فریقوں جن کے
سربراہ چوہدری غلام عباس اور سردار ابراہیم خان تھے کو آشیر باد کا یقین
دلایا۔
وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جناب کے ایچ خورشید کو استعفےٰ
دینے پر مجبور کیا گیا اور انہیں غداری کے مقدمے میں پھنسا کر دلائی کیمپ
میں قید کر دیا گیا ۔ وزارت خارجہ نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کی نگرانی میں
آپریشن جبرالڑ کی منصوبہ بند ی کی تو جناب کے ایچ خورشید نے راولپنڈی اور
کراچی میں مقیم اہل سیاست و اقتدار کو باور کرانے کی بھر پور کوشش کی کہ
اسطرح کے آپریشن کے لیے حالات ساز گار نہیں۔ دوسری جانب کے کشمیری قبائلیوں
کے مظالم نہیں بھولے اور نہ ہی مجاہدین کی پذیرائی کا کوئی انتظام ہے ۔
نوجوانوں پر نیشنل کانفرنس کے پراپیگنڈ ے کا اثر ہے اور آزاد کشمیر کے عوام
سے جسطرح حکومت پاکستان برتاؤ کر رہی ہے وہ بھی قابل تحسین نہیں۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر کے ایچ خورشید کی نقل و حرکت محدود کی دی
گئی اور انہیں دوسری بار گرفتار کرنے کا منصوبہ بھی بن گیا ۔ جناب خورشید
کا خدشہ درست ثابت ہوا اور وزرات خارجہ کی ناقص منصوبہ بندی کے صلے میں
1965ء کی جنگ چھڑ گئی ۔ اس جنگ میں کشمیر تو آزاد نہ ہوا مگر درہ حاجی پیر
جیسی ایم گزر گاہ پر بھارت نے قبضہ کر لیا۔ تاشقند مذکرات میں جنرل ایوب
خان درہ حاجی پیر اور ملحقہ پہاڑیاں بھارت سے واپس لینا چاہتے تھے اور جناب
ذوالفقار علی بھٹور بار بار اس اہم معاملے کو مسودے سے خارج کر دیتے تھے۔
ایوب خان کو پتہ تھا کہ اگر درہ حاجی پیر واپس نہ لیا گیا تو بھارت کسی بھی
وقت سیز فائر لائن توڑ کر کوہالہ تک پہنچ جائے گا اور اسلام آبادبھارتی
توپوں کی ذد میں ہوگا۔ بھارتی وزیراعظم شاستری نے اپنی جان پر کھیل کر درہ
حاجی پیر کی واپسی پر دستخط کیے مگر سلطان ، یٰسین اور مجید بریگیڈکو اس
بات پرفخر ہے کہ پیپلز پارٹی نے تاشقند میں جنم لیا ۔ اگر واقعی یہ فخر کی
بات ہے تو انہیں ذوالفقار علی بھٹو پر نہیں بلکہ ایوب خان پر فخر کرنا
چاہیے جس نے بھٹو کے تیار کردہ مسود ے کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے سیکرٹری
اطلاعات کے مسودے پر دستخط کیے۔
بھٹو خاندان کی چوتھی خدمت گنگا طیارے کی تباہی اور مشرقی پاکستان کی
علحیدگی ہے جسکے ساتھ کارگل سیکٹر پر بھی بھارت نے قبضہ کر لیا۔ پانچویں
خدمت شملہ معاہدے کے تحت مسئلہ کشمیر کو اقوام متحد سے مقامی پنجائت میں
لانا ہے جس کی رو سے اب یہ مسئلہ بھارت اور پاکستان کشمیریوں کے مشورے کے
بغیر باہم رضامند ی سے حل کرینگے ۔اسی خدمت میں سیز فائیر لائن کو لائن آف
کنٹرول میں بدلنا ہے ۔ جسکا مطلب ادھر کا کنٹرول ہمارے ساتھ اور ادھر کا
کنٹرول تمہارے ہاتھ ۔ یعنی اُدھر تم ایدھر ہم اور ہد ف دونوں جانب کے
کشمیری ہیں۔
چھٹی خدمت آزاد کشمیر کا عبوری آئین ، آزادکشمیر کونسل کا قیام اور
آزادکشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکمرانی ہے جسکی وجہ سے پاکستانی سیاسی
جماعتوں نے آزاکشمیر کو نو آبادیاتی ریاست کا درجہ دے کر اپنی اپنی جماعتوں
کے نظر یاتی ، سیاسی ، سازشی اور مفاداتی اڈے کھول لیے ۔ سیاسی جماعتوں کی
آزاد ی بزنس میں آزاد کشمیر کے نو دولتیوں نے بھی مال لگایا اور پھر لوٹ
مار کی سیاست کی آڑ میں کئی گنا مال کمایا۔
بھٹو صاحب کی کشمیر نوازی کی کہانی بھٹو خاندان کی چار پشتوں پر مشتمل ہے۔
سر شاہ نواز بھٹو نے سینکڑوں میل دور ہند و اکثریتی ریاست کا پاکستان سے
الحاق کیا تو مہاراجہ کشمیر کو بھارتی حکمرانوں نے مجبور کیا کہ وہ کشمیر
کا بھارت سے الحاق کرے ۔ اس د باؤ کے باوجود مہاراجہ کشمیر نے اپنی آزاد
حیثیت قائم رکھنے کی بھر پور کوشش کی جسے کشمیری مسلمان سیاسی لیڈروں نے
سبوتاژ کر دیا۔ جنگ آزاد کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا اور مفاد پر ست ٹولے نے
قبائلیوں کے ہاتھو ں کشمیریوں کا قتل عام کر وایا ۔ سانحہ جموں سے بڑھ کر
وہ حادثات ہیں جو قبائلی لشکریوں نے برپا کیے اور کشمیریوں کی جیتی ہوئی
جنگ کو شکست میں بدل دیا۔
بھٹو صاحب کی خدمات کا تو ذکرہو ہی چکا ہے جبکہ بھٹو صاحب کے روحانی بیٹے
اور داماد نے گلگت بلتستان کو کشمیر سے کاٹ کر اپنی جاگیر میں تبدیل کر دیا
ہے جو آزادکشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے کی توہین اور معاہدہ کراچی کے علاوہ یو
این او کی قرار داد کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ جناب زرداری کی کشمیریوں سے
محبت کی دوسری مثال چالیس سال تک مسئلہ کشمیر کو منجمند کرنے کی سازش ہے جس
پر پانچ سال تک جناب زرداری نے عمل کیا اور اب اُن کے منہ بولے بھائی میاں
نوازشریف اور ان کے بڑے بھائی چوہدری مجید عمل پیرا ہیں۔
ظاہر ہے کہ جناب زرداری کے چالیس سالہ منصوبے کی تکمیل میاں برادران کے بس
کا روگ نہیں ۔مجاہد اول کے سپوت اول نے اپنی دانشمند انہ سیاست کے نتیجے
میں مسلم کانفرنس کا تقریباً خاتمہ کر دیا اور اب ملٹری ڈیموکریسی کی اُمید
پر سیاست کر رہے ہیں۔ مجاہد دوئم پر اُمید ہیں کہ کسی نہ کسی دن پاکستان
میں مارشل لا یا پھر کوئی بلا ضرور آئے گی اوراُن کی ملٹری ڈیمو کریسی کی
اُمید بھر آئے گی ۔ زرداری نے چالیس سالہ منجمند پالیسی کا اعلان کسی کے
کہنے پر ہی کیا ہوگا ور نہ مولانا فضل الرحمن کو چیئرمین کشمیر کمیٹی نہ
بناتے ۔ مولانا فضل الرحمن کا دوبارہ چیئرمین کشمیر کمیٹی بننا ہی اس بات
کا ثبوت ہے کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے باہم مشاورت سے مسئلہ کشمیر پر
چالیس ٹن بوجھ ڈال کر اُسے دفن کر نیکا پختہ ارادہ کر لیا ہے۔ جہاں تک
کھوکھلے نعروں اور بیانات کا تعلق ہے تو یہ سب دھوکہ فریب اور فراڈ ہے۔
میاں نواز شریف اور بلاول کی تقریریں کشمیریوں کو فریب میں مبتلا کر نیکا
بہانہ ہے اور کشمیری بھی اس فریب زدہ ماحول کے عاد ی ہو چکے ہیں۔ بلاول
کہتا ہے کہ پورا کشمیر لیسوں ۔فریب خوردہ کشمیریوں سے کوئی پوچھے کہ بلاول
پورا کشمیر کیسے لے سکتا ہے ۔کیا وہ اپنے نانا ، پڑنانا اور والد کی
پالیسوں سے انحراف کرتے ہوئے کوئی نیا منصوبہ بنائے گا؟ اب تو کوئی جونا
گڑھ اور مشرقی پاکستان بھی نہیں جس پر سیاسی چالبازی ہوگی۔ اب 1965جیسے
حالات بھی نہیں اور کوئی کے ایچ خورشید بھی نہیں۔ جسے دلائی کیمپ میں
قیدکیا جائے گا ۔گلگت بلتستان کو اُن کے پاپا پہلے ہی ہضم کر چکے ہیں اور
آزادکشمیر اُن کی ذاتی جاگیر ہے البتہ سر چوہدر ی ظفراﷲ کی سیٹ خالی ہے۔
بلاول چاہیں تو سر چوہدری بلاول کے نام سے ایک بھٹوڈویژن قائم کر لیں اور
پہلے سے موجود یٰسین بریگیڈ ، مجید بریگیڈ اور سلطان بریگیڈوں پر مشتمل فور
س کے قیام کا اعلان کر دیں اور ان تین مسلح بریگیڈوں کی معاونت کے لیے
انقلابی بریگیڈ بھی قائم کریں اور جنرل مشرف کے خادم خاص جنرل انور یا پھر
اُسکے مشیر اعلیٰ میجر حفیظ کو ڈپٹی فورس کمانڈر تعینات کردیں۔
علاوہ اسکے سابق چیئرمین جوائینٹ چیف آف سٹاف جنرل عزیز بھی ہمہ وقت دستیاب
ہیں ۔جنرل عزیز کی بیگم پہلے ہی پیپلز پارٹی کی ایم ایل اے بن چکی ہیں اور
اب جنرل صاحب گھر میں اکیلے اور بے روزگار ہیں جنہیں روزگار دینا باعث ثواب
بھی ہے۔
سر چوہدری بلاو ل بھٹو زرداری چاہیں تو ظفر اﷲ چوہدری ، ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ
اور الفرقان بریگیڈ کے ریکارڈ ، دستاویزات اور ڈائریوں کا بھی مطالعہ کریں
یاس کا م پر محترمہ فردوس عاشق اعوان اور جنرل انور کو لگا دیں۔
اگر سر بلاول بھٹو زرداری واقعہ ہی پورا کشمیر لینے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو
سب سے پہلے مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی سے ہٹائیں ورنہ
مسئلہ کشمیر اتنا بھاری بوجھ برداشت نہیں کر پا ئیگا اور آزادی سے پہلے ہی
دم توڑ دے گا۔ بلاول صاحب یہ بھی یاد رکھیں کہ لندن اور برمنگھم کے جلسے
انہیں چوہدری تو بنا دینگے مگر ان کا سیاسی قد کم کر دینگے ۔
سر بلاول کے لیے آخری مشورہ یہ ہے کہ اُن کے تینوں فور س کمانڈر غیر تربیت
یافتہ ہیں ۔ ان کے خاندان میں سے کسی نے کبھی جہاد آزادی میں حصہ نہیں لیا
اور نہ ہی میدان جنگ دیکھا ہے ۔ جنرل انور اور جنرل عزیز بھی کاغذی شیر ہیں
۔ یہ لوگ بہت اچھے لیکچرار ، استاد ، خطیب اور خدمت گار ہیں جس بنا پر
انہیں جرنیل بنایا گیا۔ کارگل کا منصوبہ جنرل عزیز نے بنایا جو ناکام ہوا ۔
جنرل انور کی جرنیلی اور صدارت جنرل مشرف کی خدمت اور جی حضوری کا صلہ ہے
ورنہ موصوف نے محترمہ فردوس عاشق اعوان کے حلقے میں ٹیوب ویلوں کے افتتاح
کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا۔ فوج میں جانے سے پہلے وہ سکو ٹیچر تھے اور
فوج میں رہتے ہوئے بھی زیادہ تر اُستاد ی ہی کرتے رہے ہیں۔
جناب بلاول پورا کشمیر کیسے لیتے ہیں ، فی الحال بات سمجھ سے باہر ہے ۔اگر
بلاول الفرقان بریگیڈوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں تو یہ بریگیڈ سیالکوٹ والے
الفرقان بریگیڈ سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہونگے ۔ سنا ہے کہ جناب بلاول نے
تاریخ کے مضمون میں اعلیٰ ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے توا
نہیں کشمیر کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے اور پیپلز پارٹی آزادکشمیر کے
لیڈروں کی خاندانی تاریخ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اُن کے جلسوں میں شرکت
کرنی چاہیے۔ نو دولیتا قیادت اور برادری سیاست کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی ۔
بلیک لیبل قیادت کا انجام بلیک ہول ہی ہوتا ہے۔ ٹن قائدین قوم کے زوال کا
باعث تو بن سکتے ہیں ، عزت ، آزادی ، اتحاد، اور حرمت کا نہیں جیسا کہ
ابتدا میں لکھا ہے کہ ہر چیز لوح محفوظ میں لکھی جا چکی ہے اور قرآنی تاریخ
اس حقیقت کی گواہ ہے ۔ قوموں کے زوال کا ایک سبب جاہل، اُجھڈ ، کرپٹ اور
نمائشی قیادت اور قوموں اور قبیلوں کا ایسے قائدین کی رہنمائی قبول کرنا
بھی ہے۔ مسئلہ کشمیر محض سیاسی نہیں بلکہ روحانی دینی ، مذہبی اور فکری
مسئلہ بھی ہے جسے لوفرلفنگے اور چور لیٹر ے حل نہیں کر سکتے ۔
لندن اور برمنگھم کے جلسوں کا مقصد نہ تو تحریک آزادی کشمیر کو تقویت دینا
تھا اور نہ ہی بلاول کی تشہیر تھا۔ بلاول اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو
کشمیر او ر مسئلہ کشمیر پر ہندوؤں کے بعد سب سے زیادہ انگریز مصنفین نے
لکھا ہے۔ کشمیر اور کشمیریوں کے متعلق جتنا اہل یورپ جانتے ہیں اتنا
پاکستانی اور کشمیری بھی نہیں جانتے ۔بلاو ل بھٹو زرداری اگر غور کریں تو
اُن کی سمجھ میں آجائے گا کہ لند ن اور برمنگھم کے ہنگاموں کا مقصد مسئلہ
کشمیر کو ہڑ بونگ کی نذر کرنا اور بلاول کی تذلیل کرنا تھا۔جس کا ثبوت
بیرسٹر سلطان کے عمران خان کے ساتھ جا ملنے سے مزید واضح ہو گیاہے۔بلاول کو
ان کے والد نے پہلے ہی گوشہ نشینی میں بھیج دیا ہے جس کی وضاحت
ذوالفقارمرزا نے کر دی ہے۔ بہتر ہوگا کہ جناب بلاول چوہدریوں کے چکرمیں آکر
کشمیر کے چوہدری نہ بنیں اور نہ ہی الفرقان بریگیڈوں کے سہارے سارا کشمیر
لینے کی اُمید رکھیں۔ |