دہشت گرد
(Prof. Niamat Ali Murtazai, Karachi)
دہشت گردی کا ناصرف ملکِ
عزیز بلکہ عالمِ دورو قریب میں دور دورہ ہے۔مشرق اور مغرب اس عالمی بے
سکونی اور بے اطمینانی کا شکار ہیں۔اور زمانے پر سرسری سی بھی نگاہ ڈالیں
تو دہشت گردی کی گرد دور دور تک بیٹھتی نظر نہیں آتی،بلکہ اس دہشت گردی کو
اگر نظرِ تصور میں دیکھیں تو بہت گھناؤنے نتائج کی طرف رہنمائی کرتی محسوس
ہوتی ہے۔
دہشت گرد کے لفظ ہر غور نہ بھی کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ دو الفاظ یعنی
’دہشت ـ‘ اور ’گرد‘ کا مرکب ہے۔دہشت کا معنی خوف و ہراس ہے جبکہ گرد کا
معنی پھیلانا،گھومنا،پھرنا وغیرہ ہے۔عرفِ عام میں دہشت پھیلانے والے کو
دہشت گرد کہا جاتا ہے۔لیکن ’گرد‘ کے حقیقی احساس میں وہ شخص جو دہشت میں
گھومتا پھرتا ہے دہشت گرد ہے۔اور جو دہشت پھیلاتا ہے وہ ’دہشت ناک‘
ہے۔کیونکہ ’ناک‘ کا لاحقہ پھیلانے میں زیادہ مستعمل ہے جیسا کہ ہیبت ناک،
خطرناک،شرمناک وغیرہ۔
دہشت ناک یا دہشت گرد صرف اور صرف اسی کو تو نہیں کہنا چاہیے کو اپنی جان
ہتھیلی پر رکھ کر دوسروں کی جان کے درپے ہوجائے۔یہ تو دہشت گردی یا دہشت
ناکی کی انتہا ہے۔اور اصل میں یہ انتہا پسندی ہی ہے۔دہشت گردی کے اور بھی
تو بے شمار پہلو اورٹاگٹ ہو سکتے ہیں۔جیسا کہ استاد بچوں کے لئے اتنی زیادہ
دہشت کا مرکز ہوا کرتے تھے اور بعض اداروں میں آج بھی ہیں کہ بچے ان کی
دہشت سے سکولوں کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا کرتے تھے۔میرے جیسی کسی
حساس شخصیت کے لئے انٹرویو کرنے والی ٹیم بھی دہشت کا نشان ہو سکتی
ہے۔کمزور طالب علموں کے لئے سارا امتحانی نظام دہشت گردی کی منہ بولتی مثال
ہے۔ قومی الیکشن کاسارا دن عملے کے لئے دہشت کے سائے میں گذرتا ہے۔غریب
آدمی پر قیمتوں کی دہشت ناکی کا اتنا اثر ہوتا ہے کہ وہ بچارہ یا تو خود
کشی کی راہ اختیار کرتا ہے یا اپنا گردہ بیچنے کے لئے تیار رہتا ہے کیونکہ
جگر کا سودا کرنے کا اس کے پاس جگر نہیں ہوتا۔ہماری پولیس شریف بہ نفسِ
نفیس دہشت گردی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔مجھے یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ
ہمارے عومی رویے میں خرید و فروخت پر اتنی رد و کد ہوتی ہے اور یہی لوگ
ڈاکٹر صاحب کے پاس بیٹھ کر یوں بیبے طوطے بن جاتے ہیں جیسے وہ کسی اور
معاشرے سے تشریف لائے ہوں اور ڈاکٹر صاحب کی منہ بولی یا بورڈ پے لکھی فیس
فوراً جمع کروا دیتے ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ ان کو ڈاکٹر صاحب خوف زدہ
کرتے ہیں لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ وہ لوگ دہشت زدہ ہو ضرور جاتے ہیں ۔ بچہ
تو ڈاکٹر کے نام سے ہی دہشت زدہ ہو جاتا ہے ہم بھی ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر
ڈاکٹر کے ٹیکے میں وہ دہشت بھری ہے کہ بڑے بڑے بھی خوف زدہ نظر آتے ہیں۔
ایک ملازم بندے یا بندی کے لئے اس کا آفیسر کسی دہشت گرد سے کم دکھائی نہیں
دیتا کیوں کہ اس کے سامنے آتے ہی وہ دہشت زدہ ہو جاتا ہے۔کبھی کبھی تو
دھمکیاں بھی لگ جاتی ہیں اور کبھی کبھی وہ آفیسر ملازم کی تنخواہ بھی بند
کروا دیتا ہے جس سے اس کے سانس بند ہونے کا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔یعنی
جان بھی جا سکتی ہے۔ہوئی ناں یہ کھلی دہشت گردی۔چھوٹے آفیسر کے لئے بڑا
آفیسر دہشت ناک ہوتا ہے اتنا وہ عزرائیل یا منکر نکیر سے نہیں ڈرتا جنتا
اپنے آفیسر سے ڈر تا ہے۔بیوی سے ہو سکتا ہے کہ اس سے زیادہ ڈرتا ہو۔
ایک شادی شدہ شخص کے لئے انتہا پسند دہشت گردوں سے بھی زیادہ دہشت کا سبب
اس کے سسرال ہو سکتے ہیں (سارے نہیں)۔اگر اس طرح کی دہشت کا ماحول بن جائے
تو شریکِ حیات ان سسرال والوں کی ایجنٹ محسوس ہوتی ہے جو پل پل کی خبر سے
ان کو آگاہ رکھنے کا فریضہ چابکدستی سے انجام دیتی ہے۔اور اگر معاملات حد
سے گذر جائیں تو دہشت ناکی انتہائی شکل بھی اختیار کرنے سے نہیں چوکتی۔اور
آناً فاناً عملی اقدامات کر لئے جاتے ہیں۔جن میں سے ایک میاں صاحب کا رات
گھر سے باہر گذارنا ہو سکتا ہے چاہے کہیں بھی ہو جیسا کہ مسجد،فٹ پاتھ،دوست
کا گھر وغیرہ۔
جوانی کی دوپہر ڈھلتے ہی جس چیز میں دہشت گردی نظر آتی ہے وہ ہیں سفید
بال۔جیسے ہی یہ بال جلوہ افروز ہوتے ہیں انسان اندر سے ہل جاتا ہے ،اسے
اپنی جوانی کی کہانی کا اختتام نظر آنے لگتا ہے۔خاص کر اگر اس کا کوئی
معاشقہ وغیرہ ابھی تک انجامِ عبرت ناک تک نہ پہنچا ہو تو اس کی تکمیل کا
وقت قریب آتا ضرور دیکھائی دیتا ہے۔ ستم ظریفئی فطرت یہ کہ یہ دہشت گرد ہر
روز اپنی زریت میں اضافہ ہی کرتے چلے جاتے ہیں۔لاکھ دفاعی کوششیں کرو ان کی
تخریبی سرگرمیوں میں ہر آنے والے ہفتے میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔مرد
ہو کہ عورت،بچہ ہو کہ بوڑھا جس کسی پر بھی ان دہشت گردوں کا وار چل جائے
،کسی کو نہیں بخشتے۔بس یہ بزرگ صورت دہشت ناک اپنی دہشت ناکی میں روز افزوں
بڑھوتری ہی کئے جاتے ہیں۔مرتا کیا نہ کرتا۔اب سفید بالوں کی دہشت گردی کا
نشانہ بننے والے متاثرین اپنی مقدور بھر کوشش تو ضرور کرتے ہیں لیکندہشت
گرد کب کسی کی سنتے ہیں وہ تو گھر سے نکلے ہی اپنے آپ کو اور دوسروں کو
مارنے کے لئے ہوتے ہیں انہیں اپنی جان ہی پیاری نہیں ہوتی کسی اور کی کیا
ہو گی۔بہت سارے اور قریباً سارے لوگ ہی ان دہشت گردوں سے پناہ مانگتے
ہیں۔بعض ان سے عارضی پناہ کے لئے بالوں کو کلر بھی کر لیتے ہیں اور پھر تا
دیر اس فریضہ کی انجام آوری میں اپنی عمرِ عزیز کا ایک بہت بڑا حصہ صرف بھی
کر دیتے ہیں۔کئی ایک مردانِ رن یعنی مردانِ میدان اپنی ظاہری ساکھ بچانے کے
لئے اپنی مونچھوں کو ویسے ہی دیس نکالا دے دیتے ہیں اور سر کے بالوں کو خوب
رنگ و روغن کئے رکھتے ہیں۔ اس سے ان کی شخصیت کا طلسم سر چڑھ کر بولتا رہتا
ہے۔اور وہ دہشت گردوں پر کسی حد تک قابو پانے میں کامیاب لگتے ہیں۔
بالوں کی دہشت گردی کا دوسرا حربہ سر سے غائب ہو جانا ہے۔اگر بال سفید ہونے
میں اپنا اطمینان نہ پائیں تو وہ اپنی جان کو ہی فنا کر کے ہمیشہ کے لئے
انسان کا سر بے بال و پر چھوڑتے ہوئے ملکِ عدم کو سدھار جاتے ہیں۔اور شریف
انسان اپنے سر پر بے شمار دفعہ ہاتھ لگانے اور ہاتھ پھرنے کے بعد صبر کا
دامن اتنی مضبوطی سے تھام لیتا ہے کہ بس اس کے بغیر کچھ کیا ہی نہیں جا
سکتا۔قہرِدرویش بر جانِ درویش۔اپنے ہاتھوں سے اپنے سر کے بال گرتے ہوئے
دیکھنا جگر گردے کا معاملہ ہے۔لیکن مجبوری ہے کہ کچھ کیا ہی نہیں جا
سکتا۔دہشت گرد پھر کامیاب ہو جاتے ہیں۔اور وہ اس وقت دم لیتے ہیں جب سر کا
اگلا حصہ کرکٹ کی پچ جیسا منظر پیش کرنے لگتا ہے جیسے دہشت گردوں نے وہاں
کرکٹ کا ٹورنامنٹ کروانا ہو۔
بالوں کی دہشت گردی ایک اور صورت میں بھی حملہ آور ہوتی ہے اور وہ ہے
عورتوں کے عجیب و غریب سٹائلوں کی کٹنگ۔عورتوں کے بالوں کا ستم گر ہونا تو
مدت مدید سے چلا آہی رہا ہے لیکن اب یہ بال ستم گر کی ہلکی سی کیفیت سے
کہیں آگے نکل چکے ہیں۔اب تو وہ دہشت گردی کے صحیح معنوں میں علمبردار بن
چکے ہیں۔ایسی ایسی کٹنگ دیکھنے میں آتی ہے کہ قیامت بھی الامان پکار اٹھے۔
اس پر مستزاد یہ کہ ان بالوں میں قیامت خیز رنگ بھی بھرے جاتے ہیں جو ان کے
سوٹوں کیے رنگوں کے ساتھ میچ یا کنٹراسٹ کر رہے ہوتے ہیں۔مصیبت دیکھنے
والوں کے لئے ،نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔بس دہشت گردی کا نشانہ بن
گئے۔
سر کے بالوں سے گھر کے بال یعنی بچے یاد آگئے۔یہ بچے(kids)بھی جب اپنی آئی
پے آجاتے ہیں تو پھر کسی دہشت گرد سے پیچھے نہیں رہتے۔اپنی ہی بات منواتے
ہیں ورنہ اپناحشر کروا لیتے ہیں لیکن ضد نہیں چھوڑتے۔ان پر غصہ بھی آتا ہے
اور بعض صورتوں میں نکالا بھی جاتا ہے لیکن پھر پیار بھی جلد آ جاتا ہے۔یہ
بات مشاہدے میں بھی ہے اور نفسیات دان بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ بگڑے
بچے سے پیار کیا جائے تو وہ جلد سدھر جاتا ہے اور اگر اس سے سختی کی جائے
تو وہ اور بگڑتا ہے۔لیکن تمام صورتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔یہ بھی کہا جاتا
رہا ہے:spare the rod and spoil the child.
دہشت گردی کا ایک اور پہلو سمارٹ اور باریک کپڑے بھی ہیں جو کہ زیادہ تو
گرمی کے سیزن میں گرمی کم کرنے کے لئے ذیبِ تن کئے جاتے ہیں۔ان باریک کپڑوں
میں لپٹی پریوں کو دیکھ کر کوں شریف آدمی دہشت زدگی کا نشانہ بننے سے بچ
سکتا ہے۔شاید صرف وہ جو آنکھ نہیں رکھتا یا وہ جو آنکھ رکھتا ہو۔بڑے شہروں
میں یہ مہذب دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی مائی کا لال انہیں
پوچھنے،روکنے یا ٹوکنے والا نہیں ۔اور کوئی ہونا بھی نہیں چاہئے کہ اتنی
اچھی خوبصورتی کو گرہن نہ لگ جائے۔ویسے بھی ایسی دہشت گردی تو ہر کوئی
چاہتا ہے۔یہ ہوش ربا لوگ بلا کے دہشت گرد ہوتے ہیں۔اور یہ کوئی نئی بات بھی
نہیں ہے،پرانے زمانوں سے چلی آرہی ہے۔ بھلا میرؔ صاحب نے بلا وجہ تو نہیں
فرمایا ہو گا: ہوش جا تا نہیں رہا لیکن
جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا
بلکہ مضافات سے شریف لوگ ایسی دہشت گردی کا نشانہ بننے کے لئے ترستے ہوئے
بڑے شہروں میں آتے ہیں۔یہ دہشت گرد نقاب پوشی بھی اختیار کر سکتے ہیں اور
سرمے سے دشنہء مژگاں تیز بھی کئے ہوتے ہیں۔لمبے لمبے ناخن اور وہ بھی خون
جیسے سرخ، لال سرخ لہو رنگ ہونٹ اور پھر باقی چہرے پر بھی خونی شیڈ۔ان سے
بڑھ کے کون دہشت ناک ہو سکتا ہے۔لگتا ہے کہ ابھی ابھی کسی کا خون پی کے
آرہے ہیں۔جی چاہتا ہے کہ بلا تاخیر اب وہ ہمارا گھونٹ بھی بھر ہی لیں۔
(تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ):
موت بہتر ہے اس زندگی سے مجھے
خون پیتے رہو دم نکلتا رہے
دہشت گردی کا ایک پہلو بڑے شہروں کی عالی شان عمارتیں ہیں جنہیں دیکھ کر
انسان دھنگ رہ جاتا ہے۔کہ ایسی عمارتیں ہیں کہ انسان کی حیرت گم ہوتی ہے۔اس
پر ایک رعب طاری ہوتاہے اور وہ دہشت میں آ جاتا ہے کہ اتنی بڑی عمارت کا
خیال اور باقی ساری پلاننگ کیسے کی گئی ہو گی۔اس کی سمجھ جواب دی دیتی ہے
اور وہ ورطہ حیرت میں ڈوب کر ان خاموش دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ خاص
طور پر پرانی عمارتیں ایسا ہی کرتی ہیں۔ انہیں دیکھ کر آدمی ضرور دہشت زدہ
ہو تا ہے۔وہ پرانے انداز ،طرزِ تعمیر،چوڑی چوڑی دیواریں،تہہ خانے
،سناٹے۔الغرض ہر چیز دہشت پیدا کرنے اور اسے فروغ دینے میں اپنا رول پلے
کرتی نظر آتی ہے۔
کچھ لوگوں کی غربت دہشت ناک ہے اور کچھ لوگوں کی امارت دہشت گرد ہے۔اتنی بے
کسی ہے کہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔مال و دولت تو ایک طرف،جسم ہی پورا نہیں
ہے۔زمیں پر رینگ رینگ کر زندگی کا خراج ادا کیا جا رہا ہے۔اور دوسری طرف
اتنی امارت ہے کہ لگتا ہے کہ ان لوگوں کو جیسے دنیا ہی میں جنت مل گئی
ہو۔زمینوں کا کوئی حساب نہیں،بینک بیلنس کا کوئی شمار نہیں۔کسی چیز کی کمی
نہیں۔دولت تو جیسے گھر کی لونڈی ۔بے دریغ خرچ اور پانی کی طرح دولت کا بہاؤ
۔آدمی دیکھ کے ششدر رہ جاتا ہے کہ ان لوگوں نے آخر ایسا کیا کیا ہے کہ ان
کی دولت بے حد و حساب ہے۔سمجھ ہی کچھ نہیں آتا سوائے اس کے کہ بس ایک چپ،سو
سکھ۔لیکن اس چپ میں حواس دہشت زدہ ضرور ہوتے ہیں۔انسان کو اس فراوانی پر
حیرانی اور حیرانی پر دہشت ناکی ہو تی ہے کہ ان لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے
کہ خود ان کو اپنی دولت کا صحیح شمار نہیں آتا۔اور ادھر لوگ دو وقت کیا ایک
وقت کی روٹی کو ترس ترس کے صبح کو شام کر رہے ہیں۔اتنا بڑا بعد دیکھ یا سوچ
کر دہشت آتی ہے۔
تھر کے علاقے میں ہونے والی ہلاکتیں بلا شبہ دہشت ناک ہیں کہ ہم اپنی نئی
نسل کو اپنے ہی ہاتھوں سے مارے جا رہے ہیں۔اتنی ترقی کے دور میں بھی کیا
ایسا ہو سکتا ہے جیسا کہ حقیقت میں ہو بھی رہا ہے۔کون ایسا انسان ہو گا جو
بھوک سے مرنے والے بچے دکھ کر دہشت زدہ نہ ہو جائے۔کیا انسان کا ضمیر گوارا
کرتا ہے کہ اس کے سامنے یہ سب کچھ ہوتا رہے اور وہ بس ایک بت کی صورت
مسکراتے چہرے کے ساتھ رہ سب کچھ ہوتا دیکھتا رہے۔بالکل نہیں۔انسانی ضمیر یہ
بربادی برداشت نہیں کر سکتا۔اس کا اندر اسے ملامت کرے گا کہ وہ اپنے حصے کا
کم از کم احتجاج بھی ریکارڈ نہیں کروا رہا۔اس دہشت گردی کو بھی روکنے کی
بھر پور کوشش کی جائے۔
پہلی رات(شادی کی نہیں) قبر کی،بہت دہشت شدہ کرتی ہے۔اس جگہ جہاں لوگ دن
دیہاڑے جانے سے ڈرتے ہیں،وہاں جا کے ہمیشہ کے لئے (تا قیامت )ٹھہرنا کتنا
خوف پیدا کرتا ہے۔عورتوں کا اس طرح کی منتقلی کا تصور تو اور بھی زیادہ
دہشت ناک ہے۔لیکن یہ ہے ایک ایسی حقیقت جس پر انسان کا اختیار نہیں۔اس سے
بچنے کا کوئی چور دروازہ نہیں،ہر کسی نے جانا ہے:
جانا ہی ٹھہرا ہے تو جا کر دیکھائیں گے
واپس نہ اس جہان میں آکر دیکھائیں گے (مرتضائیؔ)
یہ ایسا تصور ہے کہ انسان کے اندر اور باہر کی صفائی کر دیتا ہے۔اور پھر
جہنم کے انتہائی خوف ناک مناظر کسی بھی دہشت سے کم نہیں ۔لیکن وہاں کوئی
زیادتی نہیں کر سکتا۔یہ بات اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ انسان پر موت لازم
ہے۔اور سب نے اکیلے ہی جانا ہے۔
سجن رے جھوٹ مت بولو خدا کے پاس جانا ہے
نہ گھوڑا ہے، نہ ہاتھی ہے وہاں پیدل ہی جانا ہے
مذاہب نے اس خوف کے ذریعے انسان کی اصلاح کرنے کی بہت کوشش کی ہے کہ وہ
آخرت کے
خوف سے ہی سہی اپنے اندر اچھائی پیدا کرے۔آخرت کی دہشت ناکی صرف اور صرف
انسان کی بھلائی کے لئے اختیار کی گئی ہے۔چلیں ایک بات تو ملی کہ دہشت گردی
صرف منفی نہیں ہے اس کے کچھ پہلو مثبت کردار بھی ادا کرتے ہیں۔
موسموں ، سونامیوں اور زلزلوں کی دہشت گردی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ہر موسم
اپنی پوری پوری دہشت گردی کر کے ہی آگے بڑھتا ہے اوراگر وہ ایسا نہ کرے
تولوگ کہتے ہیں کہ اس دفعہ موسم کا پتہ ہی نہیں چلا۔ گرمیوں کی دوپہریں
اپنی گرما گرم لو کے ساتھ وہ دہشت گردی کرتی ہیں کہ معصوم لوگ اپنا منہ
چھپاتے پھرتے ہیں۔یا پھر سویمینگ پولز پے جا کے سرِ عام اجتماعی غسل فرماتے
ہیں۔اور جب سردی اپنی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں اور دھندوں کے ساتھ سارے ماحول کو
یرغمال بنا لیتی ہے تو اسے دہشت گردی سے نہ چوری کی بجلی سے چلنے والے ہیٹر
بچا سکتے ہیں اور نہ گیس کے فرماں بردار چولہے اور نہ ہی سارے سال کے
سنبھالے گئے موٹے موٹ کپڑے۔ساون بھادوں کی بوچھاڑیں بھی کیا کوئی کم ستم
ظریفی کرتی ہیں۔کتنی کمزور چھتیں گرا کر چلتی بنتی ہیں ۔کیااس سے کوئی
استفسار کر سکتا ہے کہ اس نے غریبوں کے مکان کس سے پوچھ کر گرائے ہیں ۔موسم
کی پسندیدگی اس بات پر منحصر ہے کہ وہ دہشت گردی کرے ورنہ اس کے آنے اور نہ
آنے میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔
یہی حال زلزلوں ،سیلابوں اور سونامیوں کا ہے اگر کوئی معمولی سا زلزلہ یا
سیلاب آئے تو خبر ہی نہیں بنتی ، کوئی سننا ہی نہیں چاہتا۔ اور اگر سونامی
اپنی طاقتیں نہ دکھائے تو سیاسی لیڈر اپنی تقریروں میں ان کا ذکرِ خیر کیوں
کر کریں گے۔
جانوروں اور جنوں تک پے یہی چیز اپلائی ہوتی ہے۔ہر کوئی شیر،شیر کرتا ہے۔اس
کی بہاددری زبان زدِ عام ہے لیکن جیوگرفی کا چینل دیکھ کر اس غلط فہمی کا
آسانی سے ازالہ ہو جاتا ہے۔بلکہ شیر ایک مکار اور موقع شناس جانور بن کر
سامنے آتا ہے۔گروہ کی شکل میں بچاری ہرنوں اور بھینسوں پر حملہ آور ہونے
والوں کو کوئی بے وقوف ہی بہادر کہے گا۔اصل میں تو شیر جنگل کا دہشت گرد
ہے۔جب اپنے سے طاقتور کو دیکھتا ہے اپنا رخ بدل لیتا ہے اور جب ہرن جیسے
ملوک جانور پر اس کی نظر پڑتی ہے تو اس کا دل للچانے لگتا ہے۔یہ کون سی
جواں مردی ہے۔ویسے شیر نے بھی ہم سے کون سا اشٹام لکھوایا ہوا ہے کہ ہم اسے
تا قیامت بہادری کی علامت بنائے رکھیں گے۔لیکن اس کے دہشت گرد ہونے کے ثبوت
بہت راسخ ہیں۔کیونکہ وہ اپنے سے کمزوروں پر ستم ڈھاتا ہے۔
فضا میں نظر دوڑائیں تو عقاب اور باز جیسے پرندے پوری پوری دہشت گردی کرتے
نظر آتے ہیں۔ شاہین کا استعارہ اگر شاہین کے ظلم و ستم کو دیکھ کر بنایا
جاتا تو وہ کبھی بھی مثبت معانی حاصل نہ کر پاتا،جیسا کہ شیر صاحب کا
استعارہ ہے۔شاہین علمی ادبی دنیا میں اپنے اندر کتنی مثبت معنویت رکھتا ہے
لیکن جب اس شریف پرندے کی کمزور پرندوں پر دہشت گردی پر نظر جاتی ہے تو
ساری معنویت پاش پاش ہو کر ہوامیں بکھر جاتی ہے۔لیکن کیا کیا جائے ان ساری
باتوں کا معاملہ یورپ کے مہذب پن جیسا ہے۔کسی کو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
ہوائی مخلوق میں سے جن جس کو چاہے چمٹ جاتا ہے اور خوب دہشت گردی کرتا
ہے۔اس کی دہشت گردی مٹانے کے لئے کسی سخت مزاج عامل کو لانا پڑتا ہے جو اس
کو اس معصوم کی جان بخشی کرنے پر راضی یا مجبور کر سکے۔جنوں کے ساتھ ساتھ
چڑیلیں اور ڈائنیں بھی تو دہشت گردی کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں چاہے وہ یہ
کام انسانی روپ میں آکر ہی کریں۔کیوں کہ وہ روپ دھارنے کی مکمل اجازت اور
اہلیت رکھتی ہیں۔
سب سے بڑا دہشت گرد بڑھاپا ہے۔انسان کا وہ برا حال کرتا ہے کہ بس خدا کی
پناہ۔انسان کو دنیا میں آنے کی غلطی کی وہ سزا دیتا ہے کہ انسان ’باں باں‘
کر اٹھتا ہے۔کسی کی آنکھیں نکال کے کہیں چھپا دیتا ہے کہ دنیا اندھیر ہو
جاتی ہے،کسی کے دانت غائب کر دیتا ہے کہ کھانے پینے اور بولنے کا سارا لطف
برباد ہو جاتا ہے، کسی کی کمر کو محراب میں بدل دیتا ہے اور کبھی تو اسے
پہلی رات کے قمر کی طرح ہی کر دیتا ہے۔کسی کو زمین ہر گھسیٹنے پر مجبور کر
دیتا ہے،اور کسی کو در بدر بھیک مانگنے کی سزا سے نوازتا ہے۔کسی کے منہ کو
جھریوں سے یوں بھر دیتا ہے جیسے ماضی کا نقشہ بنا ہو۔ناک سے سیٹیاں بجواتا
ہے کہ بچے بھی بوڑھوں کا مذاق اڑائیں۔خواتین کی رغبت کے سارے سازو سامان کا
ستیا ناس کر دیتا ہے۔بھلا اس سے شدید دہشت گردی اور کیا ہو سکتی ہے۔کوئی
غور ہی نہیں کرتا ۔بس سب بڑھاپے کا احترام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔بڑھاپے کو
دوسرا بچپن بھی کہا جاتا ہے لیکن ایک بہت بڑے تضاد کے ساتھ۔بچے سے تو ہر
کوئی محبت کرتا ہے اپنے تو اپنے بیگانے بھی ،لیکن بوڑھے سے ہر کوئی بیزاری
اختیار کرتا ہے بیگانے تو بیگانے اپنے بھی۔تو بڑھاپا دوسرا بچپن کیسے ہو
سکتا ہے۔یہ بچپن سے بہت الٹ ہوتا ہے۔(اس کا تفصیلی موازنہ ہم کسی اور تحریر
میں کریں گے۔)بڑھاپا بہت سفاک دہشت گردوں کے زمرے میں فال کرتا ہے۔
جوانی کی دہشت سے کوئی جوان یا بوڑھا ،عورت مرد انکار کر ہی نہیں
سکتا۔بڑھاپا من مانی کرتا ہے جبکہ جوانی من مانی کرواتی ہے۔بندے کی مت مار
دیتی ہے اور کئی سالوں تک مارے رکھتی ہے۔بڑی مشکل سے جانے کا نام لیتی ہے
کہ زندگی کی سمجھ کی ابجد آنے لگتی ہے۔بندے کو کچھ مدت کے لئے بہرا اور نا
بینا کر دیتی ہے۔اس کے حواس کو خواہش کی جاگیر دارنی کے پاس گروی رکھوا
دیتی ہے۔وہ دیکھتے ہوئے بھی نہیں دیکھتا اور سنتے ہوئے بھی نہیں سنتا بس وہ
وہ کرتا ہے جو اس کی خواہش اسے حکم دیتی ہے۔اتنی اچھی عمر میں حواس کو قید
کروا دینا دہشت گردی کی بد ترین مثال بنتی ہے۔
ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرانا تو کوئی دہشت گردی نہیں تھی
ناں،وہ تو دوسری عالمی جنگ ختم کرنے کے لئے امن کی شمع روشن کرنا تھا۔اور
اس کے بعد سے دنیا میں امن چلا آرہا ہے۔کشمیر کے نہتے نو جوانوں کے خون سے
ہولی کھیلنا بھی تو کوئی دہشت گردی نہیں ہے کہ انتا سا تو پھر قوموں کے
مابین ہوتا ہے،چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسدؔ، یا یہ کہ لہو گرم رکھنے کا ہے
اک بہانہ،یہ کوئی دہشت گردی نہیں ہے۔اسرائیل کا فلسطین کے علاقوں پر قابض
ہونا تو بالکل دہشت گردی نہیں ہو ۔یہودی بچارے دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے
تھے کہ ان کو یہاں بسایا گیا تا کہ دنیا کی معیشت ان کے بغیر چل نہیں سکتی
۔وہ نہ ہوں گے تو دنیا کا پہیہ کیسے چلے گا کسی کی سمجھ میں نہیں آتا ، اس
لئے ان کا اسرائیل آباد کرنا ازحد ضروری تھا اور ہے بھی یہ کوئی دہشت گردی
تو نہیں ہے ناں۔بہت سارے عرب ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجانا ان کی حیاتِ
جاوداں کے لئے اکسیر ہے وہ تو سو رہے تھے ان کی تباہی تو ان کو جگانے کے
لئے کی گئی ہے یہ کوئی دہشت گردی تھوڑی ہے۔دہشت گردی مہذب ممالک نہیں کیا
کرتے۔اٹھارویں اور انیسویں صدی میں یورپ نے دنیا تو تہذیب سے آراستہ کیا ہے
اگر ان کا سونا چاندی اور ہاتھی دانت ایشیا اور افریقہ سے یورپ میں منتقل
ہق گیا ہے تو پھر کیا ہوا۔اس مال کی حفاظت اچھی طرح ہو جائے گی۔وہاں یہ مال
دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ جانا تھا۔ یورپ کا ان ممالک سے قیمتی چیزیں اپنے
برِاعظم میں لے کے جاتا کوئی دہشت گردی نہیں ہے اور نہ کوئی اسے دہشت گردی
کہے ورنہ اپنے کئے کا وہ خود ذمہ وار ہو گا۔لسانی،معاشی اور معاشرتی ہر قسم
کی دہشت گردی میں بس یورپ اور امریکہ کا نام نہیں آنا چاہئے وہ تو خدمتِ
خلق کے علم بردار ہیں اور انہیں ایسا ہی رہنا زیب دیتا ہے۔
کسی کو کیا کہیں ہم خود بھی غصے کی کیفیت میں دہشت گردوں کے تربیتی کیمپ کا
حصہ بنے ہوتے ہیں۔کبھی بچوں اور کبھی بیوی سے انتقام لینے کے درپئے ہو رہے
ہوتے ہیں۔کسی کی سننا اچھا ہی نہیں لگتا۔بس ہم ہوں اور بس ہم ہی ہوں۔غصہ
دہشت گردی کا جدِ امجد ہے جو اس پر قابو پالے گا وہ دہشت گردی پر قابو پا
لے گا۔یہ بات میں اپنے آپ کو سمجھا رہا ہوں آپ کو تو غصہ آتا ہی نہیں ہو گا
اور اگر آتا ہو گا تو جاتا ہی نہیں ہو گا ۔اور جب تک غصہ چلا نہیں جاتا
کوئی بات ذہن میں ڈاکی نہیں جا سکتی کیوں کہ غصے کی حالت میں ذہن کی تمام
کھڑکیاں اور دروازے سیل بند ہو جاتے ہیں اور صرف اس وقت کھلتے ہیں جب
غصے جیسا دہشت گرد جا چکا ہوتا ہے۔ |
|