بسم اﷲ الرحمن الرحیم
سلیم کی یورپ سے واپسی ہورہی تھی اس نے سوچا ایسی کوئی چیز ساتھ لے جاؤں کہ
جو اپنے ملک میں نہ ہو تا کہ دوست احباب دیکھیں تو رعب پڑے۔ اسی نیت سے وہ
بازار گیا مختلف چیزوں کا جائزہ لینے کے بعداس نے ایک نئے ماڈل اورمختلف
خوبیوں سے آراستہ موبائل خرید لیا ۔ جب وطن واپس لوٹا تو ہاتھ میں موبائل
سے یار دوست متاثر ہوئے ، سب تعریفیں کرنے لگے اور سلیم پھولا نہیں سما رہا
تھا ۔ سلیم کالج جانے لگا تو موبائل ساتھ لیا ۔ سلیم کے ابو نے کہا کہ
بیٹاموبائل ساتھ نہ لے جاؤ ، نظر لگ جائے گی ،چوری بھی ہو سکتا ہے ۔ لیکن
سلیم کے مقصد کو اس کے ابو کیا جانے؟سلیم تو لایا ہی اس لئے تھا کہ سب کو
دکھا کر داد وصول کرے ۔ کالج کے دوستوں نے دیکھا تو وہ بھی تعریف کرنے لگے
۔ تعریفیں سن کر سلیم اندر ہی اندر بہت خوش ہو رہا تھا اور اسٹائل مارنے
لگا ۔ سلیم کے دوسرے دوست بھی آگئے ان میں یاسر بھی تھا ۔ یاسر کے والد
موبائل کا کام کرتے تھے ِ، اس نے دیکھا تو کہا کہ یہ موبائیل تو یہاں بھی
آگیا ہے ، یہ سن کر سلیم کو جھٹکا لگا۔ یاسر نے کہا کہ کتنے کا لیا ؟سلیم
نے بتایا کہ پاکستانی 70,000 روپئے کا ، یاسر یار بڑا مہنگا لے لیا یہاں تو
40,000 روپئے کا ہے۔ سلیم کو یہ سن کر بڑا رنج ہوا اب دوست بھی کہنے لگے کہ
بھائی سلیم بڑا مہنگا لے لیا کچھ نے مذاق اڑانا بھی شروع کر دیا سلیم نے
اپنا موبائل جیب میں رکھا لیا ، اب سلیم کی کوشیش ہوتی ہے کہ کوئی موبائل
نہ دیکھے ورنہ دام پوچھے گا تو بے عزتی ہو گی
٭٭٭٭٭
زبیر اشرف عطر والے بہت مشہور تھے ۔ ان کے یہاں اعلی قسم کے عطر اور عود کی
لکڑی ملتی تھی ۔ جب حج پر جانے لگے تو اپنے گھر پر ایک دعوت کا اہتمام کیا
،انکا کا گودام گھر کے قریب ہی تھا یہاں کھانا پکانے کا انتظام کیا گیا،
دوست احباب و رشتہ دار جمع ہوئے پہلے مشروبات سے تواضع ہوئی اور کچھ تاخیر
سے کھانا لایا گیا، کھانا بہت لذیذ تھا ، سب نے بہت تعریف کی ، زبیر اشرف
بہت خوش نظر آرہے تھے ، قہقے بلند ہو رہے تھے اتنے میں زبیر اشرف کے بیٹے
نے زبیراشرف کے کان میں کہا کہ ابو غضب ہو گیاباورچی جب کھانا پکانے بیٹھا
تو گیس چلا گیا اس نے گھبرا ہٹ میں جلدی جلدی لکڑی تلاش کرنا شروع کی تو
اسے عود کی لکڑی کا زخیرہ نظر آیا اسی کو جلا ڈالا ۔ زبیر اشرف یہ سن کر
چلائے محفل میں شور مچ گیا کہ معمولی کھانے کے لئے لاکھوں روپئے کی عود کی
لکڑی جل گئی
٭٭٭٭٭٭
کالج کا آخری سال چل رہا تھا اور اکثر لڑکے کالج سے فارغ ہو کر اپنے
کاروبار یا ملازمت میں لگ جاتے تھے ۔ اسی مناسبت سے سر زیشان اپنے شاگردوں
کو یہ دو مثالیں دیں ۔ پہلی مثال کے بارے میں سر زیشان نے کہا کہ سلیم کا
موبائل اچھا تھا وہ ہاتھ میں پکڑے فخر محسوس کر رہا تھا لیکن جب اسے پتہ
چلا کہ اس نے بہت زیادہ دام دے دیے ہیں تو وہ رنجیدہ ہو گیا جو موبائل اسے
تھوڑی دیر پہلے اچھا لگ رہا تھا وہ اب برا لگنے لگا ۔جو دوست تعریف کر رہے
تھے وہی مذاق اڑانے لگے۔ اسی طرح تم جب روزی کمانے کے لئے جاؤ تو یہ یاد
رکھنا کہ روزی مقدر میں جتنی لکھی ہے مل کر رہے گی آدمی اس وقت تک مر ہی
نہیں سکتا جب تک مقدر کی روزی نہ پا لے اور جو مقدر میں نہیں وہ کسی صورت
تم حاصل نہیں کر سکتے ہے تو اس کو حاصل کرنے میں اچھا اور جائز طریقہ
اختیار کرنا ۔ اس کی قیمت زیادہ نہ دینا کہ اس کی وجہ سے نماز چھوڑ دو یا
کسی کو دھوکا دے دو ۔ اﷲ تعالی کو ناراض کر کے روزی کمانا گویا کہ اس کی
قیمت زیادہ دینا ہے۔سلیم صرف موبائل کی قیمت زیادہ دینے پر شرمندہ تھا ۔
اگر تم نمازوں کو ضائع کر کے اور اﷲ تعالی کو ناراض کر کے روزی کماؤ گے تو
اتنی زیادہ قیمت دینے پر تم کل قیامت کے دن کتنے شرمندہ ہو گے؟
دوسری مثال کو سر زیشان نے یوں سمجھایا کہ کھانا تو بڑا اچھا تھا لیکن
لاکھوں روپئے کی عود کی لکڑی جل گئی اور معمولی کھانا تیار ہوا اسی طرح اگر
روزی حاصل کرنے میں ڈندی ماری ، جھوٹ بولا، وعدہ خلافی کی تو گویا کہ اپنی
آخرت جلا کراپنی جنت کا سودا کر کے یہ مقدر کی روزی تم نے حاصل کی ، زبیر
اشرف اپنی عود کی قیمتی لکڑی جل جانے پر چلا اٹھے ،تو اس کی حسرت و افسوس
کا کیا عالم ہو گا جس نے اپنی مقدر کی روزی حاصل کرنے کے لئے اپنی اخروی
زندگی کو تباہ کیا ہو گا۔
لطف دنیا کے ہیں کے دن کے لئے
کھو نہ جنت کے مزے تو ان کے لئے
یہ کیا اے دل تو پھر یوں سمجھ
تو نے نادان گل دیئے تنکے کیلئے |