قیام پاکستان اور خواب

پیپلز پارٹی کے ناراض جیالے اور سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کچھ عرصہ قبل بھی اسی طرح متحرک ہوئے تھے جس طرح آجکل وہ اپنے دوستوں کی نیند حرام کرنے لگے ہوئے ہیں انکے مخالفین انہیں مختلف نام بھی دے رہے ہیں مگر اس سے قطع نظر کہ انکے خلاف کون کیا کہہ رہا ہے میں تو ذاتی طور پر ذوالفقار مرزا کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ پہلے بھی کھل کر سامنے آئے تھے اور اب بھی وہ کھل کر سب کو ننگا کررہا ہے کہ کون کس کا مالشیا رہا ہے اورکون کس کے ٹوائلٹ صاف کرتا رہا ہے ذوالفقار مرزا کا کہنا ہے کہ ہم کراچی میں دہشت گردوں کو پکڑتے تھے اور سابق صدر زرداری کے چہتے رحمن ملک سندھ حکومت سے ان دہشت گردوں کو رہا کروا لیتے تھے ذوالفقار مرز واقعی ایک بہادر اور نڈر انسان ہیں جنہوں نے پہلے بھی کھل کر باتیں کی اور اب بھی تلخ حقیقتوں پر سے پردے اٹھا رہے ہیں ہمارے سیاستدان نہ پہلے ملک سے مخلص تھے اورنہ ہی آج ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان دن بدن اندھیروں میں ڈوب رہا ہے دہشت گردی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی کبھی سکول میں بچوں کو شہید کردیا جاتا ہے کبھی مزدوروں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے تو کبھی نمازیوں کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے مجال ہے کہ آج تک کوئی حکمران ان دہشت گردوں کے ہاتھ لگا ہو بیچاری غریب عوام ہی ہر طرف مر رہی ہے ووٹ نہ دے تو بھی اگر ووٹ دیدے تو پھر بھی اگر جمہوریت چلی جائے یا جمہوریت بحال ہو جائے عام انسان کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا جب تک مالشیے اور ذاتی خدمتگار وزیر بنتے رہیں گے اس وقت تک ملک اور قوم کا سدھرنا نظر نہیں آرہا ۔لا زوال اور بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والاملک آج چند ہاتھوں کاکھلونا بن گیا ہے۔آزادی اور پاکستان کے قیام کے وقت ہمارے بزرگوں نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ اب انگریزوں کی غلامی سے ہماری جان چھوٹ گئی ہے مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ انگریزوں کی غلام کے بعد ہم انگریزوں کے غلام کے بھی غلام بن جائیں گے ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ملک چین آج دنیا کی سپر پاور بنتا جارہا ہے اور ہم یہاں پر گرمی کا موسم ہو تو بجلی کو تر ستے ہیں ،موسم سرما ہو تو شہری گیس کو تر ستے ہیں ٹیکس انتہائی غریب آدمی سے ماچش تک خریدنے پر وصول کر لیا جاتا ہے ۔ٹیکس کی مقررہ شرح کی مد میں کو ئی آئیں یا نہ ائیں اُ س سے موبائل کا کارڈ فیڈ کر تے وقت ہی ٹیکس کی کٹوتی کر لی جاتی ہیں۔لفظی خیر خواں حکمرانوں کواب پاکستان کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے،ہم سے پاکستان نہیں بلکہ پاکستان سے ہم ہیں۔ حکمرانوں کو چائیں کہ نظام بدلیں،صرف تقاریر اور نعروں سے قائد کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا ،آج شہریوں نے اپنے آزاد ملک میں گلی ،محلوں میں اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئے چوکیدار رکھے ہو ئے ہیں۔ جبکہ دکانداروں ،فیکٹری مالکان نے سیکیورٹی گارڈز ۔سول ٹرانسپورٹروں نے راستہ میں ہو نے والی چوری ڈکیتیوں کی وارداتوں سے محفوظ رہنے کے لئے گن مین رکھیں ہیں۔ اتنے ٹیکس اداکر نے کے باوجود شہریوں کے جان و مال محفوظ نہیں ہیں۔حکمرانوں کو چائیے کہ غیروں پر بھروسہ اور اُنکی باتوں پر عمل کر نا چھوڑ دیں۔اور اپنے ملک پاکستان کو ایک مثالی ملک بنانے کے لئے خود فیصلے کریں، ہمسائیہ ملک چین ہمارے ملک کے آزاد ہو نے کے کافی عرصہ کے بعد آزاد ہو ا۔آج اُس کی پراڈیکٹ پوری دنیا میں اپنا لوہا منوانے میں کامیاب ہو گئی ہیں،بنگلہ دیش ہم سے جدا ہوا آج وہ تر قی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہے ۔خون کی ہو لی آئے دن پاکستان کا مقدر ہی کیوں ؟حکمرانوں کو اپنی پالیساں بدلنے کی ضرورت ہیں۔لاکھوں شہری بے روزگاری کا طوق گلے میں ڈالیں در بدر بھٹک رہے ہیں سب جانتے ہیں کہ دنیا کا واحد ملک پاکستان ہے جس میں تمام تر قدرتی وسائل وسیع پیمانے پر موجود ہیں۔نمک ،کوئلہ ،سوئی گیس کے ذخائر پاکستان کی سر زمین میں بے تحاشا ہیں،دنیا کے تمام ممالک جانتے ہیں کہ اگر پاکستان اپنے ذخائر سے استفادہ حاصل کرے تو کئی خوشحال ملک پاکستان سے خوشیاں اُدھار مانگیں گئے جو کہ کئی ممالک کو ناپسند گزرے گا ،مگر اب بھی وقت ہے اگر حکمرانوں نے کچھ نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہم کو بد دعائیں دیں گی۔لہذا حکمرانوں کو وقت کو غنیمت جانتے ہو ئے ملکی حالات کے متعلق بہتر سوچ رکھنا ہو گی اور ملک میں امن اور ترقی کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو روندنا ہو گا ۔اس کے ساتھ ساتھ موجودہ نظام کے تحت سینیٹ انتخابات کے انعقاد کا مطلب دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں آنے والوں کی اکثریت میں مزید اضافہ کرنا ہے جو یقینا ملک و قوم کے ساتھ مذاق‘ زیادتی ‘ نا انصافی اور اس کے مستقبل سے کھلواڑ کے مترادف ہے سینیٹ کی حیثیت ملکی سلامتی ‘ تعمیروترقی اور قومی پالیسیوں کے حوالے سے قومی اسمبلی کو ماہرانہ رائے پیش کرنا ہے تاکہ اسمبلی کے فیصلے قومی و عوامی مفاد کے تابع ہوں اور ان کے ثمرات سے قوم کا ہرفرد فیضیاب ہوسکے اسلئے اسمبلی میں موجود جماعتوں کو سینیٹ کی نشستوں کا کوٹہ پیش کرکے عوام کا استحصال کرنے کی بجائے صنعتکاروں ‘تاجروں ‘ مزدوروں ‘ طالبعلموں ‘ خواتین ‘ مذہبی اسکالروں ‘ صحافیوں ‘ وکلأ ‘ قانون دانوں اور زندگی کے دیگر تمام شعبوں کی رجسٹرڈ تنظیموں سے مساوی نمائندگی لیکر سینیٹ کی تشکیل کی جائے جس میں ہر صوبے کی نمائندگی کا مساوی ہونا بھی لازم ہے چھوٹے اور بڑے صوبے کے نام پر ہونے والے عوامی استحصال کی روایت کا خاتمہ بھی ہو اور سینیٹ کی ماہرانہ رائے کے تحت قومی اسمبلی کے فیصلوں سے ملک و قوم امن ‘ اخوت ‘ ترقی ‘ خوشحالی اور خود مختاری کے حقیقی کہکشاؤں کی جانب بڑھ سکیں ۔

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 613354 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.