پاکستان ارتھوا پر لینڈنگ مارت ہی سالہ بجلی غائب
ہوگیا ، یہاں ڈانسنگ کار تو نہیں تھا ، پر لمبی لمبی لائن تھا کار کا ، پھر
ہم کا معلوم ہوا ، سالہ یہاں پیِٹرول اور سی این جی کا تو سسٹم ہی لُل
ہوچکا تھا ، پر ایک بات سُن کہ تو سسُرا ہمار فیوج ہی اُڑگوا ، وہ ای کہ
پاکستان ارتھوا پے نہ بجلی تھا نہ گیس نہ پیٹرول پھر بھی" بھٹو زندہ ہے!!
"ہم سمجھ گیا کہ کونو سالہ پِھر کی لے رہا ہے ای سب عوام کا ، ہمرا دماغ ما
سسُری ای بات آئی کہ اگر عوام نے اپنی حالت نہ بدلی تو اگلے برس وہ بھی
ہمرا گولے کی طرح ’ ننگا‘ گھومے گا ۔
میں تھر کے حالات کا اپنے’ حالات ‘سے موازنہ کررہا تھا کہ ایک لق دق صحرا
میں جہاں پانی تھا اور نہ انسانوں کی اوقات ،اس کسمپرسی میں ’ پی کے ‘ صاحب
خراماں خراماں گھومنے چلے آئے ، میں نے ان سے کہا کہ ’ پی کے ‘، آپ تھر کو
راجھستان سمجھ کر پاکستان میں باڈرر کراس چلے آئے ہو ، واپس لوٹ جائے ، ’
پی کے ‘ نے مجھ سے کہا کہ بھائیا میں تو وآں سے ہی واپس چلا گوت تھا لیکن
پشاور سا نحہ کا پتہ لگا تو ام سوچت رہے کہ انہاں بچاں کی دشمنی کا سے او
رہت کہ انہاں، یوں بیدردی مارے جاہت اے تو ایک گجب بات معلوم ہوئی کہ
پاکستان میں بھی ’ پی کے ‘ ہے لیکن اپنے نام کیساتھوا ’ کے‘ شروع میں لگاوت
اے ، بس ہم سوچ لئے کہ ہو نہ ہو ، اس کا بھی اماری طرح ریموٹوا گوما اوت ،
ہم اس کو ساتھ لئے چلتے ہیں ۔ اب ام کو نہیں معلوم کہ یہ ’ کے پی کے ‘ کہاں
ہے، ہماری مدد کرو ۔
اب اس ’ پی کے ‘ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ’ کے پی کے‘ کا مطلب خیبر
پختونخوا ہے ، لیکن میں بھی ٹھہرا پختون ، سوچا کہ مہمان ہے ، کچھ بھی ہو
میزبانی تو کرنی پڑے گی ، مجھ سے کہنے لگا کہ پہلے کراچی جائیں گے ، سُنا
ہے وہاں کوئی ’ نامعلوم ‘ بڑا مشہور ہے ، کراچی میں کچھ بھی ہوت ، سسُرا
’نامعلوم ‘ہی کرتا ہے۔ اب میں اُسے کیا بتاتا کہ ’ نامعلوم ‘ کو تو آج تک
کوئی نہیں پکڑ سکا ، دیکھے گا کیسے ، مجھ سے کہنے لگا ، کہ خان بھائیا ۔ یہ
بتاؤ کہ تم کراچی میں رہتے کیسے ہو ؟۔ میں نے کہا کہ مجبوری ہے ، اس وجہ سے
رہنے پر مجبور ہوں ۔ ’ پی کے ‘ کہنے لگا کہ نہیں تم ’ لُل‘ ہو اسی لئے واں
رہت ہو ، میں سر کجھا کر رہ گیا ، پی کے ‘ نے کہا چلو مجھے میرے ہم نام کے
پاس لے چلو ، ہم پنجاب کے راستے روانہ ہوئے تو اس نے پوچھا کہ ، اے کون سی
جگہ ہے ، میں نے کہا پاکستان کا بڑا بھائی ہے ، بولا اچھا ، یہ ہے وہ
بھائیا ، ۔ ۔ ’
ہم خیبر پختونخوا پہنچ گئے تو ’ پی کے ‘ نے کہا ام کو’کے پی کے ‘سے ملاؤ ،
میں نے کہا کہ یہ پاکستان کے صوبے کا نام ہے جیسے ، سندھ ، پنجاب ،
بلوچستان ،، تو ’ پی کے ‘ کہنے لگا کہ یہ پورا نام کیوں نہ لاوت اے ؟ ،
خیبر پختونخوا کے بجائے’ کے پی کے‘ کیوں بلاوت اے ، میں نے کہا شارٹ فام ہے
، تو کہنے لگا کہ پنجاب ، کو ’ پی‘ ، سندھ کو ’ایس‘ اور بلوچستان کو’ بی‘
کیوں نہ کہوت اے ۔ میں خاموش ہوگیا ، جواب دینا چاہتا تھا لیکن پھر سوچا کہ
اگر ’ پی کے ‘ کو یہ پتہ چلے کہ پہلے اس کا نام NWFPتھا تو وہ اور میرا
دماغ چاٹے لگا کہ پھر نام بدلنے کی کیا ضرورت تھی ۔
’ پی کے ‘ نے مجھ سے کہا کہ یہ بتاؤ کہ ان کی زبانوا کیسے سیکھ سکت ہیں کسی
کا ہاتھ پکڑواؤ ، میں نے کہا کہ غلطی سے بھی کسی کا ہاتھ نہ پکڑ لینا ،
ورنہ تمھیں سیدھا ، یم راج کے پاس بھیج دیں گے ۔ ’ پی کے ‘ پاکستان کی سب
زبانیں بھی سیکھنا چاہتا تھا ، میں نے ایسے سمجھایا کہ دیکھو یہاں ہر اگر
اپنی اپنی ’ بولی‘ بولتا ہے ، جو کبھی پل میں تولہ ہوتی ہے تو کبھی ماشہ
ہوتی ہے ، کوئی پاکستان کی زبان نہیں بولنا چاہتا ، کسی کو کوئی زبان عزیز
ہے تو کسی کو کوئی زبان عزیز ہے ، اس لئے سب اپنی اپنی زبانوں کے نام پر
صوبے بنانا چاہتے ہیں۔ ’ پی کے ‘ کہنے لگا ، گجب لوگ ایں ، کیا ان کو کو
ٹھپہ لگا اے کہ یہ پاکستانی نہ ای اے ۔ مجھے دیکھاؤ تمراا کون سا ٹھپہ لگا
اے ۔ میں روہنسا ہو گیا اسے کیا معلوم کہ ہم انسان ہی نہیں ہے ، مساجد ،
بارگاہوں ، جلسوں جنازوں میں خود کش دہماکے کرکے نسل کشی کردیتے ہیں ،
افغانستان جا نہیں سکتے لیکن ان کے لاکھوں لوگ پاکستان میں تیس سال سے زائد
عرصے سے ہیں ، دبل دبل کارڈ بنا کر افغانستان کے شہری بھی ہیں تو پاکستان
کے بھی ۔
’ پی کے ‘ حیران ہو کر بولا کہ سالا تم سب کو کوئی پھرکی دیکر لُل بنا رہا
اے ، کو نہ کو رانگ نبراں ہے جو ایسا کرت اے ۔ میں نے کہا سب کو پتہ ہے کہ
رانگ نمبر کون ملا رہا ہے لیکن یہ عوام سمجھ کر بھی نا سمجھ ہے ۔ ’ پی کے ‘
نے کہا کہ ان سب کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر انھیں سمجھاؤ کہ تم سب کا خون ایک
ہے ، مذہب ایک ہے ، وطن ایک ہے ، قومی زبان ایک ہے پھر تم سب اک دوسرا
کادسمن کیوں بنت پھرت ہو۔میں نے کہا کہ یہی تو اصل مسئلہ ہے یہاں سب ہیں
اور کوئی بھی نہیں ہے۔لاشیں گرتی ہیں کچھ دیر کیلئے ایک ہوجاتے ہیں پھر کچھ
دنوں بعد الگ الگ ہوجاتے ہیں ۔سب اپنی اپنی بولی بولتے ہیں۔ ’ پی کے ‘ کہنے
لگا کہ ام کو ایسا لگت ہے کہ تمرا چینلوا میں جا کر ان سب لوگاں کو سمجھاٹن
جرورت ہے۔ میں کہا کہ چینل والے بچارے کیا کریں گے ، جس کی لاٹھی اُس کی
بھینس والا حساب ہے ، اس لئے وہ سب مجبور ہیں ، اُن کو اتنی سچ کی آزادی
نہیں کہ کوئی دہشت گرد ، ٹارگٹ کلر پکڑا جائے تو لکھ دیں کہ فلاں کا تعلق
سیاسی جماعت سے ہے ، فلاں کا تعلق کالعدم مذہبی جماعت سے ہے ۔ ’ پی کے ‘
اپنا سر پکڑ کر بولا ، سالا ، اٰیاں تو سب گڑ بڑیا ہے ، رانگ نمبر کے
ساتھوا ، اس ارتھوا میں سب ایک دوسرے کو پھرکی دیکر لُل بنائے جات ہے۔
’ پی کے ‘ کہنے لگا کہ ایسا کرو کہ ہم کو بلوچستان لے چلت، میں وہاں سے اپن
ریموٹوا سے مسیجوا کرکے واپس چلا جاوں ،میں نے کہا کہ بلوچستان میں گئے تو
پھر واپس نہیں لوٹ سکتے ، وہاں تو کیا کچھ ہو رہا ہے ، کسی کو کچھ پتہ نہیں
۔ ’ پی کے ‘ حیرانی سے بولا ، وہ کیسے ، میں نے کہا کہ پچھلی بار تمھارا
ریمورٹ چوری ہو کر گم ہوگیا تھا ، لیکن پھر تمھیں بھی مل گیا تھا نا ! ’ پی
کے ‘ نے کہا آں تو پھر ۔ میں نے کہا کہ اگر ہم اُدھر لاپتہ ہوئے تو پھر ہم
کبھی نہ مل سکتے ہیں ، وہاں تو کوئی شکل بھی نہیں پہچان سکے گا۔
’ پی کے ‘ کہنے لگا کہ تمرا ملک بڑا گجب کا اے ، لیا اسلام کے ناموا پَر ،
لیکن کام سسرا ، لُل ، ادر ، مارن والا بھی شہید تو مرن والت بھی شہید ،
مارن والا بھی مظلوم ، مرن والت بھی مظلوم ، کماوت پاکستان میں، دولت سسرا
باہر لے جاوت ہے ، مجھے اسا لگت ہے کہ یہ سسُری عوام ہی رانگ نمریاں ہے تب
ای ان کا ای لیڈر لوگاں چنت اے جو ،بار بار ہمرا گولے کی طرح ننگا کرت اے۔
ایسا ہے کہ تم کو کالموں کی سنچری مبارک ، ام کو اسا لگت تم بھی لُل کا لُل
ہی رہو گے۔ اب میں اپنی پھرتوا جا کر ریمورٹ ہی تو ڑ ڈالے اور تم اپنا لکھت
والا قلم توڑ دؤ، کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسراں۔ہم تو چلت ،تمرا تو سسرا
فیوج ای نا ہی اے۔ |