کسان کی کہانی کسان کی زبانی
(Asim Kazm Roonjho, Lasbela)
یہ دُکھ میری زندگی میں اآسی روز
سے بُوئے ہوئے ہیں جب سے ہم نے آنکھ کھولی۔ ہمارے بابا بھی اسی طرح دکھوں
میں اپنے کھیتوں میں زندگی گزار کر چلے گئے۔ ہم نے بھی وہی پُرکھوں کا پیشہ
اپنایااپنا رومال سر پہ باندھا اور بڑی شان سے اس اپنے کام میں مگن ہوگئے ۔
اچھی خاصی گُزر اُوقات ہوتی تھی نہ کوئی فکر تھی نہ کوئی غم تھا صبح نکلتا
تھا سورج ڈھلے رات واپس آتا ہے سورج کی پہلی کرن بھی کھیت میں دیکھتا تھا
اوراندھیرا بھی کھیت میں ہی استقبال کرلیتا تھا۔اسی اپنی مٹی کو چیرتا تھا
ہل چلاتا اور جب بارش ہوتی تواسے سیراب کرتا پھر بیل جوت کر ہل چلاتا اور
اسے زرخیز بناتا یہ میری زمین جس کا میں مالک نہ تھا لیکن اسے بناتا کہ
سُونا اُگلنے لگتی اور اس سے ہمارے زمیندار کو ہزاروں بوریاں ملتی اور ہم
جو سال بھر زمینداروں سے قرض لیکر کھاتے تھے انھی سے مجھے جو چھٹا حصہ ملتا
اس سے وہ میرا قرض کاٹتا تھا جو باقی مجھ پہ رہ جاتا تو کبھی بھی اس کے
لیئے مجھے پریشان نہیں کرتا تھا دوسرے سال بھی سارے سال کا راشن دیتا تھا ۔میری
صبح شام ، میری خوشی غم میری نوید سب ان کھیتوں سے تھی صرف واڑیوں کا دن
تھا جس دن میں بڑی شان سے اپنے بیلوں کو جوت کر انھیں بناوسینگار کر واڑیوں
پر جاتے تھا یہی دن میری عید ہوتا تھا اس دن تو مجھے دیدار(زمیندار)
مٹھائیاں اور کجھوریں لیکر دیتا تھا اور جب شام کو بیل دھوڑا کر واپس آتا
تھا تو میرے بیٹے کارو اور شنبُو راوہوں میں مجھے میرا انتظار کرتے ملتے
تھے جب میں انھیں دیکھتا تو میری ساری رکاوٹ دور ہوجاتی اوراپنی مٹھائیاں
اور کجھوریں انھیں دیتا تو وہ خوشی سے باغاں باغاں ہوجاتے اور طمانیت سے
سرشار ہوجاتے اور چمکتی آنکھوں کے ساتھ وہ آگے دوڑ کر مجھ سے ڈگوں کی مار (
بیلوں کی رسی) لے لیتے اور میں ان کی ان چمکتی آنکھوں میں اپنا مستقبل
دیکھنے لگتا بالکل ایسے جیسے میرا باپ مجھ میں اپنا مستقبل دیکھتا تھا اور
آج میں اس کا وارث بنکر اسی دیدار(زمیندار) کے ساتھ باژری (بزگری) کررہا
ہوں جس کے جن کے پاس میرے دادا میرے بابا پُرکھوں سے کرتے آرہے تھے۔ میرے
کارو اور شنبُو کو بھی تو کسان بننا ہے کل میری جگہ پہ دیدار (زمیندار) کے
پاس انھیں بھی تو کام کرنا ہے۔ میں نے تو اس وقت سوچا بھی نہ تھا کہ کارو
اور شنبُو تو اپنی جگہ میرا اپنا ناتا بھی اب اس زمین کے ساتھ زیادہ عرصہ
نہیں رہے گا اور یہ بیل یہ زمین بھی نہیں رہے گی۔ قحط سے کھیت تین سال تک
سوکھے رہے تو دیدار نے ادھر اُدھر سے کچھ پیسے کرکے زمین پر ٹیوب ویل لگوا
لیا۔میں ان زمینوں کوٹیوب ویل کے پانی سے آباد کرنے لگا ۔ میں نے اس میں
گندم اور کپاس کی بُوائی کی میرے بیل ( وہ بیل جو زمیندار کی ملکیت تھی یہ
سنبھالتا اور چلاتا تھا اپنے تصور کرتا تھا) قحط میں مر گئے ویسے بھی
ٹریکٹر کا زمانہ تھا جس کھیت میں ہمیں دن لگتے تھے وہی کھیت ٹریکٹر سے
گھنٹوں میں ہونے لگا ٹریکٹر میں جلا ل چانڈیو کا کلام (گانا)" سنگ مرمر جو
بدن " چلا تے ہیں جب یہ آواز قریب وجوار سے سنائی دے تو ہم سمجھ جاتے ہیں
کہ وہاں ٹریکٹر کام کر رہاہے۔ ٹریکٹر کے آنے سے اخراجات میں اضافہ ہونے لگا
اور یوریا کھاد بھی استعمال کرنی پڑھتی تھی جس کا الگ سے قرضہ بڑھنے لگا ان
حالات میں دیدار( زمیندار )بھی پریشان ہوگیامجبور ہوکر اس نے اپنی زمین
فروخت کردی اور کیا کرتا قرض بھی بڑھ گیا تھا ۔ اب تو ہمارے لیئے زمیندار
کے پاس زمین نہیں تھی باقی زمیندار وں نے بھی سبزیاں ٹماٹر بنڈی بینگن لگا
نا شروع کردی ہے اس کے لیئے ہمارے پاس تجربہ نہیں اور محنت اتنی کہ اس کا
صلا نہیں ملتا جب فصل تیار ہوجائے اور منڈی میں پہنچ جائے تو پیسے ہی نہیں
ملتے کہتے ہیں انڈیا کا مال آیا ہے ایران کا مال آیا ہے اب کیا کریں یہ
سمجھ نہیں آتا ہمیں کہاں ایران کہاں انڈیا اور وہ یہاں آکر کماتے ہیں اور
ہم یہاں سے خسارہ کرتے ہیں دیدار کہتا ہے انھیں وہاں زمینداری سستی پڑتی ہے
اس لیئے کماتے ہیں اور ہمارے خرچے زیادہ ہیں حکومت سے کچھ نہیں ملتا اس
لیئے ہم نہیں کماتے یہ بات کیا ہے مجھے سمجھ مین نہیں آتی ۔ اس لیئے میں نے
تو زمینداری چھوڑ دی اب حمال ( قلی) بن گیا ہوں سارا دن جو محنت کرتا کم سے
شام کو کچھ پیسے تو ہاتھ میں آجاتے ہیں ۔ کارو اور شنبُو بھی اب سمجھ بوجھ
کے قابل ہوگئے ہیں اور تھوڑا بہت وزن اُٹھا لیتے ہیں اور چار پیسے کما لیتے
ہیں ۔ آج میں بوریاں اُٹھاتا ہوں جس پر شام کو کچھ پیسے ہاتھ آتے ہیں ۔
بوریاں پہلے بھی اُٹھاتا تھا لیکن وہ دن شان کا تھا وہ میں اپنی فصل پہ
اُٹھاتا تھا اور خمیسے کو دکھاتا تھا کہ میرے کھیت سے کتنے فصل مجھے ملی
ہےلیکن آج بوریاں پیٹ بھرنے کے لیئے اُٹھاتا ہوں لیکن اس سے یہ یقین ہے کہ
کم سے کم چار پیسے ملتے تو ہین ۔ کل میں کسان تھا تو محنت کرتا تھا لیکن
یقین نہیں تھا کہ فصل پہ مارکٹ ملے گی یا نہیں کیا پتا پھر انڈیا یا ایران
کا مال آجائے اور ہم قرضوں تلے دب جائیں ۔ اب جب میں کارو اور شنبُو کے
ساتھ اپنے ان خوبصورت دنوں کو یاد کرتا ہوں جب میں کسان تھا تو وہ کہتے ہیں
اچھا ہوا کہ حمال (قلی) بن گئے ورنہ ان زمینوں کے آسرے بھوکے مرتے اب تو
بجلی نے بڑے برے زمینداروں کے گھروں کے چُولے بجھا دیئے ہیں اور وہ کروڑوں
کے مقروض ہو گئے ہیں اب زمینیں بیجھ کر بھی یہ جان نہیں چھڑا پائیں گے ہم
غریب تو مرجاتے ان حالات میں آپ کا پہلا دیدار (زمیندار) اچھا تھا جو اپنی
زمین فروخت کرکے چلا گیا ورنہ آج بجلی اس کا بھی یہی حال کردیتی میرے سامنے
میری یادیں تھی اور میرے دیدار کے وہ آنسو تھے جو زمین فروخت کرتے وقت اسکی
آنکھوں میں تھے۔ بہت سارے لوگوں نے ان سبزیوں سے کروڑوں کمائے لیکن ہمیں وہ
حاصل نہ ہو ا اور ہم قدیمی کسان اور زمیندار اس حال میں پونچ گئے واقعی
بجلی کا حال تو بُرا ہے اور نہ رکھ ہے نہ ڈھورا ہے جو بارانی سیرابی ہو
کہاں جائیں گے اب کسان اور ہمارے پاس تو سوائے یادوں کے اور کچھ نہیں اب تو
حمالی بھی بیٹھ گئی ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا غریب کہاں جائے گا ۔ ایک
60سالہ بوڑھا چاچا جمن جو کسی وقت کسان اور آج قلی حمال ہے اپنی مایوسی کی
کہانی سنا رہا تھا اور اسکی آنکھوں میں آنسو تھے جو اس کا درد بیان کررہے
تھے ۔میں یہ کہانی سن کر سوچ رہا تھا کہ ایسے کتنے جمن سومار شنبُو ہیں جو
مایوسی کے سبب اپنا پیشہ ترک کرچکے ہیں اور یہ مایوسی ہم قدیم باشندوں کا
جو اس سرزمین اس علاقے کی عظیم روایات کے امین کا مستقبل تاریک کررہی ہے۔
ہمیں کل کو محفوظ بنانے کے لیئے آج سوچنا اور اپنا کردار ادا کرنا ہوگا
تاکہ ان مایوس دلوں میں اُمید کی کرن روشن ہو۔ |
|