بیگم صاحبہ، خدارا بس کیجئے

ساجد میاں نے آج ٹھان لیا تھا کہ وہ گھر میں داخل ہونے کے بعد سر میں درد کا بہانا بنا کر بیگم سے اپنا سر ضرور دبوائیں گے،اس سے دو فائدے ہونے کی اُنہیں قوی اُمید تھی۔اوّل تو یہ کہ شوہر کی زمانے بعد خدمت اور دوّم بیگم کی کڑوی کسیلی باتوں کاتدارک،پر افسوس ۔۔۔۔۔۔۔ ساجد میاں کا گھر میں قدم رکھنا اور ایک عذاب کا اُن پر ٹوٹنا۔گھر میں بیگم اپنی پنج سالہ بیٹی کی چوٹی بنانے میں مصروف تھی اور شاید اپنے ذہن میں غوطے مارتی ہوئی طغیانی کو باہر نکالنے کا موقع ڈھونڈ رہی تھی،ایسے میں ساجد میاں کا گھر میں داخل ہونااُنکے لئے بہترین موقع تھا جسے انہوں نے بالکل نہیں گنوایا اور فوراً فقرہ کسا۔’’ آجاؤ، بادشاہ سلامت،سیر کرآئے اپنے علاقے کی،اپنی رعایا کی خبر گیری بھی کرلی ہوگی؟۔‘‘ شہزادی کو تو میرے بھروسے پیدا کیا ہے،نوکرانی جو ٹھہری اس گھر کی میں۔شادی سے پہلے تو ہزار وعدے کئے تھے۔رانی بناکے رکھونگا۔چاند تارے توڑ کے لاؤں گا۔اب تو سبزی لانے کے لائق بھی نہیں۔ساجد میاں گردن جھکائے اپنی بیٹی کی طرف دیکھ کر اُس سے اشاروں میں پوچھ رہے تھے کہ آج پارہ کیوں چڑھا ہے۔لیکن بیٹی بھی ماں کے ڈر سے کچھ بتانے سے قاصر تھی۔آخر ساجد میاں نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا۔’’ بیگم، بات کیا ہے، آخر ہوا کیا ہے؟۔‘‘ بیگم پھر اُکھڑ گئیں۔’’ ایں! کیا سچ بتانے کیلئے بھی کچھ ہونا ضروری ہے۔‘‘ خوب اندھیر ہے۔صبح سے بنا بتائے گھر سے غائب تھے۔اب آئے ہو اور میں کچھ نا بولوں۔مجھے پتا ہے اپنے اُنھی آوارہ دوستوں کے ساتھ وقت گزار کر آرہے ہو،کھانا بھی وہیں کھالیتے ،ویسے بھی اُن کے پاس دولت کی کہاں کمی ہے،نصیب تو میرے پھوٹے ہیں نا۔میرا تو منہ کھولنا سچ بولنا بھی برا ہے۔ساجد میاں نے اپنا سر پکڑ لیا،شاید اُن کا سر حقیقت میں درد کرنے لگا تھا۔انہوں نے کہا۔’’بیگم، اپنی معصوم بیٹی کا تو خیال کیجئے۔کیا اثر ہوگا اس پرآپ کی ان باتوں کا۔’’ اوہ! بڑی فکر ہے بیٹی پر اثر کی۔‘‘ اور جو میں کہہ رہی ہوں اُس کا آپ پر کب اثر ہوگا؟۔

اثر ہو بھی جائے بیگم۔ پر آپ کے اس انداز نے مجھ پر ہمیشہ اُلٹا اثر کیا ہے۔اور اگر آپ کا اندازایسا ہی رہا تو میں کبھی بھی نہیں سدھرونگا۔یہ میری نہیں ہر مرد کی فطرت ہے۔بات سمجھ میں آئی بیگم صاحبہ،خدارا بس کیجئے۔
Ansari Nafees
About the Author: Ansari Nafees Read More Articles by Ansari Nafees: 27 Articles with 24420 views اردو کا ایک ادنیٰ خادم.. View More