یہ بیان بازی مسئلہ کا حل نہیں !!!
(Shams Tabraiz Qasmi, India)
وزیر اعظم نریندر مودی نے
اپنی طویل خاموشی کی روایت شکنی کرتے ہوئے ہندوستان میں نوماہ سے مسلسل
جاری تشدد اور مذہبی عدم تحمل کے حوالے سے پہلی بار آج لب کشائی کرنے کی
جرات کی ہے ۔ او ر بڑے صاف انداز میں کہا ہے میری حکومت میں ہرکسی کو بغیر
کسی دباؤ کے اپنی مرضی کے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہے ۔ مذہب کے حوالے سے
جاری تشددناقابل برداشت ہے ۔
’’ایک پروگرام میں مودی نے کہامیری حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ سب
کو پوری مذہبی آزادی ہوگی اور بغیر دباؤ کے ہر ایک کو کوئی بھی مذہب اپنانے
کی آزادی ہوگی۔ کسی بھی مذہب کے کسی بھی گروپ کو مذہب کی بنیاد پر تشدد کی
اجازت نہیں دی جائے گی اور انہیں سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔مودی
نے کہامیری حکومت کسی مذہبی گروپ کو سرعام یا چھپ کر کسی بھی طرح کے تشدد
کو برداشت نہیں کرے گی۔ میں تمام مذاہب کا احترام کرتاہوں اور ہر ایک کو
یہاں یکساں حقوق حاصل ہیں ۔‘‘
وزیر اعظم نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا ہے جب ہندوستان میں مذہبی عدم تحمل
اپنے عروج پر ہے ۔ مودی حکومت کے قیام کے بعد شدت پسند ہندوؤں اور آر ایس
ایس کے جانب سے مسلسل مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہراساں کیا جارہا ہے ۔ گھر
واپسی کے نام پر مسلمانوں اور عیسائیوں کا مذہب تبدیل کرایا جارہا ہے اس کے
علاوہ حال ہی میں پانچ چرچ اور ایک عیسائی اسکو ل پر حملہ بھی ہوا ہے۔ آر
ایس ایس کے سربراہ بارہا یہ کہتے ہوئے نظر آئے ہیں کہ ہندو ستان ہمیشہ
ہندوراشٹر رہا ہے اور یہ ہندوشٹر بن کر رہے گا ۔ اشتہارات اور کلینڈر سے
سیکولر کا لفظ ہٹاکر حکومت نے بھی یہ اشارہ دیا تھاکہ مودی آر ایس ایس کے
ایجنڈے رفتہ رفتہ نافذکرنے لگے ہیں ۔
لیکن اب ویزاعظم خلاف توقع یہ بیان دیا ہے تو اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ
انہوں نے امریکی صدر باراک اوبامہ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اور آر ایس
ایس رہنماؤں کی مخالفت مول لیتے ہوئے یہ بیان دینے کی جرات کی ہے ۔کیوں کہ
آگرہ میں تبدیلی مذہب کا واقعہ پیش آنے کے بعد پارلیمنٹ میں اپوزیشن نے
مودی سے مسلسل مطالبہ کیا کہ وہ اپنا موقف واضح کریں ، پارلیمنٹ کی کاروائی
بھی ٹھپ پڑی رہی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ مسلم تنظیموں نے بھی وزیر
اعظم سے اس موضوع پر صفائی دینے کا مطالبہ کیا لیکن وہ خاموش رہے اب جبکہ
امریکی دباؤ پڑا ہے اور عالمی سطح پر ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے تو
انہوں نے یہ بیان دیا ہے ۔
لیکن نریندر مودی کا یہ بیان کافی نہیں ہے ۔ فرقہ پرستی اور ہندوشدت پسندی
دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے جب تک مودی یوگی آدتیہ ناتھ ، شاکسی مہاراج ،
نرنجن جیوتی اور دیگر فرقہ پرست لیڈران کے خلاف شکنجہ نہیں کستے ہیں مسئلہ
کا حل نہیں ہوسکتا ہے ۔
ویسے بھی ملک کی عوام یہ جان چکی ہے کہ ہندوستان کے حالیہ وزیر اعظم کے قول
وفعل میں مکمل طور پر تضاد پایا جاتا ہے ۔ وہ کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے
کچھ اور ہیں ۔ عام انتخابات 2014 میں انہوں نے جتنے وعدے کئے تھے اس میں سے
ایک کی بھی تکمیل نہیں ہوسکی ہے ۔
لہذا وزیر اعظم کی نیت اگر صاف ہے، اقلیتوں کے تئیں مثبت نظریہ رکھتے ہیں،
ملک کے سیکولرزم کی روایت برقرار رکھنے کے جذبہ سے سرشار ہیں تو اس کے لئے
ضروری ہے کو جو لوگ سیکولرزم کے تانے بانے کو بکھیرنے میں لگے ہیں ان کے
خلاف کاروائی کریں ۔ مجرموں کو کیفرکردار تک پہچائیں کیوں کہ یہ بیان بازی
مسئلے کا حل نہیں ہے اور نہ ہی اس سے یہاں کی اقلیت خوش فہمی کی شکار
ہوسکتی ۔ساتھ ہی یہ اس مسئلے میں امریکی دباؤ سے قطع نظر ہندوستان کے
اصولوں پر عمل پیرا ہوکر مذہبی عدم تحمل پر پابندی لگائیں کیوں کہ امریکہ
صرف دوسروں کو نصیحت کرنا جانتا ہے وہ خود اس پر عمل نہیں کرتا ہے ۔ سب
زیادہ مذہبی انتہا پسندی خود امریکہ میں پائی جاتی ہے ۔ جس کی تازہ ترین
مثال ، تین مسلم طلبہ کا قتل ، اس کے بعد آج اسٹیل شہر میں ایک مندر پر
ہونے والا حملہ اور جگہ بہ جگہ اس جملہ کا لکھاہواپایا جانا ’’ گیٹ آؤٹ ،
مسلمس گیٹ آؤٹ ‘‘۔ |
|