آٹھ گھنٹوں کی قومی یکجہتی

میں تقریبا 25 سال سے برطانیہ میں آباد ہوں اور اس ملک کی خوبیوں اور خامیوں سے بخوبی واقف ہوچکا ہوں، میری طرح اور بہت سی قومیتوں اور مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ انگریزوں کے علاوہ یہاں آباد ہیں۔ یہاں کا معاشرہ مختلف النسل لوگوں کو اپنے اندر ضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میں جس شہر میں مقیم ہوں وہاں کے ایک کیتھولک پرائمری سکول میں 23 مختلف زبانیں بولنے والے بچے زیر تعلیم ہیں اور اس سکول کی ہر سال کامیابی کی کہانیاں اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔اس ملک میں نسل ، لسانی اور مذہبی طورپر منافرت پھیلانا قابل دست اندازی پولیس ہے۔ نسلی مساوات کو قائم رکھنے کے لئے یہاں باقاعدہ ادارے کام کرتے رہے ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے اس ملک میں ہر قسم کے مواقع موجود ہیں۔ یہاں مذہبی آزادی صرف کاغذوں میں نہیں بلکہ عملی طورپر موجود ہے۔ ہر ایک کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی کھلی آزادی ہے۔ برطانیہ میں گرجا گھر، مندر، گردوارے، یہودیوں کی عبادت گاہیں اور مساجد ہر شہر میں موجود ہیں۔عیسائیت کے بعد اسلام یہاں کا دوسرا بڑا مذہب ہے اور کُل مساجد کی تعداد 1741 ہے۔ملٹی کلچرل اور بین المذاہب معاشرہ ہونے کے باوجود یہاں عدم مساوات اور مذہبی ولسانی جھگڑوں کی بازگشت بالکل سنائی نہیں دیتی بلکہ ہر قسم کی رواداری یہاں کا خاصہ ہے اگر کوئی سیاسی طورپر نسلی یا مذہبی کارڈ استعمال کرکے کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے تو عوام میں اس کی پذیرائی نہیں ہوتی، ایسے لوگوں کو چھوٹی موٹی کامیابیوں کے علاوہ آج تک کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔ اس ملک کی سیاسی پالیسیوں سے کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے اور دنیا میں کوئی بھی معاشرہ خامیوں سے پاک نہیں ہوتا ۔ اس معاشرے میں بھی بہت سی خامیاں موجود ہیں اور اسلاموفوبیا کے حوالے سے بھی بہت سے خدشات پائے جاتے ہیں لیکن یہاں کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وقت جن خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے یہ معاشرہ ان پر قابو پاکر بہتری لانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔بہت پہلے اس ملک میں دیگر مذاہب اور کمیونٹیوں کو بھی مشکلات سے گزرنا پڑا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بہتری پیدا ہوتی گئی، بہت سی خامیوں کے باوجود معاشرتی انصاف اور ایک ملٹی فیتھ وملٹی کلچرل معاشرے کی جو تصویر دنیا کے کینوس پر اس ملک نے پینٹ کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ برطانیہ میں مساجد میں پاکستان کی طرح لائوڈ سپیکر استعمال کرنے کی اجازت نہیں تاہم مساجد کے اندر نہ صرف سائونڈ سسٹم کو استعمال کیاجاتا ہے بلکہ اسلامی تہواروں پر جلسے اور جلوس نکالنے کی بھی کھلی آزادی ہے۔لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم یہاں پر بھی مسالک کو پروان چڑھارہے ہیں، برطانوی اور یورپی معاشرے اس حوالے سے پریشان دکھائی دیتے ہیں ان کے اندر ایک سوال ضرور اٹھ رہا ہے کہ مسلمان آخر یہاں کرنا کیا چاہتے ہیں۔ کیونکہ وہ ایک انتہا پسند تصویر کو دیکھ رہے ہیں جو کہ اسلام کی اصل روح کے بالکل منافی ہے۔ اسی لئے اسلاموفوبیا میں اضافہ ریکارڈ کیاجارہا ہے۔دوسری جانب جب ہم اپنے ملک پاکستان کے اندر جھانکتے ہیں تو جہاں اور بہت سی قباحتیں موجود ہیں وہاں نسلی ، مذہبی اور لسانی منافرت نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کررکھی ہیں، ہمارا قومی اتحاد پارہ پارہ ہوچکا ہے، ہم نہ صرف سیاسی بلکہ مذہبی اور لسانی بنیادوں پر ایک تقسیم شدہ قوم ہیں جس پر جس کا جی چاہتا ہے چڑھ دوڑتا ہے۔ ہم سنی، وہابی، دیوبندی اور بریلوی تو ہیں ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ذات پات کے حوالے سے بھی اونچ نیچ معاشرے کی دیواروں میں دراڑیں ڈال رہی ہے۔ ہم چوہدری، اعوان، گھکڑ، کیانی، جاٹ، گوندل ، ملک ، راجپوت، پراچے، راٹھور، بٹ، مخدوم، گھمن ، ڈوگر ، چوہان ، چھٹہ، بھٹی، باجوہ، چیمہ، کھوکھر اور ناجانے اور کتنی ذاتوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ لسانی بنیادوں پر بھی منافرت عروج پر ہے۔ ہم آج بھی خالصتا اردو بولنے والوں کو ’’ ہندوستانی‘‘ کہتے ہیں، ہم مسلک کی بنیاد پر ایک دوسرے سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین رہے ہیں۔ دہشت گردی اپنی جگہ لیکن اس آگ پر ہم خود بھی تو تیل ڈال رہے ہیں، کوئی تیسرا ہمیں اس وقت تک نہیں لڑا سکتا جب تک ہم خود اپنے دلوں میں کدورت نہ رکھتے ہوں۔ ایک اللہ اور رسول کو مانتے ہیں لیکن خود کو دیوبندی، وہابی ، شیعہ، بریلوی، سلفی اور سنی میں تقسیم کررکھا ہے یہ تمام مسالک دین اسلام کو صحیح طور سے سمجھانے اور اپنے اوپر مسلط کرنے کے لئے تھے لیکن ہم نے اسلام کو توچھوڑ دیا اور یہ مسلک اپنے اوپر مسلط کرلئے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھی ان مسلکی تصورات کا غلبہ موجود ہے۔ شیعہ مسلک کی مساجد اور امام بارگاہوں پر حملے اس کا ثبوت ہیں۔معاف کیجئے گا، دنیا کی تمام قومیں ، شیعہ ، سنی ، دیوبندی، بریلوی،مقلد غیر مقلد سب کو صرف اور صرف مسلمان کے نام سے پہنچانتی ہیں خود کو فرقوں اور مسلکوں میں تقسیم کرنے والوں کی بین الاقوامی شناخت ناقابل تقسیم ہے۔ ہماری قومی یکجہتی کسی غریب کے پھٹے ہوئے کپڑوں کی طرح ہمارا جسم جگہ جگہ سے ننگا دکھانے پر مجبور ہے۔ ہاں15 فروری کو ایک ایسا موقع آیاجب پوری پاکستانی قوم ایک ہوگئی، قومی یکجہتی کا یہ وقفہ آٹھ گھنٹے پر محیط تھا میں بات کررہا ہوں پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کے اس ٹاکرے کی جو ورلڈکپ کے میدان میں ہوا کہنے کو یہ ایک میچ تھا جسے دنیا بھر میں دیکھاجارہا تھا اور ہمیشہ کی طرح یہ بہت سنسنی خیز تھا سب لوگ اسے ہار اور جیت کے تناظر میں دیکھ رہے تھے لیکن میں نے دیکھا کہ ایک قوم ہے جو اپنے ملک پاکستان کو سپورٹ کررہی ہے۔ اس وقت نہ کوئی دیوبندی تھا نہ بریلوی، نہ سلفی، نہ سنی، نہ شیعہ جو ایک دوسرے کی مساجد میں نماز تک نہیں پڑھتے لیکن سب مل کر ایک ساتھ بیٹھ کر یہ میچ دیکھ رہے تھے مجھے ایسا لگا کہ میں بہت عرصے بعد پاکستانیت کو دیکھ رہا ہوں اس قوم کی زندہ دل کو دیکھ رہا ہوں، گرائونڈ کا بھی یہی عالم تھا جو پورے پاکستان کا تھا ایک لائن میں شیعہ تھے تو اگلی لائن میں سنی، پٹھان، پنجابی، سندھی ، بلوچی سب اکھٹے، ایک آواز ایک ہی نعرہ جن دلوں میں نفرت پھیر دی گئی تھی اور جو ایک دوسرے کو کافر کافر کہتے نہیں تھکتےتھے ان سب کا ایک ہی نعرہ تھا، جیتے گا بھی جیتے گا پاکستان جیتے گا، کاش یہ میبچ کبھی ختم نہ ہوتا، پاکستان یہ میچ تو ہار گیا لیکن پاکستانیت جیت گئی، چاہے آٹھ گھنٹوں کے لئے ہی سہی۔
shafqat nazir
About the Author: shafqat nazir Read More Articles by shafqat nazir: 33 Articles with 32571 views Correspondent · Daily Jang London, United Kingdom.. View More