زبان ایک ایسا سماجی عطیہ ہے جو
زمانے کے ساتھ ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو ملتا رہتا ہے۔ بلاشبہ زبان کسی
بھی انسان کی ذات اور شناخت کا اہم ترین جزو ہے۔ قومیتی شناخت اور تہذیبی و
ثقافتی میراث کے طور پر مادری زبانوں کی حیثیت مسلمہ ہے، مادری زبانوں کو
انسان کی دوسری جلد بھی کہا جاتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مادری زبان اﷲ
تعالیٰ کی طرف سے ایک الٰہی عطیہ ہے۔ آج انسان جس ترقی پر پہنچا ہے اس میں
زبان کا ایک بڑا حصہ ہے۔ مادری زبان کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی
چاہیے۔ زبان ایک ذریعہ اظہار ہے جو کسی بھی سماج میں ایک دوسرے سے منسلک
رہنے کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ دیگر معاشرتی لوازمات۔ معاشرتی تنوع
میں بھی بلاشبہ زبان کا بہت اہم کردار ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی نئی
زبانیں وجود پاتی ہیں تو اسی طرح بہت سے زبانیں ختم بھی ہوتی جارہی ہیں۔
دنیا بھر میں 21 فروری 2000ء سے ہر سال مادری زبانوں کا عالمی دن منایا
جاتا ہے جس کا مقصد مادری زبان اور اس سے وابستہ ثقافتی و تہذیبی پہلوؤں کو
اجاگر کرنا ہے۔۔مادری زبان کسی بھی شخص کی وہ زبان ہوتی ہے جو اسے ورثے میں
ملتی ہے یعنی جس گھرانے اور خاندان میں وہ پیدا ہوتا ہے وہ بچے کی مادری
زبان کہلاتی ہے۔ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ فی زمانہ بہت سی زبانیں ختم
ہوتی جا رہی ہیں جس کی وجہ ان کے بولنے والے خود ہیں جو بتدریج ان زبانوں
کے استعمال کو کم کرتے جا رہے ہیں اور پھر یوں یہ زبانیں اپنا اصل اسلوب
ختم کرتے ہوئے کسی دوسری زبان میں منتقل ہوجاتی ہیں۔مادری زبان کی اہمیت کے
بارے میں لسانیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ انسانی کے فطری احساس کی تربیت کے
لیے یہ بہت ضروری ہے۔ لیکن ماہرین کے بقول بہت سی مادری زبانیں بھی وقت کے
ساتھ ساتھ ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ زبان کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ان کے
استعمال کو جاری رکھا جائے۔اگرچہ انسانوں کے علاوہ مختلف جاندار بھی آپس
میں ترسیلِ معلومات کرتے ہیں مگر زبان (language) ایک ایسے نظام کو کہتے
ہیں جس کے ذریعے انسان ایک دوسرے کے ساتھ مختلف آوازوں اور اشاروں کی مدد
سے تبادلہ معلومات و خیالات کرتے ہیں۔ مختلف زبانوں کی تخلیق و ترقی کا
تجزیہ لسانیات کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ انسان کی زندگی میں زبان کی اہمیت کا
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ زبان کے بارے میں قرآن کریم کی سورۃ
الروم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے جس کا خلاصہ و مفہوم ہے : ’’اور اس(اﷲ) کی
نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور
تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کیلئے
نشانیاں ہیں۔‘‘ اس آیت میں زبان کے اختلاف کو اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں
شمار کیا گیا ہے۔اسی طرح سورۃ رحمن میں تخلیق انسان کے بعد جس پہلی بڑی
نعمت خداوندی کا حوالہ دیا گیا ہے وہ اس کے نطق و بیان کی قوت ہے۔ زبان کے
بارے میں ہی ایک دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے:’’ہم نے ہر رسول کو ان کی
مخاطب قوم کی زبان ہی میں (دعوت دینے کے لیے) بھیجا۔ (سورۃ ابراہیم
14:4)‘‘دنیا میں کتنی ہی قومیں ہیں اور ہر ایک قوم زبان کے اعتبار سے اپنی
الگ شناخت رکھتی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا
بھر میں تقریبا 6912 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ زمانے کی جدت اور
سرکاری زبانوں کے بڑھتے ہوئے استعمال سے مادری زبانوں کی اہمیت ماند پڑ رہی
ہے۔ مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے
لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ مختلف النوع کی ثقافت و روایات
کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔
دنیا میں اتنی زیادہ زبانوں کا پیدا کرنا یقیناً اﷲ کی قدرت کی ایک بہت بڑی
نشانی ہے۔ ایک انسان ہزاروں اور لاکھوں کے مجمع میں اپنی زبان اور اپنے
لہجے سے پہچان لیا جاتا ہے، صرف زبان ہی اس کا مکمل تعارف کرا دیتی ہے۔
زبان ایک ایسا سماجی عطیہ ہے جو زمانے کے ساتھ ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل
کو ملتا رہتا ہے۔ بلاشبہ زبان کسی بھی انسان کی ذات اور شناخت کا اہم ترین
جزو ہے۔ قومیتی شناخت اور تہذیبی و ثقافتی میراث کے طور پر مادری زبانوں کی
حیثیت مسلمہ ہے، مادری زبانوں کوانسان کی دوسری جلدبھی کہا جاتا ہے۔اس میں
کوئی شک نہیں کہ مادری زبان اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک الٰہی عطیہ ہے۔ آج
انسان جس ترقی پر پہنچا ہے اس میں زبان کا ایک بڑا حصہ ہے۔مادری زبان کی
حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ لسان(زبان) کی اہمیت اپنی جگہ لیکن
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان اپنی زبان پر فخر کرے اور دوسرے کی زبان
کو حقیر جانے، اس زبان کو ہی بنیاد بنا کر ایک دوسرے سے قتل و قتال کرنے
لگے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ لسانیت کا تو دوست ہو سکتا ہے لیکن
انسانیت کا ہرگز دوست نہیں ہوسکتا۔ |