ادیب ،شاعر ، دانش ور عطأ الحق قاسمی ۷۲ کے یا ۴۳کے
(Dr Rais Samdani, Karachi)
(عطأ الحق قاسمی کی ۷۲ ویں
سالگرہ منعقدہ ۲ فروری بروز پیر ۲۰۱۵ء کی تقریب کے حوالے سے)
اردو کے معروف ادیب، شاعر، دانش ور و کالم نگارعطأ الحق قاسمی سے محبت اور
عقیدت رکھنے والی جماعت ’’محبان عطأالحق قاسمی‘‘ نے ۲ فروری بروز پیر ۲۰۱۵ء
لاہور میں اپنے مُحِبّ کا۷۲واں جنم دن منایا۔سالگرہ کی باقاعدہ تقریب کا
اہتمام ہوا ۔ اردو کی معروف شخصیات نے عطا ء الحق قاسمی صاحب کی شان میں
تقریریں کیں اور ان کی تعریف و توصیف میں خوب خوب بولے۔ تقریب کا دولھا جسے
ہونا چاہیے تھا وہی تھا یعنی محترم عطا ء الحق قاسمی اپنے مخصوص انداز میں
پھولے نہ سمارہے تھے۔ ھَشاش بَشاش ، خوش وخرم، باغ باغ، شاداں و فراواں
قاسمی صاحب اپنے چاہنے والوں کی کچھ میٹھی کچھ کھٹی، کچھ چٹخارے دار باتیں
جو تمام کی تمام ان کے بارے میں ہی تھیں مزے لے لے کر سن رہے تھے اور
مَحظُوظ ہورہے تھے۔ اﷲ قاسمی صاحب کو تادیر زندہ رکھے۔ بہادر شاہ ظفر نے
دعا ئیہ شعر کہا جس کے جواب میں غالب ؔ نے بہادر شاہ ظفر کو طویل عمر کی
دعا دیتے ہوئے دعائیہ شعر کہا ۔ دونوں شعر قاسمی صاحب کی نظر
بہادر شاہ ظفرؔ :
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
مرزا اسد اﷲ خاں غالبؔ
تم جیو ہزاروں سال
سال کے دن ہوں پچاس ہزار
پروگرام کی کمپیئرنگ ٹیلی ویژن کی بھولی بھالی ، تیز آواز والی نیوز کاسٹر
و اینکر پرسن غریدہ فاروقی نے اپنے مخصو ص انداز میں انجام دئے۔ محترم
قاسمی صاحب کو دل کی گہرائیوں سے۷۲واں جنم دن مبارک ہو۔ پروردگار انہیں صحت
و تندروستی کے ساتھ عمر طویل عطا فرمائے۔ وہ اسی طرح خوش و خرم و شاداب
رہیں۔ روزنامہ جنگ میں ان کے کالم اسی طرح سجتے رہیں اور وہ اسی طرح نواز
شریف کے گن گاتے رہیں۔سچ پوچھیں تو مَیں بھی مُحبانِ قاسمی میں سے ایک ہوں
بہت ہی معمولی سے سیاسی اختلاف کے ساتھ۔ وہ یہ کہ قاسمی صاحب نوازیے ہیں،
اپنے کسی بھی کالم میں نواز شریف، خادم اعلیٰ اور نواز لیگ کی شان میں کبھی
منفی بات نہیں کرتے ، اور کرنی بھی نہیں چاہیے، ہمیشہ شان ہی بیان کرتے ہیں۔
کپتان سے سیاسی اختلاف رکھتے ہیں ، اسے فاشسٹ اور اس کی جماعت کو فاشسٹ
جماعت لکھ چکے ہیں، جب کہ نواز لیگ کو جمہوری جماعت لکھا حالانکہ اس جماعت
میں آج تک انتخابات نہیں ہوئے۔ آصف زرداری تو انہیں با لکل ہی پسند نہیں،
یہ بھی ٹھیک ، اپنی اپنی پسندہے۔ رہ گئے چودھری برادران تو وہ بھی بس یوں
ہی ہیں، ایم کیو ایم تو ہے ہی کراچی کی پارٹی اسے بھلا وہ کیوں خاطر میں
لائیں گے۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن جناب قاسمی صاحب کی علمی و ادبی
خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ پاکستان کے ان چند ادیبوں، شاعروں،
دانش وروں میں سے ہیں جو روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ شاید یہ شعر علامہ اقبالؔ
نے قاسمی صاحب جیسی شخصیات کے لیے ہی کہا ہوگا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
بات قاسمی صاحب کے جنم دن کی تقریب کی ہورہی تھی اور بات کہاں سے کہاں نکل
گئی۔ تقریب کا انعقاد لاہور کی آرٹس کونسل میں پیر۲ فروری کی شب ہوا۔
اخبارات نے تو اس تقریب کی رپورٹنگ کی ہی خود قاسمی صاحب نے روزنامہ جنگ
میں اپنا کالم بعنوان ’۷۲ ویں یا ۴۳ ویں سالگرہ ؟ ‘ کے عنوان سے تحریر کیا
اور اس تقریب کا آنکھو ں دیکھا حال خوبصورت پیرائے میں ، ادبی چاشنی کے
ساتھ قلم بند کیاجو پڑھنے کے قابل ہے۔مجھے یہ کالم پڑھ کر ہی جوش آیا کہ
قاسمی صاحب سے میرا برائے راست تو صرف ادب کے حوالے سے ہی تعلق ہے لیکن ایک
تعلق یہ بھی ہے کہ میرے ایک انتہائی محترم دانش ور و ادیب دوست ڈاکٹر طاہر
تونسوی کے دوست ہیں۔ اس اعتبار سے قاسمی صاحب گویا میرے دوست بھائی ہیں۔
عطأ الحق قاسمی صاحب کو میں اس وقت سے دیکھ رہا ہوں جب برقی میڈیا متعارف
نہیں ہوا تھا۔ قاسمی صاحب اپنی شاعری اور نثری تحریروں کے ساتھ اخبارات کی
ذینت بنا کرتے تھے۔ برقی میڈیا کے آجانے کے بعد انہیں ٹیلی ویژن پر بھی
دیکھا۔ کبھی شرف ملاقات حاصل نہ ہوا۔ نہ ہی قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہی
ہوا۔کالج سے ریٹائرمنٹ (۲۰۰۹ء) کے بعد ۲۰۱۰ء میں مَیں سرگودھا یونیورسٹی کے
شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس سے بحیثیت ایسو سی ایٹ پروفیسر وابستہ
ہوگیا۔ کیمپس میں رہائش ٹیچرز ہاسٹل کے کمرہ نمبر۵میں تھی۔میرے کمرہ کے
سامنے کمرہ نمبر ۲ تھا جس میں شعبہ اردو کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر طاہر
تونسوی رہائش رکھتے تھے۔ ذہنی ہم آہنگی کہئے، مزاج میں مطابقت کہا جائے ،
ہم عمرہونا کہا جائے ، کچھ بھی سہی وہ میرے دوست ہوگئے ۔ سردیوں کا موسم
تھا۔ سرگودھا کی سردی ، کراچی والوں کے لیے تو برداشت سے باہر تھی، اب
سرگودھا کے سرد شامیں میرے کمرے میں گزرنے لگیں، مغرب کی نماز کے بعد بیٹھک
ہوتی اور دنیا کا شاید ہی کوئی موضوع ایسا ہو جس پر گفتگو نہ ہوتی ہو۔ اس
دوران کئی احباب ہماری محفل کا حصہ بننے لگے ، ان میں ڈاکٹر ظفر اقبال اور
ڈاکٹرعبدالرشید رحمت ڈین فیکلٹی آف اسلامک اینڈ اورینٹل لرنگ، ڈاکٹر خالد
ندیم ، ڈاکٹر شاہد راجپوت ‘ شعبہ کے ایک شاگرد، طارق کلیم وغیر ہ شامل تھے۔
بات مختصر کرکے آگے بڑھتا ہوں ۔ سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے بین
اقوامی اردو کانفرنس کے انعقاد کا اہتما کیا۔ اب کانفرنس کے حوالے میرا
کمرہ مرکز بن گیا۔یہدوروزہ انٹر نیشنل اردو کانفرنس ۳۔۴ نومبر ۲۰۱۰ء کو
جامعہ سرگودھا کے ایم بی اے ہال میں منعقد ہوئی۔ میں عملی طور پر اس میں
شریک نہیں ہوتا تھا لیکن اس حوالے سے ہونے والی گفتگوکا سامع بن گیا اور
مجھے ایسا لگا کہ میں اس کانفرنس کا ایک حصہ ہوں۔
کانفرنس میں اردو ادب کی عالمی اور قومی شہرت یافتہ شخصیات شریک ہوئیں۔
مہمان اعزازاردو کے عالمی شہرت یافتہ ادیب و دانشور ڈاکٹر خلیق انجم تھے جو
بھارت سے تشریف لائے تھے ، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابرہیم کا تعلق مصر سے تھا،
پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال جو اب وفاقی جامعہ اردو کے وائس چانسلر ہیں،ملتان
کے معروف استاد، شاعر و ادیب پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم انصاری،ڈاکٹر فخر
الحق نوری،،ڈاکٹر سید جاوید اقبال ،ڈاکٹرانعام الحق جاوید، ڈاکٹر آفتاب
اصغر ، ڈاکٹر روبینہ ترین، ڈاکٹر محمد یوسف خشک ، ڈاکٹر امجد علی بھٹی،
حمید الفت ملغانی، پروفیسر شوکت مغل شامل تھے۔کانفرنس کی تیسری نشست محفل
مشاعرہ تھی ،صدارت معروف شاعر ،ادیب و دانش ور پروفیسرڈاکٹر محمد اسلم
انصاری نے کی جب کہ مہمان خصوصی بھارت کے شاہد ماہلی اور کراچی کے پروفیسر
سحر انصاری تھے۔ محفل مشاعرہ کی نظامت کے فرائض طارق حبیب نے خوبصورتی کے
ساتھ انجام دئے۔جن شعرا نے اپنا کلام سنا یا ان میں عطاء الحق
قاسمی،پروفیسرڈاکٹر محمد اسلم انصاری،سحر انصاری، شاہد ماہلی، یونس اعجاز،
ڈاکٹر انعام الحق جاوید،ڈاکٹر طاہر تونسوی، خالد اقبال یاسر، ڈاکٹر تحسین
فراقی، ڈکٹرراشد متین، حسن عباسی، حرارانا، ڈاکٹر صغریٰ صدف، ڈاکٹر فخرالحق
نوری، ارشد ملک، شفیق آصف، عابد خورشید، عاشر وکیل راؤ، شاکر کنڈان، شیخ
محمد اقبال، مقبول نثار ملک، احمد عبد اﷲ، افتخار عاکف، طارق کلیم، نوشین
صفدر، طارق حبیب اور سید مرتضیٰ حسن شامل تھے۔اس مشاعرے میں قاسمی صاحب جو
اپنا کلام سنا یا اس کا ایک شعر مجھے یاد رہ سکا ہے۔ قاسمی صاحب لاہور سے
سرگودھا بہت جلدی میں اور رات کی تاریکی میں تشریف لائے اور اسی تاریکی میں
ہی واپس بھی چلے گئے تھے۔ شعر یہ ہے
میں وہ دعا ہوں عطاؔجو ہر ایک لب پر ہے
بس اتنا ہے کہ ابھی عرصہء قبول میں ہوں
سر گودھا یونیورسٹی وہ جگہ اور مقام تھی جہاں میں نے قبلہ عطاء الحق قاسمی
کو قریب سے دیکھا اور ملاقات کی۔ انہیں تو شاید میرا ملنا یاد بھی نہ ہوگا۔
اس وقت قاسمی صاحب نہ ۷۲ کے تھے نہ ۴۳ کے بلکہ وہ اتنے تھے کہ جتنا کہ میں
اب ہوں یعنی ۶۷ کے۔ خوبصورت تو وہ اب بھی ہیں اور اس وقت زیادہ حسین تھے۔
قاسمی صاحب کا جسہ اگر بیان کیا جائے تو وہ میری رائے میں کچھ اس طرح کا
بنتا ہے ۔گندمی رنگ ، غلافی آنکھیں، کشادہ پیشانی، کتابی چہرہ، درمیانہ قد،
چوڑا سینہ، مضبوط جسم، چہرے پر مسکراہٹ، آنکھوں میں سوجھ بو جھ کی چمک،
کلین شیو،داڑی موچھ سے پاک صفا چٹ میدان، اونچی مگر پھیلی ہوئی ناک، گھنی
بھنویں، ہونٹ قدرے موٹے، چھوٹی آنکھیں، سنجیدہ طرز گفتگو، معلومات کا
خزانہ،ہر موضوع پرتفصیلی اور حوالائی گفتگو، گفتگو میں بر محل خوبصورت
اشعار کا استعمال، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، المختصر صورت شکل، وضع
قطع،چہرے مہرے سب سے شرافت، تحمل ، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار۔
تقریب تھی قاسمی صاحب کی سالگرہ کی جس میں کون کون نہیں مدعو کیا گیا ہوگا
اور کون ہوگا جسے معلوم ہو جائے کہ قاسمی صاحب کی سالگرہ کی تقریب آرٹس
کونسل میں محفل موسیقی کے تڑکے کے ساتھ منعقد ہورہی ہے نہیں آنا چاہے
گا۔تقریب میں قاسمی صاحب کی شان میں قصیدہ گوئی تو ہونا ہی تھی بعد از
قصیدہ گوئی محفل موسیقی کا بھی اہتمام تھا۔ لوگوں کا کھنچے چلے آنا لازمی
تھا۔قاسمی صاحب نے فرمایا کہ لوگ تقریروں کے درمیان اور بعد میں محفل
موسیقی میں جم کے بیٹھے رہے۔قاسمی صاحب اگر یہ محفل صرف آپ کے ساتھ ایک شب
ہوتی تو لوگ اسی دلجمعی سے آپ کو سنتے رہتے۔ منتظمین نے اسٹیج کے اوپر پینا
فلیکس پر دیگر تعریفی کلمات کے علاوہ یہ بھی تحریر کرایا تھا کہ قاسمی صاحب
کی ۷۲ ویں سالگرہ کی تقریب ہے اور یہ کہ قاسمی صاحب کو زندگی کی ۷۲ بہاریں
دیکھنا مبارک ہو۔ تقریب سالگرہ کی ہو، نمایاں طو رپر عمرِ مبارک بھی درج ہو
تو جو مقرر بھی آئے گا اس بات کا ذکر تو ضرور کرے گا۔ اور ایسا ہی ہوا ، ہر
مقرر نے قاسمی صاحب کو ۷۲ ویں سالگرہ کی مبارک دیتے ہوئے اپنی بات کو آگے
بڑھایا۔ قاسمی صاحب کا کہنا ہے کہ ان سے یہ سب کچھ برداشت نہ ہوا، بقول ان
کے ’عزت سادات‘ خطرہ میں دیکھ کر وہ مائیک پر آئے اور یہ اعلان کیا کہ
خواتین و حضرات میری عمر ۷۲ سال نہیں ۔ یہ مغالطہ محض اس وجہ سے پیدا ہوا
کہ دراصل میرا سال پیدائش ۱۹۷۲ء ہے ۔اس حساب سے تو میں صرف ۴۳ سال کا بنتا
ہوں‘۔
غالبؔ نے اسی سادگی پہ تو یہ شعر کہا تھا
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے‘ اَے خُدا !
لڑتے ہیں‘ اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
قاسمی صاحب کی وضاحت کو کوئی مقرر خاطر میں نہیں لایا اور لاتا بھی کیسے
بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ قاسمی صاحب جن کو نہ معلوم کتنے لوگ ہوں گے مجھ
جیسے ۷۰ کے قریب قریب پہنچنے والے ایسے ہوں گے جو انہیں اپنے پچپن سے قاسمی
صاحب کو ایسا کا ایسا ہی دیکھتے چلے آرہے ہیں، تب ہی تو مجیب الرحمان شامی
اپنی تقریر میں قاسمی صاحب کو ’بابا عطا ء الحق قاسمی‘ کہتے رہے، اوریا
مقبول جان نے قاسمی صاحب سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر اس وقت سے کیا جب وہ خود
بچے تھے۔ دیگر مقررین میں حسین احمد شیرازی جو تقریب کے منتظم میں سے تھے،
وجاہت مسعود، اصغر ندیم سید، مسعود اشعر، کیپٹن عطا محمد خان، امجد اسلام
امجد، ڈاکٹر سلیم اختر، انتظار حسین، عبد اﷲ حسین، پروفیسرڈاکٹر مجاہد
کامران اور قاسمی صاحب کے بیٹے علی عثمان قاسمی شامل تھے۔
کسی لکھاری نے یہ بھی کہا ہے، ہوسکتا ہے کہ قاسمی صاحب نے ہی لکھا ہو یاد
نہیں آرہا کہ کسی بھی لکھنے والے کی عمر وہ ہوتی ہے کہ جب سے اس نے لکھنا
شروع کیا ہو۔اگر قاسمی صاحب نے ۱۹۷۲ ء سے لکھنا شروع کیا تو پھر تو وہ اپنی
بات میں سچے ہیں ان کی عمر واقعی ۴۳ ہی ہوگی ۔ جیسے میرا پہلا مضمون ۱۹۷۵ء
میں شائع ہوا تھا اس اعتبار سے میری عمر ۴۰ ہی ہوئی لیکن اس دنیا میں آنے
کا سال ۱۹۴۹ء ہے اس اعتبار سے عمر ۶۶ ہوئی۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم ۴۰
کے ہوں یا ۶۶ کے، ۷۲ کے ہو ں یا ۴۳ کے، جو عمر ہم اپنے ساتھ لکھوا کر لائے
ہیں ہم اس سے ایک لمحہ بھی زیادہ جی نہیں سکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم
جس شعبہ سے بھی وابستہ ہوں کچھ نہ کچھ کرتے رہیں، اگر لکھاری ہیں تو اپنی
بساط کے مطابق لکھتے رہیں اور علم میں اضافہ کرتے رہیں۔
جناب عطا ء الحق قاسمی شاعر تو اچھے ہیں ہی وہ مزاح کی حس بہت عمدہ رکھتے
ہیں۔ مزاح لکھنے کی جو صلاحیت ان میں پائی جاتی ہے وہ منفرد اور اعلیٰ ہے۔
اس حس کے ساتھ ان کی تحریر پڑھنے والے کو بور اور اداس نہیں ہونے
دیتی۔معاشرے میں موجود برائیوں ، خرابیوں اور نہ انصافیوں پر ان کے کالم
پڑھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ان کی تحریر کااچھوتا انداز ہے۔ جمہوریت پسند ہیں،
ڈکٹیٹر اور ڈکٹیٹر شپ کو سخت نہ پسند کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ڈکٹیٹر شپ کے
خلاف مسلسل لکھتے رہے ہیں۔ نواز شریف ان کے نذدیک بہت شریف النفس سیاست داں
ہیں، ان کی حکومت کو پسند کرتے ہیں ان کے حمایت میں لکھتے رہتے ہیں۔ نواز
حکومت کے ۱۹۹۷ء تا ۱۹۹۹ء میں وہ ناروے اور تھائی لینڈ میں پاکستان کے صفیر
کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔موجودہ حکومت کو دوسرا سال ہونے والا
ہے دیکھیں اس دور حکومت میں کیا تحفہ عطا کو عطا ہوتا ہے۔ڈرامہ نویس بھی
ہیں۔ ان کے کئی ڈرامے ٹی وی پر ٹیلی کاسٹ ہوچکے ہیں ان میں خواجہ اینڈ سنز،
شب دیگ، شیدا ٹالی اور سارے گامہ شامل ہے۔قاسمی صاحب ناول نگار اور سفر
نامہ نگار کی حیثیت بھی رکھتے ہیں ان کا سفر نامہ نما ناول ’شوقِ آوارگی‘
شائع ہوچکا ہے۔ صفِ اول کے کالم نگار وں میں شمار کیے جاتے ہیں۔روزنامہ جنگ
میں’روزن دیوار‘ کے عنوان سے مسلسل کالم لکھتے ہیں۔ان کے کالم ہماری روزمرہ
زندگی کے مسائل ، سیاسی و سماجی احوال و حالات کا احاطہ کیے ہوئے ہوتے ہیں۔
لاہور آرٹس کونسل کے اعزازی صدر ہیں۔سنا ہے کہ موجودہ حکومت قاسمی صاحب کو
لاہور آرٹس کونسل کا تا حیات صدر بنے رہنے کی درخواست کرنے والی ہے۔ اس خبر
میں کس قدر صداقت ہے نہیں معلوم ۔ اگر ایسا ہے تو قاسمی صاحب کو پیشگی
مبارک باد۔ ویسے تواس وقت پنجاب کے گورنر کی کرسی بھی خالی ہوچکی ہے۔ معلوم
نہیں کیوں ہمارے سیاست داں ادیبوں ، دانشوروں ، شاعروں ، لکھاریوں کو صدر
اور گورنر جیسے عہدوں کا اہل کیوں نہیں سمجھتے۔اب جب کے صدر اور گورنر کا
عہدہ آئینی اعتبار سے شو پیس ہو کر رہ گیا ہے اس عہدہ پر کسی سیاست داں کے
بجائے کسی اہل علم و دانش ور کو بیٹھا دیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔کم از
کم وہ چودھری سرور کی طرح یہ خواہش نہیں کرے گا کہ اسے عملی طور پر لوگوں
کے مسائل حل کرنے کے اختیارات حاصل نہیں تھے۔
تمام مقررین نے قاسمی صاحب کی شخصیت اور علمی و ادبی خدمات کے حوالے سے
اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اور یقینا بہت خوب کیا ہوگا۔ ڈاکٹر سلیم
اختر گو بیمار ہیں لیکن خوب بولے، قاسمی صاحب کی خدمات کا سیر حاصل احاطہ
کیا، انتظار حسین صاحب کی گفتگو کا کیا کہنا، لگتا ہے کہ منہ سے پھول چھڑ
رہے ہیں، دھیمی آواز، شیریں الفاظ، نفیس انداز گفتگو کی حامل یہ شخصیت اپنی
مثال آپ ہے۔ عبد اﷲ حسین جو تقریب کے مہمان خصوصی تھے کا یہ جملہ جسے قاسمی
صاحب نے بھی پسند کیا اپنے کالم میں نقل کیا ، کو میں بھی نقل کرتے ہوئے
اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔’عطا ء الحق قاسمی کا ذہن پنجاب کی زمین کی طرح
زرخیز ہے کہ اس کے ہاں بھی ایک فصل کے بعد دوسری فصل تیار ہوتی ہے‘۔ اچھی
اور خوبصورت بات ہے۔ کوئی بات قاسمی صاحب کو یا ان کے چاہنے والوں کا نا
گوار لگی ہو توراقم اس کی معزرت کا طلب گار ہے۔ قاسمی صاحب میرے بھی آئیدیل
کالم نگار وں میں سے اﷲ انہیں آئندہ برس ہی نہیں بلکہ طویل عرصہ زندگی دے
اور وہ ادب کی اسی طرح خدمت کرتے رہیں۔ عطا الحق قاسمی صاحب کی ایک غزل
بھٹک رہی ہے عطا خلق بے اماں پھر سے
سروں سے کھینچ لیے کسی نے سائیباں پھر سے
دلوں سے خوف نکلتا نہیں عذابوں کا
زمیں نے اوڑھ لیے سر پر آسماں پھر سے
میں تیری یاد سے نکلا تو اپنی یاد آئی
ابھر رہے ہیں مٹے شہر کے نشاں پھر سے
تیری زباں پہ وہی حرف انجمن آرا
میری زباں پہ وہی رائیگاں پھر سے
ابھی حجاب سا حائل ہے درمیاں میں عطاؔ
ابھی تو ہوں گے لب و حرف رازداں پھر سے
(۱۷ فروری ۲۰۱۵ء) |
|