مملکت خداداد پا کستا ن مسلما نا
ن برصغیر کی عظیم جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے نتیجے میں معرض وجود میں
آیا۔ ملک پاکستان کی تخلیق کے پس منظر میں جونظریہ کار فرماتھااس کامقصدایک
ایسی آزاد مملکت کا قیام تھا جو خود مختارھو۔جہاں حقیقی جمہوری نظام
ھو۔معاشی مساوات عدل و انصاف حقوق انسانی کا تحفظ قانون کا احترام امانت و
دایانت جس کے معاشرتی امتیاز ھو۔جہاں حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ھو۔جہاں
کی عدلیہ آزاد اور خود مختار ھواور سستے اور فوری انصاف کی ضامن ھو۔جہاں کی
پولیس اور انتظامیہ عوام کی محافظ ھو۔
جہاں کی فوج ملک اور عوام دونوں کی محافظ ھو جہاں کی بیوروکریسی عوام کی
خادم ھو۔مگر آج ھم کہاں کھڑے ہیں ھم کس طرف جارہے ہیں۔ہم نے اپنوں کی
غلطیوں اور ناچاقیوں کی وجہ سے آدھا ملک صرف 25سال میں گنوا دیا ھم اس ملک
کو اس کے باسیوں کے مطابق بنانا چاہتے تھے مگر شاباش ہیں اس ملک کے
سیاستدانوں پر جن کی بےوقوفانہ پالیسیوں کے سبب اس خطہ ارضی پر دہشت گردی
اور غربت کا ایک کہرام مچا ھواں ھے جمہوریت ان سیاستدانوں کی عیاشی
ھےانتخابات ان کا کاروباراور عوام ان کے غلام جنہییں ہر پانچ سال بعد
استعمال کیا جاتا ھے۔جمہوریت کے نام پہ جو اس ملک میں ھو رہا ھے وہ ہر گز
جمہوریت نہیں۔ہمارے سیاستدان بہت بڑے کھلاڑی ہیں ان کے پاس ایسے ایسے سیا
سی ہنر ہیں کہ بے چارہ شیطان بھی ان کے افعال دیکھ کے شرما جائے۔
ان کے کردار پہ تو کسی کو کوئ شبہ نہیں اور ملک کے لیے ان کی خدمات اتنی
ہیں کہ ایک کتاب لکھتے لکھتے برسوں گزر جائیں ان کے اپنے قانون اور اصول
ہیں ۔جو بجلی چور ہے اسے بجلی کی وزارت دے دی جن کی ڈگری جعلی وہ وزیر
تعلیم بن گئے۔اور جو لوگوں کو گمراہ کرنے کا ماہر ہو وہ وزیر اطلاعات جو
ٹیکس چور ھو وہ وزیر قانون ۔عجیب نرالے انداز ہیں ہمارے سیاستدانوں کے نہ
صرف عوام بلکہ عوامی سوچ کو بھی یر غمال بنا رکھا ہے تمام سیاسی احباب
موجودہ نظام کو ہر صورت برقرار رکھنا چا ہتے ہیں۔ کیونکہ ہماری آدھی عوام
تو ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائ کہ سچ کیا ہےاور جھوٹ کیا۔کچھ تو ایسے ہیں جو
ان سے بھتہ لے کے ان کے گن گا رہے ہیں اور جو کچھ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ان
کو انتظامی قانونی اور اخلاقی زنجیروں نے جگڑ رکھا ہے۔ یہ قوم عرصہ دراز سے
جس تز بزب سیاسی فکری انتشار سماجی خلفشار عدم استحکام اور معاشی زبوں حالی
بلکہ تباہ حالی میں مبتلا ہ جب تک اس سے آگئ نہیں ھو گئ تب تک اس قو م کے
مرض کی تشخیص بھی ممکن نہیں اس کے بحد سوچا جا ے کہ علاج کیا ہے۔اس وقت ھم
منتشر اور پارہ پارہ قوم بن چکے ہیں ہمیں اتحاد کی سخت ضرورت ہیں۔
بدقسمتی سے ہماری قوم نہ صرف مایوس ھو چکی ہے بلکہ بے مقصدیت کاشکار بھی ھو
چکی ھے اس قوم کے سامنے کوئ نصب العین نہیں رہا۔ قوم کی سمت بھی بے سمت ہو
چکی ھے اس کی وفاداریاں بولیاں مفادات ایجنڑے سب متضاد ہیں ۔ اگر ھم چاہتے
ہیں کہ یہ سترہ کروڑ بے ہنگم افراد کا ہجوم ایک قوم بن کر ابھرے ہمیں اپنے
دلوں اور دما غ سے غلامی کے طوق اتارنے ھو گے ہمیں اپنوں اور غداروں میں
فرق جاننا ہو گا ہمیں پھر سے یاد کرنا ھو گا ہماری پہچان کیا ھے۔کیا ہم
اپنی اس جنت کو بچانا چاھتے ھیں یا ڈوبونا چاہتے ہیں فیصلہ آپ کے ہاتھ میں
ھے۔
|