جس قوم نے آصف زرداری اور
نوازشریف کو اپنا قائد اور نجات دہندہ تسلیم کر لیا ہو اور قوم کے دانشوروں
اور داناؤں نے ان نجات دہندہ لیڈروں کے فرضی قصے لکھنے اور پڑھنے کو جز
ایمان بنا لیا ہو انہیں اندھیرے اور اُجالائے کی پہچان ہونا ممکن ہی نہیں۔
جعل سازی صحافت، سیاست اور دانش سے لیکر روحانیت تک سرائیت کر چکی ہے
اورقوم ہر طرح اور ہر سطح کے جعلسازوں کے سامنے سر تسلیم خم ہے۔ کرپٹ ،
جاہل اور جعلساز سیاسی لیڈر ، اینکر دانشور ، کالم نگار ، پیر ، صوفی اور
صحافی قوم کے اعصاب پر سوار ہیں اور جو کچھ ان کی زبان اور قلم سے نکلتا ہے
اثر رکھتا ہے۔ آدھی قوم بھٹو ازم اور آدھی دیگر ازوم کی کھچڑی پر ایمان کی
حد تک یقین رکھتی ہے۔
مشہور روسی دانشور رسول حمز ہ توف لکھتا ہے کہ ایک گاؤں میں ایک بدھو اور
ایک ہی دانشور قابل قبول ہوتا ہے۔ جس گاؤں میں بہت سے بدھو پیدا ہو جائیں
وہاں عام لوگوں کا جینا محال ہوجاتا ہے ۔اسی طرح گاؤں میں ایک ہی عقل مند،
رہبر اور قائد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر سارا گاؤں عقلمندوں ، دانشوروں اور
لیڈروں سے بھر جائے تو اُسکا حشر بھی برا ہوتا ہے۔
ہمارے بد نصیب ملک کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ عوام آصف زرداری اور نواز
شریف سے خوشحالی ، امن اور حفاظت کی اُمید لگائے ان ہی کے ہاتھوں ، لٹ پٹ
اور پس رہے ہیں مگر پھر بھی ان ہی کا دم بھرتے اور اُن کے نام پر مرتے ہیں۔
اخباری دانشور اور ٹیلی ویژن زدہ مفکر اور اینکر کہتے ہیں کہ قوم جاگ اُٹھی
ہے ۔ پتہ نہیں کہ غیر ملکی ایجنسیوں کے وظیفہ خور صحافیوں اور دانشوروں کی
یہ قوم کہاں رہتی ہے؟ پاکستان میں ایسی کوئی قوم ہے ہی نہیں جوجا گ رہی ہو
۔ جاگتی قوم کی جیبوں سے کوئی پیسہ کیسے نکال سکتا ہے۔ پولیس ، پٹواری کے
خوف کی ماری قوم جاگی ہوئی تو نہیں بلکہ تھکی اور ہاری ہوئی ضروری ہے۔ آج
کا پاکستان قائداعظم کا نہیں بلکہ فضل الرحمن ، اسفند یا رولی ، زرداری اور
نواز شریف کا پاکستان ہے اور اس پاکستان کے بطن سے ملالہ یوسف زئی ، بلاول
زرداری ، حمزہ شہباز اور مریم نواز پیدا ہوئے ہیں۔
آج کا پاکستان رسول حمز ہ توف کا گاؤں ہے جہاں اٹھارہ اینکر ، پندرہ کالم
نگار ، پانچ سیاسی لیڈر اور اس ٹولے کے پندرہ بیس بچے اٹھارہ کروڑ بدھوں پر
اپنے باپ دادوں کے بنائے ہوئے آئین اور قانون کے مطابق حکومت کر رہے ہیں۔
ایک دن سنا تھا کہ پاکستان کی عدلیہ آزاد ہوگئی ہے اور پھر افواہ پھیلی کہ
میڈیا بھی آزاد ہے۔ ایک اور بدھو نے کہا کہ میڈیا آزاد ہوا اور پھر بک گیا
۔ میڈیا والوں نے یہ گرُ آئی پی ایل سے سیکھا اور ہر صحافی ، اینکر ، میڈیا
ہاؤس کے مالک اور دانشور نے کرکٹر ز کی طرح اپنی بولی لگا دی ۔ سیاستدانوں
، حکمرانوں سمگلروں ، کارخانہ داروں اور ساھو کاروں نے اپنی اپنی پسند کے
اینکر دانشور ، صحافی اور کالم نگار ہی نہ خرید ے بلکہ چوٹی کے وکیل ، کچھ
وزیر اورجج بھی خرید لیے تاکہ بوقت ضرورت کام آسکیں۔ ملکی منڈی میں مندی
ہوئی تو صحافیوں ، دانشوروں اور اینکروں نے این جی او اور پاکستان مخالف
غیر ملکی ایجنسیوں کے ہاتھوں بکنے میں بھی کوئی عار محسوس نہ کی اور جو جس
کے ہاتھ لگا وہ خرید لیا گیا ۔سب عقلمند وں اور دانشمندوں کو ایک جیسا کام
ملاتا کہ نظریات اور رجحانات میں ٹکراؤ نہ ہو ۔پاکستان ، اسلام ، افواج
پاکستان ، آئی ایس آئی اور عوام کی توہین ، تذلیل اور تحیقرسب کا مشن و
مقصد ٹھہرا اور سب کو تلقین کی گئی کہ جو کچھ اور جیسا مغربی میڈیا کی طرف
ملے اُسے ویسا ہی وصول اور قبول کیا جائے اور پھر پوری قوت سے بدھوؤں کے
دماغوں میں ٹھونس دیا جائے۔
حشر سامانیوں کا دور چلا تو عدلیہ نے چپ سادھ لی اور عوام کو چپ لگ گئی ۔
ملک بدھوں کا دیش بن گیا تو میڈیا اور پارلیمنٹ نے یک زبان ہو کر فوج پر
حملہ کر دیا۔ کتاشہید اور ملک کا محافظ مردہ ٹھہرا ۔ ملالہ پاکستان کی بیٹی
بنی اور اہل مغر ب نے بیٹی کی تعلیم وتربیت کا بیڑا اُٹھا لیا ۔ ہمارے
دانشوروں کی دانشورانہ غفلت حکمت اور زنگ آلود ذہانت کو سات سلام۔۔۔ جس قوم
کا اثاثہ ایسے صحافی اور صافی ہونگے اُس قوم کا صفایا نہ ہونا بھی ایک
معجزہ ہے۔ دانشوروں سے گزارش ہے کہ وہ لارنس آف عربیہ( پیر کرم شاہ) اور
دیگر کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں کہ کسطرح اہل مغرب نے اپنے ایجنٹوں کی
تربیت کی اور انہیں استعمال کر کے عظیم اسلامی خلافت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے
اور کسطرح افغانستان کو ترقی ، خوشحالی اور تعلیم کے حق سے ہمیشہ کے لیے
محروم کر کے اُسے ملاؤں ، قبائلی سرداروں اور غیر ملی وظیفہ خواروں کی جنت
بنا دیا۔
صلاحیتوں سے محروم ، عقل کے اندھوں اور غیر ملکی ٹکڑوں پرپلنے والوں سے
گزارش ہے کہ میاں ضیا الدین کی خاندانی تاریخ اور سرحدی گاندھی کے اس سچے
پیروکار کی طالب علمی کے دور سے سوات آپریشن تک کے حالات اور تقریروں کا
بھی مطالعہ کریں تاکہ اُن کے بنددماغوں کی کھڑکیاں کھل جائیں۔ ہوسکتا ہے کہ
کسی ایک اندھیرے ذہن میں روشنی کی کرن چلی جائے اور اُسے نوبل انعام کی
حقیقت نظر آجائے۔ مگر یہ سب مشکل ہے ، کیونکہ درمیان میں ڈالروں کی دیوار
ہے۔ پاکستان ، قائداعظم اور اسلام کو گالیا ں دینے والے عوامی نیشنل پارٹی
کے جانباز کی تقریروں کے مطالعے سے پتہ چل جائے گا کہ جو درخت باچہ خان کے
پیرو کاروں نے ولی باغ میں لگایا تھا وہ کن مراحل سے گزر کر اور کس کے کنوے
کے پانی سے سیراب ہو کر آج پھل دے رہا ہے۔ ملالہ کا چناؤ کیسے اور کس کے
اشارے پر ہوا اور ایک منظم مہم چلا کر سرحد گاندھی کی بیٹی اور بھارتی
گاندھی کے بیٹے کو امن کا مشترکہ نوبل انعام دیا گیا۔
اب ذرا آٹھ سالہ ملالہ کی تصنیف گل مکئی کی طر ف آئیے جو بی بی سی پرنشر
ہوئی ۔ گل مکئی کیا ہے؟ میں نے پشاور یونیورسٹی کے بہت سے پروفیسروں ،
پختوں قلمکاروں اور دیگر شعبہ جات کے اُستادوں سے پوچھا تو کسی کو بھی گل
مکئی کا علم نہ تھا۔ کسی نے کہا کہ کوئی فرضی قصہ ، کہانی یا داستان ہے۔
کسی نے بتایا کہ شاہد مکئی کا پھول ہے مگر مکئی کی تو دُم ہوتی ہے پھول
نہیں تو پھر گل مکئی کیا چیز ہے؟ کسی نے کہا شاید اس پر کوئی فلم بھی بنی
تھی؟ کس نے بنائی تھی اور کس نے دیکھی تھی؟ کوئی گواہ نہیں۔ شاہد کچھ
صحافیوں نے دیکھی ہو ؟مگر فواد چوہدری اور معید پیرزادہ نے تو بلکل نہیں
دیکھی ہوگی ۔ معید پیرزادہ جس میرپور کا رہنے والا ہے وہاں تو کوئی فصل ہی
نہیں ہوتی اور اس جگہ کا پرانا نام بلا گالہ تھا جہاں بلائیں رہتی تھیں
اورشاہد اب بھی ہوں ۔ویسے بھی میرپور اور دینہ باجر ے کے علاقے ہیں جہاں
صرف باجرہ پیدا ہوتا ہے اور دریا کے دونوں جانب بلائیں رہتی ہیں۔ سناہے کہ
کشمیری لیڈر چوہدری یوسف باغ شہر میں کسی جلسے کے چیف گیسٹ تھے۔ سٹیج پر
ایک کے بعد ایک سردار آرہا تھا اور تقریر جھاڑ رہا تھا۔ چوہدری صاحب نے
سپیکر آزاد کشمیر اسمبلی میجر ریٹائرڈ سردار ایوب سے پوچھا کیا یہاں کوئی
چوہدری نہیں رہتا ۔ میجر صاحب نے کہا جناب چوہدری اور باجرہ صرف میرپور میں
ہوتا ہے یہاں چاول اور سردار ہوتے ہیں۔
لگتا ہے کہ گل مکئی نیشنل عوامی پارٹی کی ہی داستان غم تھی اور فلم ضرور
بلوروں نے بنوائی ہوگی اور رات کے اندھیرے میں صابرینہ سینما پر چلی ہوگی ۔
چلومان لیتے ہیں کہ گل مکئی کوئی عشق و محبت کی فرضی داستان تھی تو اسکا
انسانی حقوق یا عورتوں کی تعلیم سے کیا تعلق تھا؟ کیا یہ کنشک دور کا قصہ
تھا یا بدھ کے زمانے کی داستان تھی،اگر کسی کو پتہ نہیں تو آٹھ سالہ ملالہ
کو کہاں سے پتہ چلا اور اُس نے اس پر ایک کتاب بھی لکھ ڈالی جو اُسکے والد
کی وساطت سے بی بی سی نے پر نشر ہوئی ۔یہ کیسا اتفاق اور کیسی واردات ہے؟
بی بی سی اور ایک چھوٹے سے گھر میں پرائیوٹ سکول چلانے والے میاں ضیا الدین
کا کیا رشتہ تھا۔ کیا میاں ضیاء الدین بی بی سی کا نمائندہ تھا۔ رحیم اﷲ
یوسفزئی یا مظہر عباس کو پتہ ہو گا ۔ رشتے اور تعلق کے بغیر تو بی بی سی
والے کسی کی ڈاک ہی وصول نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی مضمون یا خبرشائع کرتے
ہیں۔کیا میاں ضیاء الدین نے گل مکئی بی بی سی کے نمائندے کے ذریعے بھجوائی؟
ایسا بھی کوئی ثبوت نہیں تو بھائی اٹھارہ کروڑ بدھوؤں کو مزید بدھو نہ بناؤ
ان پر کچھ رحم کرو۔
بی بی سی تو دور کی بات ہے۔ جنگ ، نوائے وقت ، مشرق اور صدائے چنار بھی گم
نام خط نہیں چھاپتے ۔ ملالہ جب حامد میر کے پاس آئی تھی تواُسکے ساتھ دو
تین اور بھی لڑکیاں تھیں اور سب نے کہا تھا کہ ہمارا سکول بند ہو گیا ہے
ہمارا سکول کھولو ۔ باقی لڑکیاں کہاں گئیں ۔ کیا اُنکا سکول کھل گیا تھا
اور اُنکے گھروں میں امن آگیا تھا کون جانے اور کیوں جانے ہر کسی کو اپنی
اپنی مرضی و منشا اور ملالہ ہے۔ میری بھی ایک ملالہ ہے جسے کسی ایوارڈ کی
ضروری نہیں۔میری ملالہ کی کہانی آگے آئے گی۔
ملالہ کی کہانی میاں ضیا الدین ، عوامی نیشنل پارٹی اور گاندھی ازم کی
مشترکہ کاوش ہے جسے پروان چڑھانے میں ملکی میڈیاگروپ ، مغربی میڈیا اور
پاکستان مخالف تحریک کا اہم رول ہے۔ کون نہیں جانتا کہ طالبان نے کس کے
اشارے پر سوات پر حملہ کیا اور کون کون سے ممالک اور خفیہ ادارے طالبان کے
معاون و مدد گار تھے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جن قوتوں نے طالبان کو شہہ
دی اُن ہی قوتوں نے ہی ملالہ کا کراد بھی متعارف کروایا۔
اثر چوہان لکھتے ہیں کہ سترہ سالہ پاکستانی ملالہ اور ساٹھ سالہ بھارتی
کیلاش سیتار تھی کو امن کا مشترکہ انعام ملا ۔ ملالہ نے فروغ تعلیم کے لیے
کام کیا اور ستیار تھی نے آزادی کے سرخیل گاندھی جی کے نقش قدم پر چلتے
ہوئے امن کے لیے جدو جہد کی۔ پھر فرماتے ہیں کہ ملالہ کو ملنے والا نوبل
امن انعام اسلام کی فتح اور قائداعظم کے مشن کی کامیابی ہے۔ موصوف بھول کہ
حامد میرکے پروگرام میں ملالہ کہہ چکی ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ نہیں بلکہ
اُسکا باپ اور بینظیر بھٹو اُسکی آئیڈیل ہیں ۔اسی پروگرام میں دوسرے بچوں
نے حضور ﷺ کو اپنا آئیڈیل قرار دیا تھا۔ اسی سالہ اثر چوہدری آجکل امریکہ
میں ہیں جہاں ڈالروں کی بارش ہوتی ہے۔ ظاہرہے کہ ملالہ کی تربیت جس ماحول
میں ہوئی وہاں اسلام، پیغمبر اسلام ، قائداعظم اور پاکستان کا کبھی ذکر
نہیں ہوا ۔ ملالہ کا کردار بدھوؤں کے کھیت میں ایک نیا بیج ہے جسکا پھل اہل
مغرب کھائیں گے اور کاٹنے بدھوؤں کے حلق میں اتر ینگے ۔ ملالہ کی وجہ سے
پاکستان اور دنیا میں کونسا امن آیا اور کتنے لوگوں تعلیم یافتہ ہوئے۔
اُسکا جواب فرزانہ باری اور دیگر نام نہاد صحافی اپنی اپنی باری پر دے سکتے
ہیں۔ اگر اس انعام کی کوئی حقیقت ہوتی تو یہ اُن سب بچیوں کے نام ہوتا جو
ملالہ کے ساتھ زخمی ہوئیں۔
عجیب قصہ ہے کہ ہمارے منافق میڈیا کو کالام کی رہائشی ملالہ کی کبھی خبر نہ
ہوئی جس نے تن تنہا اپنے گھر کی اور محلے کی خواتین کی حفاظت کی جوطالبان
کے خوف سے اُسکے گھر میں پنا گزین تھیں۔ ملالہ نے طالبان لشکر پر موثر فائر
گرایا اور پانچ حملہ آوروں کو بقول مولانا فضل الرحمن اور ڈاکٹر منور حسین
کے شہید کر دیا ۔ مولانا فضل الرحمن ان صحافیوں کے دوست ہیں اور اُن کے
اقوال کے ترجمان بھی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کالام کی فائیٹر ملالہ کا کبھی ذکر
نہیں ہواور نہ ہی جمہوریت پسند جنرل کیانی نے اُسے کوئی میڈل دینے کااعلان
کیا ۔ ماوند کی ملالہ بھی کسی کو یا د نہیں چونکہ اُسکا تعلق کسی سیاسی
جماعت کے پاکستان مخالف دھڑے سے نہ تھا ۔ ماوند کی ملالہ کا باپ بھی کسی
گاندھی گیری کاپر چار اور وطن مخالف لیڈر نہ رہا تھا۔ ماوند کی ملالہ نے
اپنے چھوٹے سے گاؤں پرطالبان کے دس حملے پسپا کیے اور اپنے گھر کی چھت پر
مورچہ بنا کر بیٹھ گئی۔ کیا گاؤں کی بیٹیوں اور ماؤں کی عزت بچانے والی
ملالہ سے سلیم صافی اور رحیم اﷲ یوسفزئی واقف نہیں؟ ماندو کی ملالہ پر بھی
الزام لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے طالبان کے خلاف بندوق کیوں اُٹھائی ۔
آئیے اب ملالاؤں کے پورے گروپ سے ملتے ہیں۔ اس گروپ کا نام تھا ’’داخوانداؤ
ٹو لو نہ‘‘ یعنی بہنوں کی مجلس ۔اس گروپ میں سوات کی بہادر بیٹیوں نے اپنے
حقوق کی آواز اُٹھائی اور عورتوں کی آزادی ، عزت ، تعلیم اور صحت کے لیے
مشترکہ جدوجہد کا آغاز کیا۔ بہنوں کی اس مجلس نے بہت قربانیاں دیں اور
تکلیفیں اُٹھائیں ۔ سکولوں سے نکالے گئے بچوں کو اپنے گھروں میں تعلیم دی
اور اُن کی حفاظت کاذمہ لیا۔ بہنوں کی اس مجلس نے اعلان کیا کہ اگر سکول
تباہ ہوتے ہیں تو ہونے دو ہمارے گھر تمھارا سکول ہیں ۔کیا ملالہ کے باپ
میاں ضیا ء الدین نے بھی اپنے چھوٹے سے پرائیوٹ سکول میں کسی کو مفت تعلیم
دی یا پھر بیٹی کے نام پر گل مکئی ہی لکھتا اور کیش کراتارہا۔
کسی صحافی ، کالم نگار اور اینکر کو بہنوں کی مجلس یاد نہیں ؟ یاد کیسے
ہویہ کوئی مغرب زدہ این جی او تو تھی نہیں اور نہ ہی انہیں کسی سیاسی جماعت
یا مفاد پرست ٹولے کی حمائت حاصل تھی۔ جولوگ ملک قوم اور عزت کے لیے میدان
میں اترتے ہیں وہ ہمیشہ بے نام ہی رہتے ہیں۔
’’میرے محبوب کے خون کا وہ قطرہ جو وطن کی حفاظت میں دھرتی کے سینے پر گر
امیں اُس خون کے قطرے سے اپنی مانگ سجاؤنگی ۔ یقیناً اس قطرے کی سرخی اور
خوشبو میرے حسن کو چار چاند لگا دے گی۔ شہید کے خون کے اس متبرک قطرے سے
میرا چہر کھل اُٹھے گا اور باغوں میں مہکتے گلا ب شرما جائینگے ۔ میرے
محبوب کے خون کا یہ قطرۃ پختونوں کے خون کو گرمائے گا اور وہ وطن کی آزادی
اور عظمت کے لیے کٹ مرینگے ‘‘۔
’’میں نے اپنی ماں اور باپ سے شاہ بھوری اور بی بی عالیہ کی کہانیاں سنی
ہیں ۔ میرے محبوب تیرے خون کے قطرے کی قسم ہم غیور پٹھان کبھی عزت اور
آزادی پر حرف نہ آنے دینگے ۔ زابل کے قلعے کے پتھر گواہ ہیں کہ پختونوں کی
بیٹی نازونہ اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ لڑتی ہوئی وطن کی عزت پر قربان
ہوگئی۔ جب تک غیر مند پختون مائیں زندہ ہیں شہیدوں اور غازیوں کی نسل ختم
نہ ہوگی۔‘‘یہ اشعار ملالہ انا نے شہادت سے پہلے اپنے شہید منگیتر کی شان
میں کہے۔
ملالہ نے اپنے باپ اور منگیتر کے ہمراہ ماوند کی جنگ میں حصہ لیا اور
بہادری کے وہ جوہر دکھائے جو کوئی مرد بھی نہ دکھا سکا ۔ ملالہ کا منگیتر
شہد ہوا تو ملالہ نے آگے بڑھ کر جھنڈا پکڑ لیا ۔کچھ دیر ملالہ نے ایک ہاتھ
میں جھنڈ ا اور دوسرے ہاتھ میں بندوق تھامے رکھی مگر گولیوں کی ایک باڑنے
ملالہ کو اُسکے باپ اور منگیتر کی راہ دکھائی ۔
افغان اور پاکستانی قبائل اس شہید ملالہ کو ملا لہ انا کے نام سے یاد کرتے
ہیں ۔ ملالہ انا یعنی افغانوں کی دادی ۔ ملالہ انا، ملالہ کا کڑ، بی بی
عالیہ ، شاہ بھوری ، ملالہ گل اور سوات کی بیٹوں کی تنظیم بہنوں کی مجلس،
ملالہ ناہید ، ملالہ کائنات ، شازیہ یوسفزائی سمیت کتنے نام ہیں جنہیں کسی
ایوارڈ انعام اور جعلی نام کی ضرورت نہیں۔
افغانوں اور پٹھانوں کی یہ بہادر بٹیاں ہم سب کی بیٹیاں ہیں جنہیں کسی فرضی
مفاد پرست صحافی یا سیاستدان کی ڈالروں بھر ی تشہیراور تحسین کی بھی ضرورت
نہیں ۔یہ سب غریبوں کی ملالائیں ہیں۔ یہ اینکروں ، این جی او اور اہل مغرب
کی پسندیدہ اور پروردہ نہیں ۔
میاں ضیا ء الدین اور عوامی نیشنل پارٹی کی ملالہ کا نوبل انعام پاکستانی
میڈیا، سول سوسائٹی ، اور نریندر مودی اور میاں نواز شریف کو مبارک ہو ۔ یہ
آپکی ملالہ ہے جس نے ایک بھارتی کیساتھ ایوارڈ شیئر کیا ہے۔ ہم ملالہ انا ،
ملالہ کاکڑ ، ملالہ کائنات کو سلا م پیش کرتے ہیں۔ تمھاری ملالہ تمہیں
مبارک چونکہ ہر کسی کی اپنی اپنی ضرورت اور ملالہ ہے۔ کوئی تشہیر اور ایورڈ
والی اور کوئی غیر ت ایمانی اور جرات و کردار والی ۔ |