تحریر: صلاح الدین اولکھ
1992ء میں سٹاک ہوم میں ہونے والی انٹرنیشنل واٹر کانفرنس میں معروف مغربی
دانشور لیسٹر آر براؤن نے کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں آئندہ جنگیں تیل کے
بجائے پانی پر ہوں گی لیکن کسے خبر تھی کہ برصغیر میں آبی جارحیت اور
ہمسایہ ممالک کے ساتھ آبی تنازعات بھارت کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لے آئیں
گے۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف کئی سطح پر محاذ کھول رکھے ہیں۔ وہ 1947ء سے
مسلم اکثریتی علاقوں جن کا فطری قانونی و آئینی طور پر پاکستان کے ساتھ
الحاق ہونا تھا پر قابض ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اس نے 8 لاکھ فوج بٹھا رکھی
ہے۔ افغانستان میں پاک افغان بارڈر کے ساتھ ملحقہ علاقوں میں اس کے قونصل
خانے بلوچستان میں بدامنی اور خیبرپختونخوا میں قتل و غارت کے لئے فنڈنگ کر
رہے ہیں۔ 20 دسمبر 2014ء کو بھارتی فوج کے پالیسی ساز ادارے انڈین ڈیفنس
ریویو میں بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی بھارتی جنگی حکمت عملی
شائع کی گئی ہے۔ بھارتی دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر امرجیت سنگھ نے اپنے مضمون
How to make proxy war succeed in Balochistan میں موجودہ بھارتی حکمت عملی
کا 1971ء میں مشرقی پاکستان میں دراندازی سے موازنہ کیا ہے۔ کراچی میں
بدامنی پھیلائی جا رہی ہے۔ افواج پاکستان بھارتی ایجنٹوں کے خلاف آپریشن
ضرب عضب میں مصروف ہیں اور جوں جوں اس آپریشن کا دائرہ کار پھیل رہا ہے اور
پاک فوج کو کامیابیاں مل رہی ہیں۔ دہشت گردوں کے منصوبے اور ماسٹر مائنڈ
بھی بے نقاب ہوتے جا رہے ہیں۔ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان میں
جاری بدامنی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے اور وہ پاکستان کو ہر صورت توڑنا
چاہتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ پاک فوج کو اندرونی طور پر اپنے ایجنٹوں کے
ذریعے سے اس قدر مصروف رکھا جائے کہ کسی بھی بیرونی سرحدی جارحیت پر وہ
مناسب جواب نہ دے پائے اور پاکستان بھارتی دباؤ قبول کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر
سے دستبردار ہو جائے۔
قارئین ! سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے
جو میدان چنا ہے اس پر بہت کم لوگوں کی نظر ہے۔ بھارت کا سب سے بڑا ہدف
سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے دریاؤں پر قبضہ کرنا ہے جس کے لئے وہ
امریکہ و نیٹو ممالک کی آشیر باد سے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریاؤں پر
ڈیم پر ڈیم بنائے جا رہا ہے۔ ان ڈیموں کی تعمیر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے
کہ بھارت پاکستانی دریاؤں کا پانی روک کر ان میں ذخیرہ کرتا ہے اور جب
پاکستان کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو پانی روک لیتا ہے جبکہ بارشوں کے موسم
میں پانی چھوڑ کر پاکستان کو ڈبو دیتا ہے اور بھارت یہ عمل گزشتہ کئی برس
سے مسلسل کر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت سرکاری سطح پر اس بات سے
انکاری ہے کہ وہ دریاؤں میں سیلاب کے لئے پانی چھوڑتا ہے لیکن اب عالمی
معاملات پر نظر رکھنے والے متعدد تھنک ٹینکس جو ایٹمی سیاست یا ممکنہ ایٹمی
جنگوں کے امکانات پر ریسرچ کر رہے ہیں انہوں نے بھی پاک بھارت آبی تنازعات
کو ممکنہ ایٹمی جنگ کی وجہ قرار دے دیا ہے۔ 8 دسمبر 2010ء کو انڈین ڈیفنس
ریویو میں بھارتی فوج کے کرنل اجے سنگھ نے اپنے مضمون The Deluge: will
Pakistan submerge or survive عظیم سیلاب کیا پاکستان ڈوب یا بچ جائے گا۔
میں بھارتی آبی جارحیت کے منصوبے کے خدوخال واضح کر دیئے ہیں۔ واضح رہے کہ
2010ء کے سیلاب کے بعد اقوام متحدہ کے مبصرین کے مطابق صرف اس ایک سیلاب سے
پاکستان کا معاشی نقصان 2005ء کے زلزلہ کشمیر، ایشیا میں سری لنکا،
انڈونیشیا اور دیگر ملکوں میں آنے والے سونامی طوفان اور ہیٹی کے زلزلے کے
مجموعی نقصانات سے بھی زیادہ ہے۔ ورلڈ بنک نے پاکستان کو پہنچنے والے معاشی
نقصان کا تخمینہ محتاط سطح پر 10 ارب ڈالر لگایا ہے۔ اس سیلاب میں 2 کروڑ
افراد متاثر ہوئے 5 لاکھ بے گھر ہو گئے جبکہ 14 لاکھ ایکڑ رقبے پر کھڑی
فصلیں تباہ ہو گئیں جبکہ پاکستان کے کل رقبہ کا پانچواں حصہ یعنی برطانیہ
کے کل رقبے کے برابر پاکستانی زمین زیر آب آ گئی اور پاکستان کا سالانہ
ترقی کا مطلوبہ ہدف 4.5 سے کم ہو کر 2.75 تک گر گیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس
بھارت کی جانب سے دریائے چناب میں چھوڑے گئے پانی سے آنے والے سیلاب میں تو
نقصان کا محتاط تخمینہ 15 ارب ڈالر لگایا گیا ہے جبکہ اس میں 289 جانیں
ضائع ہوئیں۔ 44597 گھر تباہ ہوئے۔ 1544653 ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ
ہوئیں جبکہ 3116 دیہات بری طرح متاثر ہوئے۔ بھارت کی جانب سے 5 اور 7 ستمبر
کے درمیان دریائے چناب میں 8 لاکھ 64 ہزار کیوسک کا ریلا چھوڑا گیا۔
ہیڈمرالہ کے مقام سے سیلابی پانی کا اتنا بڑا ریلا اس سے پہلے صرف 1929 میں
گزرا تھا۔ پاکستان کی 67 سالہ تاریخ میں 22 قابل ذکر اور بڑے سیلاب آئے ہیں
جن میں سے آخری 17 سیلاب واضح طور پر کسی نہ کسی طرح بھارتی آبی جارحیت تھے۔
پاکستان میں پہلا سیلاب 1950 آیا تھا اور آخری ستمبر 2014ء میں آیا تھا
جبکہ 2012-13 میں بھی بھارت کی جانب سے دریائے چناب میں پانی چھوڑے جانے سے
وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔ یوں بھارت اب سالانہ پاکستان پر آبی جنگ
مسلط کر کے معیشت کو مکمل تباہ کرنے کے درپے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا
ہے کہ آخر اس صورتحال سے نکلنے کی صورت کیا ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ
ارباب اختیار بھارت کے ساتھ آبی تنازعات پر جرأت مندانہ موقف اختیار کریں
اور مصلحت کو شی کے بجائے قومی سطح پر بھارتی آبی جارحیت کے مضمرات سے آگاہ
کرنے کے لئے کھلی وضاحت دی جائے کہ یہ سیلاب آتے نہیں بھارت کی جانب سے
مسلط کئے جاتے ہیں۔ قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کر کے پانی کو ذخیرہ کرنے
کے لئے نئے ڈیم بنائے جائیں، کیونکہ پاکستان میں سالانہ بارشوں اور دریاؤں
کے پانی کا بہاؤ 150 سے 165 ملین ایکڑ فٹ ہے جبکہ ہمارے پاس پانی کو ذخیرہ
کرنے کی صلاحیت صرف 11.55 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ یوں ہم فقط 30 دن تک کے پانی کو
ذخیرہ کر سکتے ہیں جبکہ بھارت 120 دنوں تک پانی کو ذخیرہ کر سکتا ہے۔
پاکستان اپنے دستیاب آبی وسائل کا صرف 7 فیصد پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کا
حامل ہے جبکہ عالمی سطح پر یہ تناسب 40 فیصد ہے۔ اس لئے پاکستان میں فی فرد
پانی کی دستیابی پوری دنیا میں سب سے کم یعنی 73 کیوبک میٹر ہے جبکہ امریکہ
میں ایک فرد کو سالانہ 6150 کیوبک میٹر پانی دستیاب ہے۔ یوں پاکستان صرف
اپنے دستیاب پانی کو ذخیرہ نہ کر کے سالانہ 30 سے 35 ارب ڈالر کا نقصان
اٹھا رہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ تین ڈیموں کالا باغ، بھاشا اور اکھوڑی ڈیم
پر لاگت کا تخمینہ فقط 25 ارب ڈالر ہے۔ یوں اس صورتحال کے نتیجہ میں
پاکستان بجلی کے بدترین بحران میں مبتلا ہو چکا ہے۔ جس سے نکلنے کی صورت
کسی طور نظر نہیں آتی۔ ذرا اندازہ کیجئے کہ جس ملک میں بیرونی قرضوں پر سود
کی ادائیگیاں اور بجلی کی نجی پیداواری کمپنیوں کے واجبات مجموعی ترقیاتی
بجٹ کے برابر ہو جائیں وہاں کیا ترقی ہو سکتی ہے اور اس ساری صورتحال کا
ذمہ دار بھارت ہے جو ہمارے دریاؤں کے پانیوں پر قابض ہو کر ہم کو ریگستان
بنانا چاہتا ہے جبکہ ہمارے حکمران اس سے دوستی کے لئے بچھے جاتے ہیں۔ |