مقتول کافر ،قاتل مومن

کوئی کچھ بھی کہے مگر اب وقت ہے سچ اور صرف سچ بولنے کا،کوئی بھی شخص جو ذرا سا بھی عقل و فہم رکھتا ہے اسے تمام مصلحتیں بالائے طاق رکھ کے اب سچ بولنا ہوگا اور ادھورا نہیں پورا سچ،اب دین و مذہب کے معاملات فقط درس و مولو ی پہ چھوڑنے سے ہر گز کام نہیں چلنے والا،گذشتہ روز جماعت اسلامی کے طرح دار لیڈر لیاقت بلوچ صاحب ایک نشست میں گفتگو فرما رہے تھے بات چلی مولویوں کی اصول پسندی اور ان کے کردار وعمل کی ،دھیمے اور دل موہ لینے والا اسلوب رکھنے والے لیاقت بلوچ نے کہا کہ پچھلی صدی کی بات ہے غالباًپندرہ بیس سال پہلے کہ ہم نے ملک میں فکری ہم آہنگی اور تفرقہ بندی سے بچنے کے لیے ملک بھر کے علماء کرام کو لاہور میں جمع کیا اس اجتماع میں ملک بھر سے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے شرکت کی،ہم نے دو دن اس مسئلے پر بحث کی اور اس کے حل کے لیے 22 نکات کا ایک ایجنڈا تیار کیا اور تمام علماء کے سامنے رکھا کہ اس پر اپنے اپنے دستخط کر دیں،اس دستاویز جسے ملک بھر کے علماء نے تیار کیا تھا پر کسی کو اعتراض نہ تھا سوائے دو جماعتوں کے اور وہ دو جماعتیں کون سی تھیں ایک کا نام سپاہ صحابہؓ تھا جبکہ اعتراض کرنے والی دوسری جماعت کا نام تھا سپا ہ محمدﷺ ،ہم نے دونوں جماعتوں کے قائدین جن میں سپاہ صحابہؓ کے قائد ضیاء القاسمی اور سپاہ محمدﷺ کے قائد علامہ یزدانی(خدا ان دونوں کو غریق رحمت کرے کہ اب دونوں اس دنیا میں نہیں)کی منتیں کیں ترلے کیے کہ خدارا اس پہ دستخط کر دیں تاکہ قوم امن اور سکون کا سانس لے سکے،لیاقت بلوچ کہتے ہیں کافی لے دے کے بعد مولانا ضیاالقاسمی نے دستخط کردیے مگر سپاہ محمد ﷺکے قائد علامہ یزدانی نے انکار کر دیا کہ یہ معاہدہ ہمیں قابل قبول نہیں اور اس کی بعض شقوں پر ہمیں اعتراض ہے،تمام لوگوں نے علامہ صاحب کی منت کی وہ تیار ہوئے پھر رک گئے اور کہا کہ میر ے نوجوان بہت جذباتی ہیں وہ اسے قبول نہ کریں گے تمام علماء کرام نے زور دیا تو علامہ صاحب نے کہا کہ اچھا ہمیں تھوڑا وقت دو تاکہ ہم اس پر غور کر لیں اورمعترض نوجوانوں کی رائے بھی لے لیں،لیاقت بلوچ کہتے ہیں کہ ان کی یہ بات سن کر سب علماء خاموش ہو گئے کہ بات جائز تھی معاًمولانا ضیا ء ا لقاسمی نے علامہ یزدانی کا ہاتھ پکڑا اور بولے،چھڈ یا ریزدانی اسی آپے ہی تے تقریراں کر کر کے جاتکاں نوں جذباتی کیتا آپے ہی دوبارہ دو چار تقریراں کر کے انہاں نوں ٹھنڈا کر لاں گے (چھوڑو یار یزدانی ہم نے خود ہی لڑکوں کو تقریریں سنا سنا کر جذباتی کیا ہے خود ہی انہیں دوبارہ ا ایک دو تقاریر سنا کہ ٹھنڈا کر لیں گے)سنتے ہی محفل کشت زعفران بنی اور علامہ یزدانی صاحب نے اس دستاویز ہر دستخط کر دیئے،یہ ایک واقعہ ہے جس کا ذکر ضمناً یہاں آ گیا مقصد صرف یہ عرض کرنا تھا کہ اگر اب ہمیں اس ملک میں امن و سکون چاہیے تو ہمیں ڈنگ ٹپاؤ اور وقتی فارمولوں کو چھوڑ کے ایک موئثر سخت پائیدار اور دیر پا حکمت عملی بنانا اور اپنانا ہو گی، ہمیں میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو کی پالیسی کو خیر آباد کہنا ہو گا،اب غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا ہو گا چاہے وہ غلط ہمارے اپنے اندر ہو اورصحیح ہمارے مخالف،اب بچت صرف سچ اور برملا سچ سے ہو گی وگرنہ کٹتی پھٹتی لاشیں تو ہم اٹھاہی رہے ہیں یہ سلسلہ ہمار امقدر بن جائے گا آج ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے،خیبر سے کراچی تک ہمیں یکساں اس عفریت کا سامنا ہے کسی کو نہیں معلوم کہ وہ جن ٹانگوں سے چل کے گھر سے باہر جا رہا ہے انہیں پہ واپس آئے گا یا چارپائی پہ،حیرت کی بات یہ ہے کہ آج حکومت ،سیاسی جماعتیں فوج اور تمام سیکورٹی کے ادارے ایک پیج پر ہیں روز اعلانات ہوتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے یہ کمر توڑ قسم کا بیان سن کے جناب رحمٰن ملک صاحب بے ساختہ یاد آجاتے ہیں انہوں نے بھی بڑی دفعہ دہشت گردوں کی کمر توڑی مگر نجانے یہ کیسی کمرہ نما کمر ہے جو ٹوٹنے کی بجائے جب چاہتی ہے جہاں چاہتی ہے اپنا آپ دکھا دیتی ہے،ابھی بھی کمر توڑ قسم کے بیانات کا سلسلہ جاری و ساری ہے،وزیر اعظم روز کمر توڑنے کا اعلان کرتے ہیں اور دہشت گرد روز نت نئی واردات ڈال دیتے ہیں،سوال یہ ہے کہ یہ کون لوگ ہیں کہاں سے آتے ہیں ان کا نیٹ ورک کیسے کام کرتا ہے ان کے فیسیلٹیٹر کون ہیں ان کی معاونت کہاں سے ہوتی ہے،دوسرا اور انتہائی قابل غور پہلو کہ کسی بھی خود کش بمبار کی عمر بیس سال سے زیادہ کیوں نہیں ہوتی آج تک چالیس پچاس سال کی عمر کے کسی جنت کے طالب کو خود کش حملہ کرنے کی توفیق کیوں نہیں ہوئی،کیوں جنت کا حصول صرف طفلان مکتب تک محدود ہے، کون ان کے ننھے ذہنوں کی یوں واشنگ کر رہا ہے کہ یہ اپنی جان ایک منٹ میں دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں،پتہ نہیں یہ سطریں تحریر کرنے کے بعد میرا بھی انجام کیا ہو گا مگر میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اب ہمیں سچ بولنا ہو گا اور پورا سچ،ہمیں معاشرے کو اور اپنی نسلوں کو بتانا ہو گا کہ اسلام کیا ہے ؟ اسلام ہر گز کسی مدرسے یا مولوی کی وراثت نہیں ہے ،اس کا تعلق صریحاً علم سے ہے جو بھی علم حاصل کر ے گا عالم بنے گا اور علم وہ جس سے دین کے ساتھ دنیا کو بھی فائدہ پہنچے جس سے خدا کی مخلوق کی خدمت کی جاسکے،جو ہر خاص و عام اور مذہب و ملت کے لیے نفع بخش ہو ،اب ہمیں ان ننھے منھے ذہنوں کو بتانا ہو گا کہ اصل اسلام وہ ہے جو کسی کانقصان اور کسی کی جان تو کیا وضو کے لیے بھی فالتوپانی تک ضائع نہیں کرنے دیتا،اسلام کسی بے گناہ کی گردن مارنا تو دور کی بات دوران جنگ بھی انسان تو درکنا کسی جانور اور درخت کو بھی کاٹنے کی اجازت نہیں دیتا،اسلام اپنی فوج کوایسے مارچ کی بھی اجازت نہیں دیتا جس سے کسی کی کھڑی فصل تباہ ہونے کا اندیشہ ہو،اسلام امن ہے سلامتی ہے محبت ہے اور دنیا کا سب سے سہل سب سے آسان اور سب سے پیاراو پاکیزہ مذہب ہے،اب ہمیں کھل کے بولنا ہو گا کہ یہ لوگ جو مسجدوں امام بارگاہوں اور دوسری عبادت گاہوں میں گھس کر عام معصوم لوگوں کو خاک و خون میں نہلا دیتے ہیں ان کا نہ اسلام سے کوئی تعلق ہے نہ انسانیت سے،مرنے والے شہید جبکہ مارنے والے حرام موت مر رہے ہیں،جنت ان کو ملے گی جو بے گناہ مارے جائیں گے جبکہ بے گناہوں کا خون بہانے والوں کا ٹھکانہ ازلی ابدی جہنم ہے،خداکے گھرمیں کافر عبادت نہیں کر رہے ہوتے جنہیں اسلام اسلام کرتے نام نہاد مسلمان موت کی نیند سلا دیتے ہیں ،خود کش حملہ بذات خود انتہائی قبیح فعل ہے خود کشی کو اسلام نے حرام اور بزدلی قرار دیا اور ایسا کرنے والے کے لیے جنت نہیں بلکہ جہنم ہے جو دوسروں کو قتل کر کے ان کے لواحقین کے لیے دنیا جہنم بنا دے وہ جنت میں کیسے جاسکتا ہے،اب ریاست کو آگے بڑھنا ہو گا اور یہ تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لینے ہوں گے ام الخبائث لاؤڈ اسپیکر سے صرف اسی صورت میں جان چھوٹ سکتی ہے جب اس کے ناجائز استعمال کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا جائے اور استعمال کرنے والے کے ساتھ اس مسجد ومدرسہ کے مہتمم کے خلاف بھی بھرپور قانونی کاروائی کی جائے،ریاست ماں جیسی بے شک نہ بنے مگر سوتیلی ماں جتنی اپنی ذمہ داری تو نبھائے،ہر قسم کی وال چاکنگ ،اشتہار بازی ،مذہبی اسٹکرز و پوسٹرز،نیلے پیلے جھنڈوں پر مکمل پابندی لگائے،کم از کم ہر جامع مسجد میں اپنا تنخواہ دار اور سرکاری ملازم پڑھا لکھا خطیب تعینات کرے،جہاں کہیں بھی کسی بھی قسم کی مذہبی منافرت یا اس قسم کی حرکات وسکنات کا شائبہ بھی ہو وہاں ریاست کو اب اپنی پوری قوت سے بروئے کار آنا ہو گا،بہت ہو گیا اب ہمیں پیچھے کی بجائے آگے دیکھنا ہو گا دنیا کدھر جا رہی ہے اور ہم کدھر جا رہے ہیں،دنیا چاند سے نکل کے مریخ پہ پہنچ گئی ہم ابھی تک بسنت اور ویلنٹائن ڈے منانا ہے نہیں منانا کی فضول لایعنی اور بے مقصد بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں،مگر منافقت کی انتہا یہ کہ ہر کوئی دوسرے پر انگلی اٹھاتا ہے ہر کوئی دوسرے کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے کوئی اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیا ر نہیں ، کوئی اپنی صفوں میں صفائی کرنے کو تیار نہیں،فتوے اور نعرے ،کہیں بسوں میں شناختی کارڈ دیکھ کر گولی ماری جا رہی ہے،کہیں ہزارے ہزاروں کی تعداد میں مر رہے ہیں، کہیں معصوم اور ننھے منے طلبا کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے اور کہیں مسجدوں اور عبادتگاہوں میں خودکش بمبار بھیج کر ملک کو پاک صاف کیا جا رہاہے، اور ظلم تو یہ کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا جا رہا ہے نہیں نہیں یہ ہر گز اسلام نہیں بلکہ اسلام کا اس سے دور دور تک کا کو ئی واسطہ تعلق نہیں ، عمل اور ردعمل کا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا، اس عفریت سے نجات کا حل صرف ایک ہے او روہ ہے سچ اور صرف سچ ،غلط کو غلط کہنا ہو گا ورنہ داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں ،،،،،،،،،،اﷲ ہم سب پر رحم کرے