مودی سرکار کے اچھے اور برے دن

یہ حسن اتفاق ہے کہ ایک طرف بازارِ حسن میں جہاں مودی جی کے قیمتی لباس اور تحفہ تحائف کی بولی لگائی جارہی ہے۔ ان کا نام والا کوٹ سرِ عام بک رہا ہے۔دس لاکھ کے اس کوٹ کی سب سے پہلی بولی ۱۱ لاکھ لگی یعنی مودی جی کے اس کو زیب تن کرلینے سے اس کے بازار بھاؤ میں دس فیصد کا اچھال دیکھنے میں آیا گویا برطانیہ سے دہلی لانے کا خرچ اور درزی کی بخشیش بھی اس میں شامل ہوگئی لیکن پھر مودی بھکتوں کو جوش آیا اور ان لوگوں نے اسے ۵۱ لاکھ پر پہنچا دیا ۔گرانی کے اس دور میں سورت کے اندرجہاں یہ نیلامی ہورہی ایک معمولی چائے خانہ بھی ۵۰ لاکھ میں میسر نہیں آتا اس لئے مودی بھکت راجیش جونیجہ کی غیرت نےاسے للکارہ اوراس نے آگے بڑھ کر اس قیمت ایک کروڈ ۲۰لاکھ لگا دی۔ یہ سب تماشہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جبکہ بازارِ سیاست میں مودی جی کی مقبولیت کی شرح دن بدن گھٹتی جارہی ہے۔

سورت میں لگائی جانے والی اس نیلامی میں کوٹ کے علاوہ مودی جی کو ملنے والے دیگر تحائف بھی بک رہے ہیں لیکن کسی کو ان میں کوئی دلچسپی نہیں ہے یہاں تک کہ ہندوراشٹر نیپال کے سب سے مقدس مندر پشوپتی ناتھ کی مورت کو بھی کوئی ۵ ہزار سے زیادہ میں خریدنے کیلئے تیار نہیں ہے۔مشہور کھلاڑی بریٹ لی نے جو ٹی شرٹ مودی جی کو تحفہ میں دی تھی اس کو تو کوئی ۲۰۰۰ سے زیادہ نہیں دینا چاہتا۔ اس خبر کو پڑھ کر بریٹ لی اپنا سر پیٹ رہا ہوگا اور اپنے آپ کو کوس رہا ہوگا کہ یہ تحفہ دینے کی حماقت اس سے کیوں کر سرزد ہو گئی۔ مودی جی نے اس بازارو حرکت سے نادانستہ طور پر وزیر اعظم کے اہم عہدےاوران کوملنے والے تحفائف کی تضحیک ہے۔ مودی جی کو شاید نہیں معلوم کہ دستور ہند کے تحت کسی بھی وزیر کو غیر ملکی دورے پر ملنے والے۵ ہزار سے زیادہ قیمت کےتحفہ پر اس کی اجارہ داری نہیں ہوتی بلکہ سرکاری توشہ خانہ میں جمع کرانا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کوئی وزیر بشمول وزیر اعظم ان کو بیچنا تو درکنار استعمال تک نہیں کرسکتا لیکن سوئے اتفاق اس قانون شکنی کا ارتکاب ببانگ دہل ہورہا ہے۔ اب اگر وزیراعظم کا دفتر یہ صفائی پیش کردے کہ ان کی قیمت ۵ ہزار سے کم ہے تب بھی یہ تحفہ دینے والے نامور ہستیوں کی تو ہین ہے جنہوں نے ہماری قوم کے منتخب نمائندے کی خدمت میں (موکلف ہونے کے باوجود )اس قدر حقیر تحفٖہ پیش کیا۔

یہ کوٹ اگر اوبامہ کی جانب سے مودی کو تحفہ میں ملا ہوتا تو اس پرکوئی قانونی پیچیدگی پیدا نہیں ہوتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بابت کہا جارہا ہے کہ کسی ذاتی شناسا نے یہ تحفہ دیا ہے۔ کسی بھکت کے محبت بھرے تحفہ کو سرِ بازار نیلام کرنا اپنے آپ میں ایک معیوب بات ہے لیکن کسی وزیر کا اپنے کسی قریبی رشتے دارکے علاوہ کسی اور سے اس طرح کا قیمتی ہدیہ قبول کرنا بجائے خود دستور کی خلاف ورزی ہے۔ اس معاملے میں سب سے دلچسپ دعویٰ یہ ہے کہ نیلامی کے ذریعہ جمع کی جانے والی دولت سے گنگا کو صاف کیا جائیگا یعنی کنگا کنارے واقع مودی جی کے حلقہ ٔ انتخاب وارنسی میں یہ رقم خرچ ہوگی لیکن کہ کیا اس طرح کی کمائی سے گنگا پوتر ہو جائیگی ۔ کلیگ کی یہ مہان کرانتی ہے کہ جس گنگا میں ڈبکی لگا کولوگ اپنی آتما پوتر کرتے تھے اب اس کو غلط ذرائع سے دولت جمع کرکے پاک کیا جارہا ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو رام جی کی گنگا اس قدر میلی ہوجائیگی کہ اس میں زندوں کا اشنان تو کجا مردوں کا استھی کلش بھی نہیں بہایا جائیگا اور یہ عظیم کارنامہ پردھان رام بھکت شری نریندر دامودرمودی کے سر جائیگا۔

مودی جی کے کوٹ کی مانند ان کے اچھے دن بھی پھر ایک اخبارات کی زینت بن گئے ہیں ۔ اس پر ونجارہ اور انا ہزارے دونوں نے ایک ساتھ متضاد انداز میں اظہار خیال کیا۔عشرت جہاں ، سہراب الدین اور پرجا پتی قتل کے ملزم ڈی ایس پی ونجارہ نے نے کہا لوگ پوچھتے ہیں اچھے دن کب آئیں گے؟ میں تو کہتا ہوں میرے تو اچھے دن آچکے ہیں ۔ اس نے کہا کہ میں نے یہ قتل و غارتگری حکومت کے ایماء پر کی ہے اگر میں ایسا نہ کرتا تو گجرات دوسرا کشمیر بن جاتا اگر ونجارہ کی بات کو درست مان لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہےکیا بی جے پی کی ا پی ڈی پی کی مدد سے جموں کشمیر میں حکومت سازی کشمیر کو گجرات بنانے کی کوشش ہے۔ معروف سماجی کارکن انا ہزارے نے کہا مودی کسانوں اور غریبوں کی بجائے صنعت کاروں کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں۔ بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد صرف صنعت کاروں کیلئے اچھے دن آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کی حالیہ حکمت عملی سے ہندوستان کا مستقبل درخشاں نہیں ہوسکتا۔ اناجی پھربار دہلی میں ۲۳ اور ۲۴ فروری کو حصول اراضیات آرڈیننس کے خلاف احتجاجی دھرنا دینے والے ہیں ۔اناجی کے دعویٰ کا زندہ ثبوت مہاراشٹر ہے جہاں اچھے دنوں کے منتظرکسان بی جے پی کی نئی حکومت کے بعد مایوس کرپھر سے خودکشی کرنے لگے ہیں گزشتہ ۳۵ دنوں کے اندر وزیراعلیٰ کے علاقہ ودربھ میں ۹۰ سے زیادہ کسانوں خودکشی کی ہے۔

عوام کو یقین ہو چلا ہے کہ اس بی جے پی سر کار کے چلتے کم از کم ان کے ان اچھے دن تو آنے سے رہے لیکن ان کے برے دن ضرور آگئے ہیں ۔ اس کی ایک مثال تیستا ستیلواد کو گرفتارکرنے کی پیہم کو شش ہے۔ عدالت کی جانب سےایک طرف قاتل سیاستدانوں کو کلین چٹ دی جارہی اور مجرم قراردی جانے والی مایا کوندنانی کی ضمانت پررہائی ہورہی ہے ۔ دوسری جانب ضمانت پر رہا ہونے والے پولس افسران کودھڑلےّ کے ساتھ گجرات کے اندر اہم عہدوں فائز کیا جارہا ہے ۔ ایسے میں تیستا کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ انہوں نے گجرات کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں آواز اٹھائی اور اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر ان کی پیروی کی ۔ اس طرح گویا جہاں ظالموں کے اچھے دن آگئے وہیں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے برے دن بھی آرہے ہیں ۔ تیستا کی بابت گاندھی کے پڑپوتے تشار گاندھی نے کہا گجرات فساد متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے سالوں سے جدوجہد کر رہی سماجی کارکن تیستا سیتلواڑ کے خلاف جان بوجھ کرسازش رچی جارہی ہے۔یہ انسانی حقوق کے لئے لڑ رہے سماجی کارکنوں کی آواز دبانے کی کوشش ہے۔میں نے کبھی تیستا اور جاوید کو مہنگے کپڑے پہنے نہیں دیکھا، مہنگے کپڑے کون پہنتا ہے یہ سب جانتے ہیں ۔

ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مودی جی کے گجرات میں وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے جو کام نہ کرسکے وہ ان کے ہٹ جانے کے بعد کیسے ممکن ہو گیا ؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ مودی جی جس وقت گجرات میں تھے ان کا دائرۂ اختیار محدود تھا ۔ گجرات کی عدالت پر بھی مرکزی حکومت کا کسی نہ کسی حد تک دباؤ ہوتا تھا۔ مرکز کی سرکاری ایجنسیاں جو یو پی اے سرکار کے تحت کام کرتی تھیں مودی کے عمل دخل سے پوری طرح آزاد تھیں ۔ ان ملزمین کے مقدمات کبھی ممبئی ہائی کورٹ میں منتقل ہوجاتے تھے تو کبھی سپریم کورٹ میں مظلومین کی دادرسی ہوجاتی تھی ۔ قومی افق پر این ڈی اے کا سورج طلوع ہوتے ہی ساری عدالتوں پر زعفرانی رنگ نمایاں ہو گیا۔ ہمارےیہاں ویسے بھی چڑھتے سورج کی پوجا کی جاتی ہے؟ سوریہ نمسکار دراصل محض ایک جسمانی ورزش کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ معصوم بچوں کویہ بات ذہن نشین کرائی جاتی ہے کہ وہ جس کسی کا سورج طلوع ہوتا ہوا دیکھیں اس کے آگے سجدہ ریز ہوجائیں ۔ راجستھاں کی ریاستی حکومت بالجبر اسکولوں میں اسے نافذ کرنے کی مذموم کوشش کررہی ہے اور مرکزی حکومت عدالتوں میں اس کے نفاذ کیلئے سر گرمِ عمل ہے۔

ان دنوں مظلومین کے ساتھ ساتھ ان پر ظلم وستم ڈھانے والوں کے ستارے بھی گردش میں نظر آرہے ہیں ۔ اس کا ایک واضح اشارہ تو دہلی کے انتخابات میں نظر آیا ۔ اس بابت ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کرن بیدی کو بلی کا بکرہ بنانے کیلئے لایا گیا تھا وہ تو رسی تڑا کر بھاگ کھڑی ہوئی لیکن ساکشی مہاراج نے آگے بڑھ کرشکست کی ذمہ داری قبول فرمالی ۔ ساکشی مہاراج کے اعتراف کو ان کی انکساری قرار دینے کے بجائے مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو نے توثیق کردی کہ یہ شکست کٹر ہندوتووادی بیانات کی بدولت ہوئی ہے۔ اس پر موہن بھاگوت بھی نیند سے بیدار ہوئے اور انہوں نے فرمایا ہندو خواتین بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں ہیں۔ یہ تمام لوگ بہت دیر سے جاگےجبکہ دہلی میں بھگوا سورج غروب ہو چکا تھا اگر پہلے بیدارہوئے ہوتے تو کم ازکم یہ بری گت نہیں بنتی۔

ہندوتوا پریوار کے یہ برے دن اندر اور باہر دونوں جانب سے آئے۔ دہلی کے اندر جو ہوا سو ہوا لیکن واشنگٹن کے اندر سے جو اشارےآئے اس نے مودی جی کی نیند اڑا دی اس لئے کہ اوبامہ کی تنقید سے گزشتہ سال رچائے گئے سارے کئے کرائے پر پانی پھررہا تھا ۔ اوبامہ کو یہ توقع تو ہر گز نہیں رہی ہوگی کہ ان کو دہلی آنے کی دعوت دینے کے بعد دہلی ہی کے اندر۵ عیسائی عبادتگاہوں پر حملہ کیاجائیگا۔ اوبامہ نے محسوس کیا کہ جاتے جاتے سنگھ پریوار کو جو بلاواسطہ نصیحت دی انہوں نے کی تھی وہ علامہ اقبال کے مصرع ’’مرد ناداں پر زبان نرم و نازک بے اثر ‘‘کی مصداق ہو گئی ہے ۔ اس لئے انہیں واپس جاکر کہنا پڑا کہ مذہبی نارواداری کے حوالے سے ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے دیکھ کر گاندھی جی بھی شرمسار ہوجاتے۔ اوبامہ کے اس بیان کو بنیاد بنا کرواشنگٹن پوسٹ اوردیگر امریکی اخبارات نے ہندوستانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مودی جی سے سوال کردیا کہ آخر وہ کب تک اس نازک مسئلہ پر چپیّ سادھے رہیں گے ؟ ان کی خاموشی کب ٹوٹے گی؟ اس دباؤ نے مودی جی کی زبان پر لگے قفل کو توڑ دیا جسے ہندوستانی پارلیمان نہیں کھول سکی تھی ۔

سادھوی نرنجن جیوتی پر ایوانِ پارلیمان میں ہنگامہ کے بعد مودی جی بڑی مشکل سے کہا تھا وہ بیچاری نئی ہے انہوں نے معافی مانگ لی ہے اس لئے درگذر کردیا جائے ۔ انہوں نے مذمت تو کجانفسِ مسئلہ پر اظہار خیال تک سے گریز کیا تھا ۔ ویسے مودی جی امریکہ بہادر کے سامنے بھی اپنا نئی دنیا والا بیان دوہرا سکتے تھے کہ اگر میں نے کوئی غلطی کی ہے تو مجھے پھانسی چڑھا دیجئے یا کم ازکم ٹائم میگزین کے اس مکالمہ کا حوالہ دے دیتے کہ اگر میری گاڑی کے نیچے کوئی کتے کا پلاّ آجائے تب بھی مجھے موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے لیکن انہیں پتہ تھا یہ سب اخبارات میں تو چلتا ہے لیکن امریکی انتظامیہ کے آگے نہیں ۔ امریکہ کے اندر ویسے بھی آر ایس ایس پر پابندی لگانے کے متعلق ایک مقدمہ زیر سماعت ہے اور اگر اس پر عدالت کا کوئی درست فیصلہ سامنے آجائے تو سنگھ پریوار کی خاکی نیکر ڈھیلی ہو جائیگی اور کالی ٹوپی ہوا میں اڑ جائیگی۔

امریکی خوشنودی کی خاطر مودی جی نے نئی دہلی میں عیسائیوں کی جانب سے منعقدہ کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ میں کسی بھی مذہب کے خلاف تشدد کی مذمت کرتا ہوں۔ میری حکومت کسی بھی اکثریتی یااقلیتی گروپ کودیگر لوگوں کے خلاف نفرت پر اکسانے کی اجازت نہیں دے گی۔ انہوں نے مزیدکہاہے کہ ملک میں ہرشخص کواپنی پسندکا مذہب اختیار کرنے اوراس پرعمل کی مکمل آزادی ہے۔ مودی جی کا بیان اس بچہ کی یاددلاتا ہے جسے کڑوی دوا پلانے کیلئے ماں کو اس کی ناک دبانی پڑتی ہے ۔ اگر مودی جی عقل سلیم کا استعمال کرتے ہوئے امریکہ کو اس کا موقع نہ دیتے تو وہ ملک و قوم کیلئے بہتر تھا ۔

گجرات کے جس شہر سورت میں مودی جی کے کوٹ کی نیلامی ہو رہی اس میں کوسٹ گارڈ کے نائب انسپکٹر جنرل بی کے لوشالی ایک حیرت انگیز بیان دے کر حکومت ہند کی نیند اڑا دی ۔لوشالی شمال مغربی خطے کے چیف آف سٹاف ہیں۔ انہوں نے سینہ پھلا کر فرمایا کہ ’مجھے امید ہے کہ آپ کو ۳۱ دسمبر کی رات یاد ہوگی۔میں وہاں موجود تھا، میں نے اس (پاکستانی)کشتی کو اڑنے کا حکم دیا تھا۔۔۔میں نے کہا کشتی کو اڑا دو، ہم انہیں بریانی نہیں کھلانا چاہتے‘۔ یہ بیان وزارتِ دفاع کے اس دعویٰ کے خلاف ہے کہ کہ کشتی پر دہشت گرد سوار تھے، اس میں دھماکہ خیز مواد لدا ہوا تھا اور اور جب کوسٹ گارڈ نے کشتی کو تلاشی کے لیے روکنے کی کوشش کی تو اس میں سوار افرد نے اس میں آگ لگا دی تھی۔ لوشالی کے بیان کے بعد وزیر دفاع موہن پریکر نے کہا کہ ’ہم اپنے موقف پر قائم ہیں، اگر کسی افسر نے کوئی غلط بیان دیا ہے تو انکوائری کے بعد اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔ یہ معاملہ یہیں ختم ہو جاتا ہے۔‘

وزیر دفاع کو یاد رکھنا چاہئے کہ معاملہ ختم نہیں بلکہ اب شروع ہوا ہے۔ جنوری کے اندر وہ جو ثبوت پیش کرنے والے تھے ساری دنیا ہنوز اس کا انتظار کررہی ہے۔ اب ازخود ایک ثبوت سامنے آ گیا تو وہ اس کی تردید فرما رہے ہیں ۔ ویسے لوشالی نے اپنا بیان بدل دیا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کی ویڈیو موجود ہے ۔ لوشالی کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سیاستداں تو غیر ذمہ دارانہ بیان دے کر بدل سکتے ہیں لیکن سرکاری افسران ایسا نہیں کرسکتے۔ اگر انہوں نے غلط بیانی کی ہے اس کی انہیں قرار واقعی سزا ملے گی اگر وہ درست نکلا تو اس سے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی قلعی کھل جائیگی اور پھر ایک بار سمجھوتہ ایکسپریس کا دھماکہ زیرِ بحث آجائیگا جس میں سنگھ پریوار کے لوگ ملوث ہیں ۔ لوشالی نے بہر حال مودی سرکار کی کالی رات میں ایک برے دن کا اضافہ ہی کیا ہے۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450429 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.