لسبیلہ کھوکھلے نعرے نہیں عمل چاہتا ہے
(Asim Kazim Roonjho, Lasbela)
آج وہ جنھوں نے ایک خواب دیکھا
ہے اس دھرتی اس سرزمین کی تعمیر وترقی کا خواب اس دھرتی کے پُرامن اور سادہ
لوح عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں ، استحصال سے نجات کا خواب ، ایک
مثبت اور تعمیری سوچ کے ساتھ شعوری تبدیلی کا خواب ، وہ سب آج غم سے نڈھال
اور اپنے تاریک مستقبل کے خُوف سے پریشان ہیں ۔اپنی دھرتی اپنی سرزمین سے
محبت کرنے والے اپنے عوام کا درد سمجھنے والے یہ جانتے ہیں کہ ہمارا لسبیلہ
اپنی اہمعیت وافادیت کے سبب سب کی نظروں کا محورومرکز بنا ہوا ہے ۔ دو پورٹ
گوادر اور کراچی کے درمیان واقع اپنے منفرد محل وقوع کےساتھ لسبیلہ ایک بڑی
انڈسٹریل، ایک وسیع رقبے پر مشتمل فشریز اور ایگریکلچر اسٹیٹ ہے جسکی وجہ
سے اہمعیت کی حامل ہے اور جو لوگ اسکے مستقبل کو جانتے ہیں اپنے علاقوں سے
نقل مکانی کرکے لسبیلہ میں سکونت اختیار کررہے ہیں ۔ اس ملک کے شہری کی
حیثیت سے ہر شہری کا حق ہے کہ وہ جہاں چاہے سکونت اختیار کرے کاروبار کرے
لیکن وہاں قدیم باشندوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں انکی پاسداری بھی ان کا
فرض بنتا ہے۔ لسبیلہ کے لوگ روایتی طور پر امن پسند اور عزت واحترام سے پیش
آنے والے ہیں انسان کی ایک فطرت ہے کہ جب اسکواسکی حیثیت سے زیادہ عزت
واحترام ملے تو وہ سب کچھ بول جاتا ہے اور اپنے آپ میں اتنامگن ہو جاتا ہے
کہ دوسروں کے حقوق کی پامالیوں پر اُتر آتا ہے اور دوسروں کو کمزوراور
مجبور تصور کرنے لگتا ہے ۔ ایسا ہی کچھ لسبیلہ کے قدیم باشندوں کے ساتھ ہوا
انھوں نے اپنی عظیم روایات کے تحت لسبیلہ میں سکونت اختیار کرنے والوں کو
اپنا بھائی سمجھا انھیں عزت احترام دیا اور انھوں نے ہمیں مجبور اور کمزور
سمجھ کر ہمارے حقوق کی پامالیاں شروع کردیں ۔ ہمارے محروم اور پسے ہوئے
طبقے کے لوگ تو پہلے ہی اپنے حقوق سے ہی لاعلم تھے وہ تو یہ بھی نہیں جانتے
تھے کہ سٹلمنٹ ہورہا ہے اپنی زمین کا انداراج اپنے نام کرالیں وہ تو والی
ریاست سے حاصل کرنے والے سپاتانے کے کاغذات اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھے
ہوئے تھے جس کے تحت وہ ان اراضیات کے مالک تھے وہ سٹلمنٹ سے لاعلم تھے اور
نہ ہی اسکی اہمعیت سے آگاہ تھے اس دوران انکی بہت ساری اراضیات جنگلات ،
صوبائی حکومت اور مختلف سرکاری محکموں کے نام اندراج ہوگئیں اور بہت سی
70اور80کی دہائی میں آباد کاروں نے اپنے نام کرالیں۔ جب انکی آنے والی
نسلوں نے اس کو جانا تو بہت دیر ہوچکی تھی اوراب وہ انصاف کے لیئے کورٹ
کچہریوں کے چکر لگا رہے ہیں جہاں انکی عمریں بیت جائیں گی۔آبادکار ان
اراضیات پر بڑی بڑی ہاوسنگ اسکیمات کے بورڈ آویزاں کرکے بڑی دیدہ دلیری کے
ساتھ وہاں مذید اپنے لوگوں کی آبادکاری کررہے ہیں۔ آج ہمارا کسان مایوس
ہوکر قلی بن گیا ہے لیکن جس طرح حالات جارہے ہیں کل کا پتا نہیں کل کیا
ہوگا کیونکہ ہر آنے والا دن تاریک سے تاریک تردکھائی دے رہا ہے۔ تاریکی
بڑھتی جارہی ہے ہمارے نوجوان کی مایوسی کا یہ عالم ہے کہ وہ تریاک اور شیشے
جیسے نشے سے اپنے اندروحشت کے بیج بُورہا ہے ، ہمارے پُرامن معاشرے میں
وحشت کے بیج سےکیا نتائج آئیں گے میرے خیال سے وہ آپ سب کے سامنے عیاں ہیں
اور اسکی نشانیاں بھی نظر آرہی ہیں۔ ہم اپنی سوچوں اور رویوں کی وجہ سے
پسماندگی کا شکار ہیں ہمیں اپنی سوچوں اور رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت
ہے جو آباد کار ہیں وہ ہمارے بھائی ہیں ان سے ہماری کوئی جنگ نہیں وہ بھی
اسی ملک کے شہری ہیں انکے حقوق کا تحفظ ہم پر فرض ہے لیکن بحیثیت قدیم
باشندوں کے اپنے حقوق کا تحفظ بھی ہم پرلازم اور وہ جو آبادکار ہیں انکا
فرض ہےکہ وہ ہمارے حقوق کا خیال رکھیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے حقوق اور فرائض
کو سمجھنا ہوگا۔ ہم تمام محروم اقوام جنکے حقوق کی پامالی ہورہی ہے انکے
ساتھ ہیں اور ان پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی ہمارے ساحل ہمارے وسائل اور
ہمارے تشخص کی بقاء کے لیئے ہمارا بھی ساتھ دیں ۔ اس وقت جو حالات ہیں ان
حالات میں ہمیں اپنے لس کے گھر گھر گاؤں گاؤں جاکر شعوری اور آگہی مہم
چلانے کی ضرورت ہے ہمیں ایک منظم انداز میں قدیم باشندوں کو متحرک کرنے کی
ضرورت ہے ہمیں کسانوں ماہی گیروں مزدوروں کو منظم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ
جب ایک عام آدمی اپنے حقوق کو سمجھے گا انکے تحفظ کے لیئے سوچے گا تو ہی ہم
تبدیلی اور بہتری کی طرف بڑھیں گے کیونکہ تبدیلی کھوکھلے نعروں سے نہیں عمل
سے آتی ہے اور لسبیلہ کھوکھلے نعرےنہیں عمل چاہتا ہے اس لیئے ضرورت اس امر
کی ہے کہ ہم تمام اختلافات کو بالا ئے طاق رکھتے ہوئے ایک مثبت اور تعمیری
سوچ کو پروان چڑھائیں محروم اور پسے ہوئے طبقات کو منطم ومتحرک کریں جس سے
ہمارے حقوق ہمارے تشخص کی بقاء ممکن ہو اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو کل تاریکی
میں ہمیں کچھ نظر نہیں آئے گا۔ |
|