بھارتی سازش بے نقاب....حکومت پاکستان کا ناکافی رد عمل
(عابد محمود عزام, karachi)
چار بے گناہ پاکستانی ماہی گیروں
کی کشتی کی تباہی کے حوالے سے بھارت کی جانب سے رچایا جانے والا ڈرامہ بے
نقاب کرنے والا بھارتی کوسٹ گارڈ بھارتی حکومت کے زیر عتاب ہے۔ اپنی منافقت
کا پردہ چاک ہونے اور جھوٹ کا بھانڈا پھوٹنے پر شرمندہ بھارتی حکومت سارا
غصہ اب بھارتی کوسٹ گارڈ پر نکالنا چاہتی ہے۔ بھارتی حکومت اپنی ساری خفت
مٹانے کے لیے حقائق منظر عام پر لانے والے اپنے افسر کو قربانی کا بکرا
بنانا چاہتی ہے۔ واضح رہے بھارتی وزارت دفاع نے الزام عاید کیا تھا کہ 31
دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی شب بحیرہ عرب میں پاکستانی ماہی گیروں کی
ایک کشتی نے بھارتی نیوی کی جانب سے پکڑے جانے کے خطرے کے پیش نظر خود کو
دھماکا خیز مواد سے اڑالیا، جس کے نتیجے میں پاکستانی کشتی میں موجود تمام
چار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ بھارتی وزارت دفاع نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ
اسے شبہ ہے کہ یہ کشتی کسی مشکوک سرگرمی میں ملوث تھی۔ تاہم انڈین میڈیا نے
اس معاملے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور پاکستان کے خلاف خوب پروپیگنڈا
کیا۔ بھارتی وزارت دفاع نے غلطی کا اعتراف کرنے کی بجائے پاکستان پر الزام
عائد کیا کہ کشتی میں سوار دہشت گرد دھماکا خیز مواد بھارت لاکر ممبئی طرز
کا حملہ کرنا چاہتے تھے، لیکن ایک گھنٹے تک سمندری حدود میں بھارتی کوسٹ
گارڈ نے کشتی کا پیچھا کیا تو دہشت گردوں نے کشتی کو دھماکے سے اڑا دیا اور
خود لاپتہ ہوگئے۔ بھارت کی جانب سے پاکستانی کشتی کو یوں تباہ کرنا بین
الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، اس واقعہ پر بھارت کے اندر سے ہی کئی قسم
کے سوالات اٹھائے گئے۔ بھارتی وزارت دفاع کی جانب سے گھڑی گئی اس کہانی پر
جب ملک کے اندر سے ہی سوالات اٹھائے گئے تو وزارت دفاع کو سبکی کا سامنا
کرنا پڑی اور بالآخر ڈی آئی جی کوسٹ گارڈ نے اعتراف کرلیا کہ پاکستانی ماہی
گیروں کی کشتی اس کے حکم پر ہی تباہ کی گئی ہے۔ بھارتی اخبار انڈین
ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ہندوستانی کوسٹ گارڈ کے ڈپٹی
ڈائریکٹر جنرل بی کے لوشالی نے اعتراف کیا ہے کہ بحیرہ عرب میں پاکستانی
کشتی ان کے حکم پر دھماکے سے اڑائی گئی تھی، جس کے بعد مذکورہ اخبار نے
اپنی ویب سائٹ پر بی کے لوشالی کی وہ ویڈیو بھی جاری کردی، جس میں انھیں
(جو شمال مغربی ریجن کے چیف آف اسٹاف بھی ہیں) یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ
کشتی کو اڑادو، ہم انھیں (پاکستانیوں کو) بریانی نہیں کھلانا چاہتے۔ کوسٹ
گارڈ اور دیگر افسران کے سامنے ایک بوٹ کی افتتاحی تقریب میں بی کے لوشالی
نے کہا: ”آپ کو 31 دسمبر کی وہ رات یاد ہے، جب ہم نے پاکستانی ماہی گیروں
کی کشتی کو دھماکے سے اڑایا تھا۔ میں اس وقت گاندھی نگر میں تھا اور میں نے
ہی یہ حکم دیا تھا کہ کشتی کو اڑا دو۔ ہم انھیں بریانی نہیں کھلانا چاہتے۔
لوشالی نے مزید کہا کہ ”مجھے لکھی ہوئی تقریر دی گئی تھی، لیکن میں اپنے دل
کی بات کہوں گا۔“
حقائق منظر عام پر آجانے سے بھارتی حکومت کی منافقت کھل کر سامنے آگئی اور
پاکستان کے خلاف بھارتی حکومت کا سارا پروپیگنڈا بے نقاب ہوگیا، لیکن بیان
دینے پروزیردفاع منوہر پاریکر نے ڈی آئی جی کوسٹ گارڈ لوشالی کے بیان کا
نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے کہ انہوں
نے اس طرح کا بیان کیوں دیا، جبکہ وہ اپنے اس موقف پراب بھی قائم ہیں کہ
کشتی مشتبہ پاکستانی دہشت گردوں نے ہی تباہ کی۔ دباﺅ بڑھنے پر بھارتی کوسٹ
گارڈ کا ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بی کے لوشالی بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس میں
شائع ہونے والے اپنے ہی اس بیان سے مکر گیا، جس کے مطابق بحیرہ عرب میں
پاکستانی ماہی گیروں کی کشتی کو اڑانے کا حکم اس نے دیا تھا۔ لوشالی کا
مزید کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے حکم دینے کے مجاز نہیں تھے، بلکہ اس کی
نگرانی شمال مغربی ریجن کے کوسٹ گارڈ کمانڈر کر رہے تھے، لیکن اس تردید کے
باوجود پاکستانی کشتی کی تباہی سے متعلق بھارتی جھوٹ بے نقاب کرنے پر کوسٹ
گارڈ افسرحکومت کے عتاب کا شکار ہوگیا۔ بھارتی کوسٹ گارڈ کے ڈی آئی جی نے
اپنے بیان پر بھارتی حکومت سے معافی بھی مانگی ہے، مگر وزارت داخلہ نے
معافی قبول نہ کرتے ہوئے اس کے خلاف کارروائی کا حکم جاری کردیا۔ بھارتی
میڈیا کے مطابق ڈی آئی جی کوسٹ گارڈ کو قانونی کارروائی کا سامنا ہے اور ان
کا کورٹ مارشل بھی کیا جاسکتا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع نے بھی ڈی آئی جی کوسٹ
گارڈ کے بیان کو ان کا ذاتی بیان قرار دے کر معاملے کو دبانے کی کوشش کی،
مگر میڈیا کے دباﺅ پر بھارتی حکومت بی کے لوشالی کے خلاف کارروائی پر مجبور
ہوئی۔ جبکہ پاکستانی کشتی کی تباہی کے حوالے سے بھارتی حکومت کو خود بھارت
کی اپوزیشن جماعت کانگریس کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ کانگریس نے
پاکستانی کشتی کو دھماکے سے تباہ کرنے کے معاملے پر حکومت کو کڑی تنقید کا
نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ معاملہ انتہائی حساس ہے، اس کو سنجیدہ لیا
جائے۔ حقائق عوام کے سامنے لائیں جائیں۔ بھارتی میڈیاکے مطابق انڈین
کانگریس کے ترجمان اجے میکن نے مرکزی حکومت کو پاکستانی کشتی کی تباہی کے
معاملے پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے کہا کہ بھارتی وزیر دفاع پرریکر اس
معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہے، لیکن ایسا نہیں کیا جانا چاہیے، کیونکہ اس
معاملے سے اس کی نوعیت کے مطابق نمٹا جائے۔ متنازع بیانات دشمن ممالک کی
جانب سے آپ کے خلاف استعمال ہوئے ہیں، مودی حکومت ایسے بیانات سے خود کو
پاکستان کے سامنے گنہگارثابت کر رہی ہے۔ حکومت نے ڈی آئی جی کوسٹ گارڈ جی
کے لوشانی کو دھمکی دی ہے، جو کہ غلط ہے۔ یہ معاملہ روز اول سے متنازع تھا
اور اس پر شکوک و شبہات اٹھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم نے شکوک و
شبہات اٹھائے تھے تو ہمارے اوپر الزام عاید کیا گیا تھا کہ کانگریس پاکستان
کی حمایت کر رہی ہے۔
اگرچہ پاکستان کے خلاف اب بھارتی ڈرامہ بے نقاب ہوگیا ہے، لیکن پاکستانی
کشتی تباہ کرنے کے بعد بھارت نے آتشزدگی کا نشانہ بننے والی کشتی کو
پاکستان سے منسوب کرکے زہریلا پروپیگنڈا کیا کہ یہ ممبئی طرز کے حملوں کی
ایک کوشش تھی۔ بھارت نے واویلا کرتے ہوئے امریکی صدر اوباما کے دورہ بھارت
کے موقع پر بڑے دہشت گرد حملے کی منصوبہ بندی کا الزام بھی پاکستان پر دھر
دیا تھا۔ بھارت کی طرف سے ایسی ڈرامہ بازی اور پاکستان پر الزام تراشی کوئی
پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بھارت پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے
نہیں جانے دیتا اور جب اس کو کوئی ایسا موقع نہیں ملتا تو ڈرامہ بازی سے
خود پیدا کر دیتا ہے۔ دسمبر میں کشتی سواروں کی طرف سے خود کو اڑانے کا قصہ
بھی بھارت نے گھڑ کے پاکستان کو دنیا میں بدنام کرنے کی کوشش کی۔ سمجھوتہ
ایکسپریس کی مثال بھی دنیا کے سامنے ہے، جب پانی پت کے قریب ٹرین کی دو
بوگیوں میں بارود رکھ کر اسے اڑا دیا گیا تھا، جس سے 68 افراد مارے گئے، جن
میں اکثر پاکستانی تھے۔ بھارت نے اس سانحہ کا الزام بھی پاکستان پر لگایا
تھا، جو کچھ عرصہ بعد خود بھارتی تحقیقاتی ایجنسی نے لغو قرار دیا۔ اسی
تحقیقات کے دوران کرنل پروہت اور سوامی آسینند نے دھماکے کرانے کا اعتراف
کیا۔ ان دو اور دیگر ملزموں کو قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے گرفتار کیا
اور بعدازاں ان کی ضمانت منظور کرلی گئی۔
ممبئی حملے سمجھوتہ ایکسپریس کے تقریباً دو پونے دو سال بعد ہوئے۔ ان میں
بھی بھارت نے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ہماری حکومت اس حوالے سے دفاعی پوزیشن پر نظر آئی۔ بھارت کے پروپیگنڈے کا
مناسب جواب نہ دیا گیا۔ اجمل قصاب جسے بھارت نے ایک پاکستانی قرار دیا تھا،
اس سے پاکستان سے بھارت جانیوالے تحقیقاتی کمیشن سے ملاقات نہیں کرائی گئی۔
دیگر گواہان سے بھی ملنے نہ دیا گیا۔ اجمل قصاب کے پاکستانی نہ ہونے کا بہت
بڑا ثبوت یہ تھا کہ دوران تفتیش بنائی گئی ویڈیو میڈیا پر دکھائی گئی، جس
میں وہ ہندی میں گفتگو کررہا تھا۔ بھارت نے ممبئی حملوں کے حوالے سے
ہونیوالی تحقیقات سے بھی پاکستان کو آگاہ نہیں کیا۔ بھارت جس طرح جھوٹا اور
بے بنیاد پروپیگنڈا کرکے پاکستان کو بدنام کرتا ہے، ہم اس کا سچائی کے ساتھ
توڑ کرنے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ انڈین ایکسپریس نے کشتی کی تباہی کا
ڈرامہ اس واقعہ کے اگلے ہی روز بے نقاب کردیا تھا، مگر اس پر شاید پاکستانی
حکام کی نظر نہیں پڑی اور اگر پڑی تو یہی سمجھ لیا کہ بھارتی الزامات کی
تردید ہو گئی ہے، جبکہ پاکستانی میڈیا نے بھی بھارتی میڈیا کی طرح شور مچا
کر عالمی سطح پر اسے اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ بھارتی میڈیا اور
بھارتی حکومت ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف جھوٹے واقعات کو بنیاد بناکر
پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہےں اور ساری دنیا میں پاکستان کے خلاف
واویلا کیا جاتا ہے، لیکن دوسری جانب بھارتی جارحیت کے ثبوت ہونے کے باوجود
پاکستانی حکومت ہمیشہ چپ سادھے رہتی ہے۔ جیسا کہ حالیہ واقعہ میں ہوا کہ
سارا بھارتی ڈرامہ بے نقاب ہوجانے کے باووجود بھی پاکستانی حکومت کی جانب
سے کوئی مضبوط موقف سامنے نہیں آیا۔ بھارتیوں نے بیدردی سے ایک کشتی پر
سوارچار بے گناہ پاکستانیوں کی جان لے لی اور اس واقعہ کو پاکستان کے خلاف
استعمال کرنے کی بھی کوشش کی۔ بھارت کی اس منافقت پر پاکستان کو سخت ایکشن
لینا چاہیے تھا، لیکن افسوس پاکستانی حکام نے بھارتی جارحیت کو سنجیدگی سے
نہیں لیا اور پاکستان دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے صرف یہ بیان دےا
کہ ”پاکستان کی کوئی کشتی لاپتہ نہیں ہوئی اور بھارت کے میڈیا نے کشتی کا
ڈرامہ رچایا، تاہم نام نہاد کشتی کا ڈرامہ اب اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔
پاکستانی کشتی کا ڈرامہ آہستہ آہستہ منظرعام پر آرہا ہے۔ “ جبکہ پاکستانی
وزیر دفاع خواجہ آصف نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کی جانب سے
بین الاقوامی سمندری قوانین کی خلاف ورزی کا نوٹس لے۔حالانکہ وزارت خارجہ
کو انڈین ایکسپریس کی 2 جنوری کی رپورٹ پر دنیا کو بھارت کا مکروہ چہرہ
دکھانا چاہیے تھا۔ کشتی تباہی اور پاکستان پر بے بنیاد الزامات کے حوالے سے
بھارت کے معاندانہ، مخاصمانہ اور جارحانہ رویے سے عالمی برادری کو آگاہ
کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کے خلاف شدید احتجاج کی ضرورت ہے۔ |
|