مجھے نہیں معلوم کہ یہ شعر کس شاعر کا ہے۔البتہ ہم
اپنی کلاس میں سست ،کاہل اور کام چوراپنے ہم جماعت لڑکوں کو یہ شعر سنا کر
انہیں چڑایا کرتے تھے ۔کیونکہ وہ اپنا ہوم ورک مکمل نہ کرنے کی صور ت میں
انہیں اکثر ملا بخش کا سامان کرنا پڑتا تھا ملا بخش یعنی استاد محترم کی
چھڑی تو شعر یہ تھا’’قیامت کے بعد بھی دیوانے تیرے یہ پوچھتے ہیں۔وہ قیامت
جو گزرنی تھی کہاں گزری ہے‘‘یعنی وہ کچھ اس طرح کے طالب علم تھے کہ روز مار
کھاتے ہوئے کلاس میں سب کے سامنے باعث عبرت بنتے ہوئے اور پھر سالانہ
امتحان میں ناکام ہوتے ہوئے بھی وہ نہیں شرماتے تھے۔جب کہ ان سے بہت کم عمر
والے بچے پاس ہو کر ان سے آگے نکل جاتے تھے۔مگر مجال ہے وہ کسی کو بولنے کا
موقع فراہم کریں۔ہر پٹائی کے بعد کہتے تھے اب کے بار دیکھو ہم کس طرح ہوم
ورک مکمل کرتے ہیں اور امتحان میں ناکامی کے بعد بھی ان کا کہنا تھا کہ
اگلے سال ہم اس ناکامی کا بھی بدلہ نکال لیں گے اور کم از کم اپنی کلاس میں
اول پوزیشن آنا تو ہمارے لئے کوئی بڑی بات نہیں۔ہر ناکامی کے بعد بھی ان کی
بھڑکیوں کی بھڑکار میں کمی ہرگز محسوس نہیں کی جاسکتی تھی ۔جب کہ اپنا کام
اور اپنی پڑھائی پر توجہ دینے والے ہونہار طلباانہیں خدا حافظ کہتے ہوئے
اگلی جماعت میں داخل ہوتے تھے۔یہ بات حقیقت ہے کوئی اپنی ذمہ داری کو احساس
ذمہ داری کے ساتھ احسن طریقے سے نبھائے گا تو کامیابی اس کی قدم ضرور چومے
گی، اور ایسے ہی لوگ ایک اچھے معاشرے کی پہچان بن جاتے ہیں وہ جہاں کہیں
بھی ہوں اپنی ذات کے علاوہ وہ قوم کی خدمت بھی کرتے ہیں اور جو خدمت کےء
جذبے سے عاری ہوتے ہیں وہ نہ فقط اپنے لئے بلکہ اوروں کے لئے بھی وبال جا ن
بن سکتے ہیں۔یہ پرانی کہانی مجھے یاد اس لئے آئی کہ حکومت اور حکومتی
اداروں کی جانب سے بلند بانگ دعوے دار بیانات کی بھر مار سے ملک کے عوام
بھی عاجز آچکے ہیں ۔حکومت کی جانب سے کبھی نہ رکنے والا جھوٹ کا سلسلہ دیکھ
کر اب عوام کی یاد داشت دوبارہ لوٹ آئی ہے۔چند سال قبل ملک میں بجلی کی کمی
کو پورا کرنے کے لئے سیاستدان کبھی چند ماہ تو کبھی ایک آدھ سال کاچیلنچ
دیتے تھے،یہی حال اس وقت کی اپوزیشن لیڈران کا بھی تھا۔اس ملک میں روزگار
کا مسلہ ہو،صحت کا مسلہ ہوبجلی کا مسلہ ہو یا دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کا
مسلہ،حکومت کی طرف سے عوام کو دھماکے دار بیانات کے علاوہ اور کچھ نہیں
ملا۔حالانکہ پاکستان سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک ترقی کی شاہراہ پر
خوشی خوشی چل رہے ہیں۔جب کہ ہم تنزلی اور ذلت و رسوائی کی کانٹے دار ،دشوار
گزار اور جان لیوا راستے پر روتے پیٹتے گزر رہے ہیں۔یہاں یہ بات صادق آتی
ہے استاد کی نصیت پر عمل کر کے محنت کو اپنا شعار بنا کر آگے نکلنے والے
طلبا اور بے شرم،سست کاہل اور کام چور طلبا کے درمیان جو فرق ہوتا ہے یہی
فرق ایک اچھے با کردار حکمران اور فاسق حاکم کے درمیان بھی ہے۔موجودہ دنوں
میں اکثر یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ وزیر اعظم دہشت گردوں کے خلاف ذرائع
ابلاغ میں بیانی دھماکہ کرتے ہیں تو اس کے جواب میں دہشت گرد برادری عملی
طور پر دھماکے کر کے ان کی کاغذی دھماکے کی اصلیت کو بے نقاب کر کے عوام کو
یہ پیغام دے رہی ہے کہ اصل حکمرانی ہماری ہی ہے چونکہ ہم جہاں چاہیں جیتے
جاگتے انسانوں کے پرخچے اڑاتے ہیں جس کو چاہیں موت کی نیند سلاتے ہیں۔ان کی
بات میں واقعی وزن ہے تمام حکومتی مشنری کو ناکوں چنے چپوایا ہے۔سندھ میں
نماز جمعہ کے دوران دھماکے سے لاشوں کے ڈھیر لگ گئے،اور اس دھماکے کی گونج
ابھی باقی تھی کہ پشاور میں دہشت گردوں نے پھر اپنا جمعہ منایا جیتے جاگتے
انسانوں کے چھیتڑے مسجد کی دیواروں سے چھپکنے لگے۔ایک جانب جان لیوا دھماکے
تو دوسری طرف جان چھڑانے والے بیانات کے کاغذی دھماکے آخر اس کی وجہ کیا
ہے؟ پشاور کے نمازیوں کا لہو سوکھا ھی نہیں تھا پنڈی امام بارگاہ میں
دھماکہ کیا گیا ۔خدا جنت نصیب فرمائے اس بہادر جوان کو جس نے خود کش حملہ
آور کو امامبارگاہ کے اندر جانے سے روک دیا جس کی جان نثاری کی برکت نقصان
اتنا نہیں ہوا جتنا دہشت گردوں کا حدف تھا وہ خدا کے فضل سے پورا نہیں
ہوسکا۔ با کمال حکمرانوں کے لا جواب حکومت کے کیا کہنے۔ آخبار میں ان کے
دھماکہ خیز بیان کے ساتھ اصل دھماکہ کرنے والوں کی کامیاب کارروائی کے
رنگین تصاویر،دل ہلا دینے والا مناظر دیکھنے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔ کیا یہ
ایک کامیاب ریاست ہے، کیا یہ واقعی حکمرانی کا حق رکھتے ہیں؟ کیا عوام کی
جان و مال کا تحفظ اس طرح ہورہاہے؟ آخر یہ کیا ہورہا ہے یہ بے حس حکمران
استعفیٰ کیوں نہیں دیتے، انہیں شرم کیوں نہیں آتی؟ کیا اسی کا نام جمہوریت
ہے، اسی طرز جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کی کوشش ہورہی ہے؟ نہ یہ عوام
کے ہمدرد ہیں، نہ ملک کے ساتھ وفادار ہیں اور نہ انہیں خدا کا خوف ہے۔ مگر
ہیں تویہ پکے مسلمان؟ کیا انہوں نے دہشت گردوں سے کوئی قرضہ تو نہیں لیا
گیا ہے؟اتنی بڑی ایٹمی ریاست بقول ان کے مٹھی بھر دہشت گرد ہیں ان مٹھی بھر
دہشت گردوں کو اب تک کنٹرول کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟کیا ان سے کوئی پرانا
رشتہ ہے؟کہیں سے کوئی دباؤ ہے؟ یا واقعی خوف زدہ ہیں، یا ان کے اندر وہ ہمت
نہیں جو ،ان کا صفایا کر سکیں؟دنیا اس ملک کی حالت زار کو دیکھ کر ورطہ
حیرت میں پڑی ہے۔ جس ملک کا نام نامی۔ مملکت خداد اسلامی جمہوریہ پاکستان۔
نہ خدا سے ڈرتے ہیں نہ جمہوریت ہے اور نہ ہی اسلام نظر آتا ہے۔ نہ یہاں پر
سرکاری اہم ادارے محفوظ ہیں نہ اسکول اور نہ عبادت گاہیں محفوظ ہیں۔ ان کا
ملک اور قوم سب تباہی کے دہانے پر ہیں۔اس بات سے یہ اندازہ لگانا آسان
ہورہا ہے کہ یہ لوگ سامراجی ایجنڈے کو احسن انداز سے پورا کر رہے ہیں۔عوام
پر بھی بے حد افسوس ہورہا ہے ہر با رمنہ کی کھانے کے بعد بھی ان ظالموں کو
منتخب کر رہے ہیں۔استاد اور شاگردوں کی اس تباہ کن جنگ میں مظلوم اور بے
گناہ لوگ مارے جارہے ہیں۔آخر اس کا ذمہ دار کون ہے۔دہشت گردوں کی حمایت میں
بات کرنے والوں پر سرکار مہربان نظر آتی ہے اس باعث عوام کے اندر نفرت کا
لاوا پک رہا ہے۔یاد رکھیں یہ لاوا اگر پھٹ گیا تو تاریخ کے اوراق تک رنگین
ہونگیں۔ جہاں جان،مال، عزت اور عقیدہ محفوظ نہ ہو وہ جگہ دنیا کی بدترین
جگہ ہے اور وہاں کے حاکم دنیا کے بدترین حاکم ہیں۔سوال یہ بھی ہے کہ پنڈی
،جی ایچ کیوں بھی وہاں پر درجنوں خفیہ اداروں کی نگرانی بھی وہاں پر سامنے
اسلام آباد میں پارلیمنٹ؟ اس کے باوجود دہشتگردی اپنے عروج پر؟۔اس کا مطلب
یہ ہوا کہ دہشت گردوں کی جانب سے یہ ایک پیغام ہے کہ پنڈی سے اسلام آباد
دور نہیں؟ یہ دہشت گرد حکمرانوں کے سر کے عین قریب پہنچ چکے ہیں۔خدا را ہوش
میں آجائیں کاغذی دھماکہ کرنے کی عادت ترک کریں اور دہشت گردوں سے عوام کو
نجات دلانے کی حکمت عملی پر سنجیدگی سے غور و فکر کریں،عملی اقدامات کی
ضرورت ہے بیانات کی نہیں۔جب کہ ان دنوں میں اہل تشیع کو خاص طور پر نشانہ
بنایا جارہا ہے۔یہ ایک فطری امر ہے کہ انسان جب تنگ آتا ہے تو وہ سب کچھ کر
گزرتا ہے جو و ہ نہیں چاہتا ہے۔خدا نخواست اگر مظلوم طبقہ بھی وہ کچھ کرنے
پر اتر آئے جو ظالمان کر رہے ہیں پھر نقشہ ہی بدل جائے گا، اس سے قبل
ظالمان کے خلاف ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔پاکستان کے چاروں صوبوں میں جہاں
بھی نفرت انگیز ،فرقہ وارانہ چاکنگ نظر آجائے اس کو صاف کیا جائے اس حوالے
سے گلگت بلتستان بھی کسی سے پیچھے نہیں،چاکنگ کا سلسلہ یہاں پر بھی شروع
ہوا ہے۔ یہاں پر بھی جھاڑو پھیرنے کی ضرورت ہے، ا گلگت بلتستان میں آئے روز
تاکید کے ساتھ یہ خبر شائع ہورہی ہے کہ شاہراہ قراقرم پر لولو سر جیسی
دہشتگردی کا امکان ہے ۔ مگر یہ خبر نہیں چھپی کہ اس ممکنہ دہشت گردی کے
تدارک کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات بھی کئے گئے ہیں۔ بس یہی پیغام دیا
جارہا ہے ک مرنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔یاد رکھیں گلگت بلتستان کے لوگوں نے اس
شاہراہ سے بہت لاشیں وصول کر چکی ہیں۔خدا نخواستہ اب کے بار بھی ایسا ہوا
تو یہاں کے عوام کو مجبوراً کوئی اور شاہراہ تلاش کرنا پڑے گا جہاں جان مال
محفوط ہو اُس شاہرا پر اس راستے پر اس جانب سفر کرنا ہوگا۔ ور اگر کوئی
دوبارہ چاکنگ کرے یا شر پھیلانے والے پوسٹر چسپاں ،تقسیم کرے اس کے ساتھ فی
الفور قانونی کارروائی کی جائے تاکہ ان کی حوصلہ شکنی ہوجائے۔دہشت گردوں کی
پشت پناہی کرنے والوں کو عبرت ناک سزا دی جائے تاکہ عوام کی جان ،مال
اورآبرو محفوظ ہوسکے۔اگر ایسا نہیں ہوا تو ہر متاثر انسان اپنی حفاظت کی
خاطر اسلحہ اُٹھائے گا اور ملک کونہ رکنے والی خانہ جنگی کا سامنا کرنا
ہوگا۔اور ماضی میں ایسے واقعات کی گواہی تاریخ دے رہی ہے۔اس لئے دہشت گردی
کا خاتمہ انسانیت کی بقا کے لئے ناگزیر ہے۔ |