نگران کابینہ ، الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتیں
(Amir Jan Haqqani, Gilgit)
آج کی محفل میں گلگت بلتستان کی
نگران کابینہ، الیکشن کمیشن اور سیاسی و مذہبی اور قوم پرست جماعتوں سے چند
گزارشات پیش کرنی ہیں۔چونکہ گلگت بلتستان میں الیکشن قریب آرہے ہیں۔لازمی
بات ہے کہ نگران کابینہ اورالیکشن کمیشن نے شفاف الیکشن کا اہتمام کرنا ہے
اور تمام جماعتوں نے انتخابات میں اپنے جثہ کے مطابق حصہ لینا ہے۔ا نہیں
مختلف حلقوں میں اپنے نمائندے الیکشن کے لیے کھڑے کرنے ہیں۔ اس حوالے سے
چند گزارشات عرض ہیں۔ ووٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے اس حوالے سے الیکشن کے قریب
گزارشات عرض کی جائیں گی۔ ہم مملکت خداداد پاکستان کے بے آئین شہری ہیں۔ اس
لیے اس حوالے سے بھی آئین پاکستان سے رہنمائی لینے کی کوشش کریں گے۔مجھے
آئین پاکستان پڑھاتے پڑھاتے چار سال ہوچکے ہیں۔ آئین کی آرٹیکل نمبر63,62
کی اہم ذیلی دفعات ہماری یوں رہنمائی کرتی ہیں۔یعنی کون لوگ ہیں جو پاکستان
میں الیکشن لڑسکتے ہیں تو ہم کہیں گے کہ کون لوگ ہیں جو گلگت بلتستان میں
الیکشن لڑ سکتے ہیں تو لامحالہ ہمیں کہنا پڑے گا کہ تمام امیدواروں کے لیے
ان شرئط کا خصوصی طور پر پایاجا نا ضروری قرار دیا جائے۔ جوآئین میں موجود
ہیں۔ اور یہ کام الیکشن کمیشن ،نگران کابینہ اورسیاسی و مذہبی جماعتیں مل
کرہی انجام دے سکتی ہیں ۔ آئین پاکستان کی آرٹیکل نمبر63,62 میں ضروری
تبدیلی کے ساتھ عرض ہے کہ:
۱۔گلگت بلتستان کا شہری ہونا۔
۲۔ اس کا کردار اچھا ہو‘ وہ عام طور پر اسلامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی
شہرت نہ رکھتا ہو۔
۳۔ اسلام کا مناسب حد تک علم رکھتا ہو اور اسلامی فرائض کی بجا آوری کرتا
ہو اور کبیرہ گناہوں سے پرہیز کرتا ہو۔
۴۔ دیانتدار‘ نیک‘ سمجھ دار اور امین ہو۔فضول خرچ اور عیاش نہ ہو۔
۵۔ کسی اخلاقی جرم کی پاداش میں سزا نہ پائی ہو اور نہ ہی جھوٹی گواہی کا
مرتکب پایا گیا ہو۔
۶۔پاکستان و گلگت بلتستان بننے کے بعد ملک و علاقے کی یکجہتی کے خلاف کام
نہ کیا ہو اور نہ ہی نظریہ پاکستان کی مخالفت کی ہو۔اور نہ ہی اقوام متحدہ
میں زیر بحث گلگت بلتستان کی آئینی وجغرافیائی موقف جو کہ ریاست پاکستان نے
اپنا یا ہے کی مخالف کی ہو۔
آئین پاکستان نے قومی اسمبلی کا ممبر بننے کے لیے کچھ باتیں لازمی قرار دی
ہیں ان کے ہونے سے وہ ممبراسمبلی نہیں بن سکتا تو لامحالہ ہمیں بھی وہ
چیزیں گلگت بلتستان میں لازمی قرار دینے ہونگیں جن کے ہونے سے کوئی بھی
آدمی گلگت بلتستان اسمبلی کا ممبر نہیں بن سکتا۔اس امر کو بھی نگران
کابینہ، الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کو یقینی بنانے کے لیے ایک صفحے پر
جمع ہونا ہوگا۔یعنی ان تمام شرائط کے پائے جانے سے کوئی بھی آدمی گلگت
بلتستان اسمبلی کا ممبر نہیں بن سکتا ہے۔
۱۔گلگت بلتستان کا شہری نہ ہو، یا کسی ملک کی شہریت حاصل کرچکا ہو۔
۲۔ وہ کسی ایسی آراء کا پرچار کررہا ہو یا ایسی حرکات کا مرتکب ہو جن سے
پاکستان و گلگت بلتستان کے نظریے‘ اقتدارِ اعلیٰ‘ سا لمیت یا سیکیورٹی پر
زد پڑتی ہو یا جس سے امن عامہ قائم کرنے یا اخلاقیات کی نفی ہو یا جس سے
عدلیہ کی آزادی متاثر ہوتی ہو یا افواج پاکستان بدنام ہوتی ہوں یا طنز و
تحقیر کا نشانہ بنتی ہوں۔
۳۔ غلط رویے(Misconduct ) کے سبب حکومت کی نوکری سے برخاست ہوا ہو۔ البتہ
اگر اس دوران پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہوتو اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوگا۔
۴۔ رائج الوقت قوانین کے تحت کرپشن کا مجرم پایا گیا ہو یا کوئی غیر قانونی
حرکت کا مرتکب ہو ا ہو۔
٭․․لیگل فریم ورک آرڈر مجریہ 2002ء میں اراکین شوریٰ(پارلیمنٹ) کا رکن
منتخب ہونے کے لیے کچھ شرائط کا اضافہ کیا گیا تھا۔ تو ان شرائط کا اطلاق
گلگت بلتستان میں لازمی طور پر کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ شق نمبر 63(q) کے
مطابق ایسا شخص گلگت بلتستان اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل نہیں جس نے
خود، یا بیوی یا اپنے کسی زیر کفالت کے نام پر کسی بینک‘ مالی ادارے، یا
کوآپریٹو سوسائٹی/باڈی سے بیس لاکھ یا زیادہ قرضہ لیا ہو جو واجب الادا
تاریخ سے ایک سال تک کے عرصے میں ادا نہ کیا ہو ایا پھر اس نے یہ قرضہ معاف
کروایا لیا ہوا، ان دونوں صورتوں میں اسے ناہل تصور کیا جائے گا۔
اب سب سے اہم کام جو سیاسی و مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کو کرنے کا ہے وہ
یہ ہے کہ ہر جماعت مذکورہ بالا صفات پر مشتمل ایک کور کمیٹی بنائے اور اس
کور کمیٹی کو یہ ذمہ داری سونپ دی جائے کہ وہ کس کو پارٹی ٹکٹ سے الیکشن
لڑنے کی اجازت دیتی ہے اور کس کو نہیں دیتی ہے۔اس کورکمیٹی کے تمام ارکان
خود صوم و صلوۃ کے پابند ہوں، امین ہوں یعنی آئین کی آرٹیکل نمبر63,62 پہلے
ان پر خود صادق و صادر آتی ہو، تاکہ ایسے ارکان جب مختلف حلقوں سے نمائندے
چن لیں گے تو ان کی طرف سے عطاء کردہ ٹکٹ لوگوں کو الیکشن کمیشن اور نگران
کابینہ مسترد نہیں کرے گی، لامحالہ پھر گلگت بلتستان میں اچھے اور نیک لوگ
ممبران اسمبلی بنیں گے تو گلگت بلتستان ترقی کے منازل طے کرتا چلا جائے گا۔
یاد رہے کہ اب کی بار بھی پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم، اقرباء پروری، رشوت اور
دیگر مفادات کی خاطر ہوئی تو ائندہ پانچ سالوں میں گلگت بلتستان کا بیڑہ
غرق ہوجائے گا۔جب چور، ڈاکو، لٹیرے اور پرانے پاپی ممبران اسمبلی بنیں گے ،
وزیر اور وزیر اعلی بنیں گے تو وہ بیورو کریسی کو کرپشن سے روکنے کے بجائے
ان کو مزید کرپشن کرنے پر مجبور کریں گے۔ اس امر سے کون واقف نہیں کہ گلگت
بلتستان کی بیوروکریسی میں بہت سارے نیک اور اچھے لوگ ہیں جو نظام کو درست
کرنا چاہتے ہیں مگر یہ لٹیرے قسم کے لوگ ان آفیسران کو کام کرنے نہیں دیتے۔
قارئین سے گزارش ہے کہ میرے لیے دعا کریں تاکہ مشاغل سے فرصت ملنے پر آئندہ
الیکشن کے حوالے سے تفصیلی امور زیر بحث لا سکوں، تاکہ الیکشن کی افادیت و
اہمیت کا عوام الناس کو شعور حاصل ہو۔آج کی محفل میں اس پر گزارہ کیا جائے۔
اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
|
|