برائے پرنداں
(Prof. Niamat Ali Murtazai, Karachi)
ہم یہ تحریر اپنے ہوائی
دوستوں کے حقوق کی دستیابی کے لئے لکھ رہے ہیں اس امید کے ساتھ کہ ہمارے
دوستوں کے حقوق کے لئے بہت سارے عملی اقدامات کئے جائیں گے۔
ہم اپنے پیارے دوستوں کا تعارف کرانے میں تاخیر بالکل نہیں کریں گے کیوں کہ
یہ تاخیر اگلی تاخیر کا پیش خیمہ ثابت نہ ہو۔ ہمارے ہوائی دوست دو پروں پر
محوِ پرواز ہونے والے پرندے ہیں۔ہم ان بچاروں،بے سہاروں کے لئے دل میں کوئی
نرم گوشہ نہیں رکھتے بلکہ ہمارا دل سراپا ان ہی کا ہے۔ہم دل و جان سے
پرندوں سے محبت کرتے ہیں۔ پرندوں کی یہ محبت ہم نے کہیں سے ادھار یہ برائے
اظہار حاصل نہیں کی بلکہ جس قدرت نے ان پرندوں اور ہم کو پیدا کیا ہے اسی
قدرت نے ہمارے سینے کے دل کے اندر ان معصوموں کی الفت ڈال دی ہے۔ہمارے خیال
میں ہمارے جیسے جذبات اکثر و بیشتر انسانوں کے ہیں۔ اس کی ایک عام وجہ یہ
بھی ہے کہ پرندے ایک تو خوبصورت ہوتے ہیں اور دوسرا وہ ہمیں جانوروں کی طرح
تنگ نہیں کرتے۔تیسرا وہ جانوروں کی طرح خوفناک بھی نہیں ہوتے۔چوتھا وہ کئی
ایک خصلتوں میں انسانوں سے کسی بھی اور مخلوق کی نسبت زیادہ مماثلت رکھتے
ہیں۔ان کی باریک، باریک تیکھی آوازیں تو اپنا جواب ہی نہیں رکھتیں۔فطرت نے
کیا ہی دل نشیں مخلوق کاہمارے ساتھ تعلق جوڑا ہے۔ ہم حیوانوں کی دیکھ بھال
اور ان کی صفائی ستھرائی سے چند دنوں کے اندر اکتاہٹ کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ان کی بد بو ہمارے واسطے نا قابلِ برداشت ہو سکتی ہے( ہم یہ نہیں کہنا
چاہتے کہ جانوروں سے پیار نہ کیا جائے،وہ بھی پیارے اور قابلِ محبت ہیں۔ہم
اس معاملے میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں کہ پرندے باقی مخلوقات سے
کس طرح ہمیں زیادہ سکون دیتے ہیں۔)پرندوں کی معصوم نگاہوں میں اگر کبھی آپ
کو جھانکنے کا موقع ملا ہو یا ملے تو کیا جی نہیں چاہتا کہ انسان اپنی دنیا
چھوڑ کر اسی معصومی کی دنیا میں بسیرا کر لے۔ان کی آنکھوں میں کیا ادا ہوتی
ہے کہ انسان کا دل جھٹ سے کھینچ لے جاتی ہے۔
ان کے پر تو جیسے جنت سے بن کر آتے ہوں اتنا حسین امتزاج کہ انسان کی عقل
دھنگ رہ جائے۔رنگوں میں وہ شیڈ جو انسان نے اور کہیں نہ دیکھے ہوں۔پروں کو
دیکھ کر وہی لطف ملے جو محوِ پرواز ہونے میں آئے۔بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ان
کی جونچیں دیکھ کر فطرت کی کاری گری کی داد دینی پڑتی ہے کہ کس طرح اس نے
ان مزدوروں کو محنت کرنے کے اوزاروں سے نوازا ہوا ہے تا کہ ان کو کسی کے
ہاتھوں کی طرف نہ دیکھنا پڑے۔ان کے پیارے پیارے پنجوں کو دیکھ کر لگتا ہے
کہ انہوں نے نا معلوم صدیوں کا سفر طے کیا ہے۔پرندوں کے گھونسلوں کو ہم
اپنے گھروں سے تشبیہہ دیتے رہے ہیں:
کہاں رکھئے بنائے آشیانہ صحنِ گلشن میں
جہاں بجلی نہیں گرتی وہاں صیاد ہوتا ہے
ان آشیانوں سے ہو سکتا ہے انسان کو بھی اپنا گھر بنانے کا خیال ملا ہو۔تنکا
تنکا اکٹھا کرنا ہی وہ بنیادی خیال ہے جو کسی گھر کی تشکیل میں کا فرما
ہوتا ہے۔کیا ہی خوبصورت بات ہے کہ انسان نے فطرت سے پہلا سبق انہی پرندوں
کو دیکھ کر سیکھا تھا۔جب قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا تو اسے سمجھ نہیں
آرہی تھی کہ اب اس لاش کو کیسے ٹھکانے لگائے۔چناں چہ دو پرندے آئے وہ آپس
میں لڑے،ایک نے دوسرے کو مار دیا۔پھر اس نے زمین کھود کر اس میں چھپا دیا
۔یہ طریقہ دیکھ کر انسان کو لاش سپردِ خاک کرنے کا ڈھنگ آ گیا۔اس لحاظ سے
پرندے انسان کے پہلے فطرتی استاد ہیں۔کیا آج بھی پرندے ہمیں کوئی سبق دینے
کا فریضہ ادا کر سکتے ہیں؟
اس سوال کا جواب بلا مبالغہ ہاں میں دیا جا سکتا ہے۔ بھلا کیسے؟ وہ ایسے کہ
پرندوں کو بھی تک عینکیں نہیں لگیں۔ کیا مطلب؟ عینک کا نا لگنا بھی کوئی
کمال کی بات ہو سکتی ہے؟ نہیں اگر عینک کو ہم انہی آنکھوں اور ناک اور کان
کے حوالے سے دیکھیں پھر تو کوئی بات نہیں لیکن اگر عینک کو ذہنی سوچ کو
حوالے سے سمجھیں تو بات بڑی آسانی سے سمجھ آ جائے گی۔پرندوں نے فطرت کے
علاوہ کسی نظریے کو نہیں اپنایا۔وہ آج بھی ویسی ہی زندگی گزار رہے ہیں جیسی
وہ ہزاروں سال پہلے گزارتے تھے۔ویسے ہی وہ دانہ دنکا کھاتے ہیں۔پانی پیتے
ہیں اور ویسے ہی اڑتے ہیں۔ ان کا کوئی کام ذرا بھی تغیر کا شکار نہیں ہوا۔
ویسے ہی ان کی افزائشِ نسل ہے۔یہ تو باہر کی باتیں ہیں۔ اندر کی باتیں بھی
تو ویسی کی ویسی ہیں۔کسی میں لالچ پیدا نہیں ہوئی، کسی نے بینک بیلنس نہیں
بنایا، کسی نے کوئی سٹور نہیں بنایا ، کسی نے اپنے بچوں کو خدا کی سلطنت سے
باہر نہیں سمجھا، کسی نے اپنی زبان نہیں بدلی ، کسی نے اپنا حلیہ نہیں
بدلا، کسی نے اپنے ساتھی سے بے وفائی کی روش اختیار نہیں کی، کسی نے ترقی
کے نام پر بے راہ روی اختیا نہیں کی، کسی نے اپنے آباو اجداد کی نسلی برتری
کو اپنے لئے باعثِ افتخار نہیں بنایا، کسی نے اپنی روزی دوسروں کا کام سے
نہیں کھائی۔الغرض پرندے ہمیں کئی ایک سبق دے سکتے ہیں۔ جو سب سے بڑا سبق ہم
پرندوں سے لے سکتے ہیں وہ لالچ نہ کرنے کا بھی ہو سکتا ہے۔ انسان کی لالچ
نے کتنے فساد برپا کر رکھے ہیں۔ نہ یہ لالچ ہو اور نہ انسان انسان کے
ہاتھوں عذاب کا نشانہ بنے۔ اتنا زیادہ دنیا کا وبال اسی ایک لالچ کی پیدا
وار ہے۔ مغرب کے لالچ کا شکار ہو کر مشرق اپنا حسن کھو بیٹھا، اور مشرق
مغرب کے لالچ میں اپنا آپ گنوا بیٹھا۔مغرب نے انسان پر بے شمار مظالم ڈھائے
کہ اپنی لالچ پوری کر سکے۔انسان آنے والی نسلوں کا سوچ کر کتنی موجودہ
نسلوں کا جینا حرام کرتا ہے۔ اﷲ پریقین نہیں کہ وہ آنے والے انسانوں کو
پالے گا، انسان اپنی نسلوں کو اﷲ کے سپرد نہیں کرنا چاہتا۔شاید اسے اس پر
یقین نہیں جیسے کہ پرندوں کو ہے۔
انسان اپنی فطرت سے کتنی دور نکل آیا ہے۔ فطرت سے دوری اپنے آپ سے دوری
ہے۔اپنے آپ سے دوری انسان کو پریشان کر دیتی ہے۔ وہ اپنا وجود ڈھونڈنے لگتا
ہے لیکن اس کا وجود اسے کہیں نہیں ملتا۔ سوائے فطرت میں واپس آنے سے۔ فطرت
میں واپس آنا اس کو اپنے آپ سے ملاتا ہے۔ اور اپنوں سے مل کر جو خوشی ہوتی
ہے اس کی انتہا اپنے آپ سے مل کر ہو گی۔ پھر انسان بہت سی ذہنی، جسمانی،
روحانی اور معاشرتی پریشانیوں سے نجات پا لے گا۔
ہم یہ بات اپنے پورے یقین سے کہہ رہے ہیں کہ انسان کی پریشانیوں کا حل
پرندوں سے دل لگانے اور ان کے پاس رہنے میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔دوسرے
الفاظ میں ہمیں گھروں میں پرندے کا ساتھ رکھنا چاہئے۔
یہ پرندے جو ہمارے لئے اتنا کچھ کر سکتے ہیں تو کیا ہم بھی ان کے لئے کچھ
کر سکتے ہیں یا نہیں۔ یقیناً ہم ان کے لئے بہت کچھ کر سکتے ہیں لیکن بات
وہی خود غرضی کی ۔ ہمیں پرندوں کو اپنے شہروں اور گھروں میں واپس بلانا ہو
گا۔ کبھی ہر گھر میں درخت ہوتے تھے، ہر گھر میں پرندے چہچہاتے تھے۔ ذہنوں
کو خوش کر جاتے تھے۔ اب ہم نے ان کو دیس نکالا دے دیا ہے۔ ہمیں ان کی ضرورت
محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن یہ ظلم ہے،سراسر ظلم ہے۔ان بے زبان نہتوں کو ہم اپنے
گھروں میں پناہ دیں۔ان کو واپس اپنے منڈیروں پر بٹھائیں۔ہم اپنے گھروں کو
ایسا بنائیں جہاں پرندے بھی رہ سکیں۔ خاص طور پر امیر لوگ اس معاملے میں
بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ اپنی کو ٹھیوں میں کچھ جگہ ایسی بنائیں جہاں پرندے رہ
سکیں۔ان کو دانہ دنکا چاہے نہ ڈالیں وہ مزدور خود ہی کھا آیا کریں گے۔ لیکن
انہیں رہنے کی جگہ ہمیں ہی دینی پڑے گی کیوں کہ یہ کام وہ بے چارے خود نہیں
کر سکتے۔اسی طرح اگر حکومت مہربانی فرمائے کو بہت سی سرکاری عمارتوں کی
ڈیزائنگ ایسی ہونی چاہیئے کہ وہاں پرندے محفوظ طور پر رہ سکیں۔کسی ایسی چیز
کا وہاں پہنچے کا امکان نہ ہو جو ان کے لئے خطرہ ہو جیسے انسان ، بلی
وغیرہ۔ آج کل اکثر سرکاری عمارتیں ڈبل سٹوری کی شکل میں بن رہی ہیں۔ وہاں
تو پرندوں کی رہائش گاہیں بنانا اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔
شادی ہالوں اور بڑے ہوٹلوں میں سارا سال تقریبات منعقد ہوتی رہتی، بے تہاشا
اناج ضائع ہوتا ہے۔ اگر پرندوں کو رکھ لیا جائے تو ماحول میں کافی تبدیلی
آسکتی ہے۔
بڑے ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں پرندوں کو کوئی والی وارث نہیں
مل رہا۔ کاش کہ صاحبِ حیثیت لوگ اور خاص طور پر حکومت ان کے متعلق سوچے۔
صرف چڑیا گھر ہی پرندوں کے لئے کافی نہیں۔ وہاں تو ان پر خرچہ بھی کافی آتا
ہے۔ پرندوں کے لئے وسیع پیمانے پر کام کرنے اور منصوبے بنانے کی ضرورت ہے۔
ویسے بھی اگر ہم مذہبی حوالے سے بھی دیکھیں تو ایک حدیث پاک فرماتی ہے کہ
اگر کسی نے باغ لگایا اور اس کے باغ سے کسی پرندے نے کچھ کھا لیا تو یہ اس
کے حق میں صدقہ لکا جائے گا۔ جب ہمارا دین ہمیں اتنی بری اخلاقی سپورٹ دے
رہا ہے تو ہم کیوں اس نیک کام میں دل چسپی نہیں لیتے۔شاید اس کی وجہ بھی
وہی ہے جو باقی تمام اچھے کاموں کی ہے۔ لیکن انسان تو انسان ہے اپنا خسارہ
کسی نہ کسی طرح پورا کرنے کی کوشش کر لیتا ہے۔ لیکن بے چارے پرندے کہاں
جائیں۔وہ تو انسان کی طرح عیار یا سمجھدار نہیں ہے۔ ان کا تو سارا دورومدار
یا تو فطرت پر ہے یا انسان پر ہے۔اب اگر انسان اپنے آپ کی طرح فطرت کو بھی
خراب کرتا جائے گا تو ان بے سہاروں کا کیا بنے گا۔
پھولوں کو اگر فطرت کی زمینی شاعری کہا جائے تو بلا شبہ پرندے فطرت کی
فضائی شاعری ہیں۔شاعر کو اپنے معاشرے اور اپنے زمانے کی آنکھ کہا جاتا
ہے۔اگر دنیا کے کسی ادب سے شاعری نکال دی جائے تو باقی کیا بچتا ہے۔ شاعری
تو کسی بھی ادب کی روح ہے۔شاعروں کی تخیلاتی پروازوں نے تو انسان کو اتنا
متاثر کیا ہے کہ سائنس جیسے موضوع پر کام کرنے والوں نے شاعری سے تحریک
پائی ہے۔اس سے اس بات کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر اس شاعری کی
تمثیل یعنی پرندے خود ہی ہمارے ساتھ رہیں تو معاشرتی تخیل کو کتنی پرواز مل
سکتی ہے۔
انسان کے کتنے نفسیاتی مسائل صرف اور صرف پرندوں کی صحبت اختیار کرنے سے حل
ہو جائیں گے۔ صحبت کے اثر سے تو کوئی کافر بھی انکار نہیں کر سکتا، جس کا
کام ہی انکار کرنا ہوتا ہے۔اگر ہم ان بے چارے پرندوں کو سچ مچ اپنے دوست
بنا لیں تو دنیا جنت کا منظر پیش کرنے لگے گی۔ |
|