عموماََ میں بیشتر خبریں سرسری
پڑھ جاتا ہوں ، کیونکہ کچھ خبریں ایک جیسی ہوتی ہیں کچھ اسی طرح شرجیل میمن
وزیر اطلاعات سندھ کے ایک بیان پرمجھے مغالطہ ہوا کہ ’ میں جھاڑو لیکرخود
صفائی کرونگا ‘۔پہلے میں یہ سمجھا کہ شائد انکا مطلب یہ ہے کہ کراچی میں
جتنی ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری اوربد امنی ’ نامعلوم افراد‘ نے کی ہیں اور
کراچی سے امن و امان یکسر صاف ہوچکاہے شائد اس میں کچھ کمی رہ گئی ہے اس
لئے انھوں نے سوچا کہ رہی سہی کسر میں’ پوری‘ کرتے ہوئے ، رینجرز کی بھرپور
کوششوں کے بعد آنے والے باقی ماندہ امن پر جھاڑو پھیر دوں ۔تھوڑا پھر غور
کیا تو پتہ چلا کہ محترم کا ہفتہ صفائی کے ساتھ کوئی ایک لاکھ سے زائد پودے
اُس شہر کراچی میں لگانے کا دعوی بھی ہے، جس شہر کے باسیوں کو پینے کا پانی
اور جینامیسر نہیں۔
کچھ اسی سے ملتی جلتی مماثلت رکھتی صورتحال سندھ رینجرز کی بھی ہوگئی ہے کہ
کراچی میں کئی عشروں کے باوجود صرف اس لئے مکمل کامیابی حاصل نہیں کر پا
رہی کیونکہ ایک جانب انھیں پولیس کے بعض کرپٹ افسران و مخبر اہلکاروں کی
جانب سے آپریشن افشا اور سیاسی دباؤ کا سامنا رہا تو دوسری جانب عوام کی
جانب سے بھرپور تعاون بھی حاصل نہیں ہوسکا۔سچل رینجرز کے ایک افسر نے مجھ
سے گلہ کرتے ہوئے کہاکہ" ہم پر خودکش دہماکے ہوتے ہیں ، حملے ہوتے ہیں ،
اہلکار شہید ہوجاتے ہیں صرف اس لئے کہ ہم کراچی کے عوام کو امن فراہم کرنا
چاہتے ہیں ، ہم عوام سے کسی بات کا تقاضا نہیں کرتے کہ ہماری دعوت کرو ،
حکومت ہمیں سب کچھ دیتی ہے ہماری تو ہمیشہ یہ آرزو رہی ہے تو صرف شہادت کی،
ہمیں کسی سے کوئی ڈر نہیں ، موت تو آنی ہے ، شہادت کی آئی تو ایک گولی سینے
پر کھانے کے لئے تیار ہیں ، لیکن معذرت کے ساتھ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ
حساس و متاثرہ علاقوں کی مظلوم عوام ہمارے ساتھ اُس طرح تعاون نہیں کرتی کہ
ہم انھیں جلد از جلد امن مہیا کرسکیں۔ہم اپنے لئے تو کچھ نہیں کر رہے بلکہ
ان کی موجودہ اور آنے والی نسل کو بچانا چاہتے ہیں"۔
رینجرز کے اس افسر کے جذبات وطن کی محبت اور کراچی سے ایثار سے لبریز تھے،
میرے پاس صرف یہی جواب تھا کہ عوام کئی عشروں سے خوفزدہ ہے انھیں وقت لگے
گا ، لیکن کیا ، کیا جائے کہ ہمارے علاقوں میں چند عناصر ، ایسے بھی ہیں جن
کا طریق کار عجیب سا ہے کہ آدھا تیتر آدھا بیٹر، بعض سرکاری افسران یا
اہلکاروں سے ذاتی تعلقات کا بھرم دیکر اپنی زندگیوں کو بھی غیر محفوظ بنا
لیتے ہیں اور جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں اپنی زندگیوں سے محروم ہوجاتے
ہیں۔سب سے اہم بات یہ بھی کہ کوئی عام شریف شہری اس بات سے خوفزدہ رہتا ہے
کہ اگر اس کے بارے میں شر پسند کو پتہ چل گیا تو اسے جان کا خوف ہوگا۔
لہذاوہ اپنی ایک جان بچانے کیلئے لاکھوں انسانوں کی جان خطرے میں ڈال دیتا
ہے، اس کا حل بھی رینجرز نے ڈھونڈ نکالا اور 1101کے ایس ایم ایس SMSکی ایسی
سروس شروع کی جس میں اطلاع دینے والے کا نام اور دیگرمعلومات صغیہ راز میں
رکھی جاتیں ہیں اور ایک انسانی فریضہ بھی پورا ہوجاتا ہے کہ ظلم کے خلاف
آواز اٹھاؤ ، چاہے ہاتھ سے ، زبان سے یا کم ازکم دل میں بُرا جانو ، لیکن
یہ ایمان کی سب سے کمزور علامت ہے۔ظلم و نا انصافی کے خلاف ہاتھ سے آواز
اٹھانا ، ایمان کے اولین درجے میں شمار کیا جاتا ہے اور میں اپنی ناقص رائے
میں ہاتھ سے لکھے ایک چھوٹے سے ایس ایم ایس سے جرائم پیشہ عناصر کی نشاہدہی
کرنے والوں کی جرات کا پہلا درجہ سمجھتا ہوں ، برائے مہربانی ایسے اپنی
ذاتی دشمنی ، مخاصمت اور فروعی مقاصد کیلئے استعمال نہ کریں ۔ رینجرز جس کا
کام سرحدوں کی حفاظت کرنا تھا ، ایسے سیاست میں بار بار لانے کی کوشش کی
جاتی رہی ، دوسرے لفظوں میں کہا جائے کہ سیاسی بنانے کی کوشش ، وہ بھی منظم
انداز میں کی جاتی رہتی ہے تو کوئی اس سے اختلاف نہیں کریگا ۔ ذاتی تجزئیے
کے مطابق کراچی بد امنی کے حوالے سے جب کسی بھی ملزم کیخلاف جے آئی ٹی،
(جوائنٹ انسٹی گیشنٹیم) کی رپورٹ بنتی ہے تو اس میں ملک کے مقتدور اداروں
کے قابل افسران شامل ہوتے ہیں ، جس میں ملٹری اینٹلی جنس ( ایم آئی ) انٹر
سروس اینٹلی جنس،(آئی ایس آئی) اینٹلی جنس بیورو(آئی بی )، رینجرز،کرینمل
انوسٹی گیشنڈیپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) اور پولیس اسپیشل برانچ کی ایجنسیوں کے
اعلی افسران شامل ہوتے ہیں اور باقاعدہ رپورٹ پر ان کے دستخط ہوتے ہیں اور
اس رپورٹ کو خفیہ رکھی جاتی ہے لیکن کسی نہ کسی طریقے سے اس کے کچھ حصے
ذرائع ابلاغ میں آجاتے ہیں جیسے اس کی ایک مثال’ کراچی بد امنی سپریم کورٹ
کیس‘ میں ایک قوم پرست جماعت کی جانب سے 23 جے آئی ٹی رپورٹس کو باقاعدہ
کتابی شکل میں میڈیا میں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا بریفنگ میں تقسیم کیا
گیا جو سپریم کورٹ میں بھی جمع کرائی گئی تھی نیز بعض اہم سینئر صحافیوں
اور اینکرز پرسنز کو وہ مخصوص رپورٹس فرمائش پربذریعہ ای میل مہیا کی گئی
جو آن ائیر براہ راست نشر کی گئیں، یہ رپورٹس سابق وزیر داخلہ سندھ نے
کراچی سے دبئی جاتے ہوئے فلائٹ میں ہی ، قومی اسمبلی کی سابق اسپیکر کی
سرکاری آفیشل فائل میں اپنے بریف کیس سے ایک ایسے سیاسی لیڈر کے حوالے کی
جس کے مرکزی لیڈر نے اسلام آباد سے کراچی بد امنی کیس میں فریق بننے کی
درخواست کرتے ہوئے معروف وکیل کو مقرر کرکے کراچی بھیجا ۔
دراصل جے آئی ٹی رپورٹ اس وقت تک بلیک رہتی ہے ، جب تک عدالت سے وہ ملزم
رہائی نہیں پا جاتا ، اگر عدالت اُسے رہا کردیتی ہے تو وہی جے آئی ٹی رپورٹ
وائٹ قرار دے دی جاتی ہے، ناکامی کو پولیس تفتیشی افسرا ن کی کوتاہی یا
گواہان و مدعیان کی عدم موجودگی یا مدعی یا گواہان کو قتل کروانے کے بعد
مقدمے کا فیصلہ عدم ثبوت پر حاصل کرنا بھی کہا جاسکتا ہے۔اب ہم اس بات کو
کیسے ہضم کرلیں کہ کسی ایک ادارے کے کسی ایک شخص یا گروہ کو تو کسی سے ذات
پرخاش ہوسکتی ہے لیکن تمام ادارے بیک وقت کسی ملزم کے خلاف براہ راست دشمنی
کیونکر کرسکتے ہیں ، اس کا واضح مطلب تو یہی نکلے گا کہ اگر اُس رپورٹس پر
یقین نہ کیا جائے اور فوج آئی ایم ، آئی ایس آئی ، رینجرز ،آئی بی ، سی آئی
اے اور پولیس کی اسپیشل برانچ کی استعداد کار اور اہلیت پر یقین ہی
نہیں۔جیسے دوسرے معنوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے وجود اور
قابل اعتماد اداروں کو تسلیم نہیں کرتے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ رینجرز
کے بعض اہلکاروں سے کچھ ایسی غلطیاں بھی ہوئیں ہیں ، جس پر رینجرز کے اعلی
افسران کوبذات خود مداخلت کرنا پڑی علاوہ ان پر ماضی و حالیہ عرصے میں بعض
اراکین صوبائی و قومی اسمبلی و سیاسی مذہبی جماعتوں نے ماورائے عدالت قتل
کے الزامات ، چادر و چار دیواری کے تقدس کی پامالی کے ساتھ ان کے آپریشن کے
طریق کار پر اعتراض کیا ،خاص طور پر اُس وقت جب جب پوری کی پوری آبادی کے
مرد حضرات کو کھلے میدانوں میں قمیض اتروا کر اوندھا کردیا جاتا اور شناخت
کے بعد مخصوص افراد کو حراست میں لیکر تفتیش کے بعد پولیس کے حوالے کردیا
جاتا، پولیس اس کی ایف آئی آر درج کرکے مقدمے کا موجودہ سست عدالتی نظام کے
ساتھ جو حال کرتی ہے اسکا حال سب کو معلوم ہے۔جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد اب
اُن کو حراست میں لیا جانے لگا جن کے حوالے سے انھیں انفارمیشن ملتی، یہاں
بھی یہ دیکھا گیا ایسے افراد جو بے گناہ تھے ، انھیں تین دن ، سات دن بعد
ازخود بغیر سفارش کے رہا کردیا جاتا۔آئین نے رینجرز کو نوے دن قانونی مہیا
کئے ہیں ،ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر رینجرز کے اہلکار حراست میں لئے جانے
والے افراد کو اسی قانون کے تحت گرفتار کرکے تفتیش کرے تو اس ملزم کے
لواحقین ، کو اطمینان ہوگا کہ اگر بیگناہ ہوا تو بغیر کسی سفارش یا دباؤ کے
چھوڑ دیا جائے گا ، ورنہ عدالت میں پیش کرکے ٹھوس شواہد کے ساتھ اس کے خلاف
کاروائی ہوگی۔
حکومت سندھ رینجرز کو سیاسی دباؤ میں لانے سے گریز کرے اور انھیں ، ان کا
کام کرنے دیں ،اب رینجرز کو پانی کی سپلائیوں کی بحالی، ہائیڈرینٹ ، گھریلو
جھگڑوں کو حل کرنے، نچلی سطح اور سیاسی مسائل میں الجھانے کے بجائے ان کا
مورال بلند کرنے کیلئے پولیس کے محکمے سے بد عنوان اور کرپٹ افسران کی
تعیناتی اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی اہلکاروں کی تطہیر کیلئے دی گئی ایپکس
تجاویز کو یقینی عمل درآمد بنانے میں کچھ وقت کیلئے کچھ فروعی مفادات کو پس
پشت ڈال دیں اور سیاسی ریٹنگ بڑھانے کو کچھ عرصے کے لئے بھول جائیں۔ |