اعتراف حقیقت

وزیر داخلہ چوہدری نثار نے امریکا میں دہشت گردی پر پاکستان کا دو ٹوک موقف واضح کرتے ہوئے کہاہے کہ دہشت گردی کے زخم کھائے ہیں نائن الیون سے کوئی تعلق نہیں تھا اسی دن سے پاکستان کے حالات خراب ہیں پاکستان میدان جنگ بنا دیا گیا پچاس ہزار سے زائد جانیں قربان کیں شدید مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں دہشت گرد اسکول اور عبادت گاہیں بند کرنے پر تل گئے قربانیاں دینے کے باوجود پاکستانی خوف زدہ نہیں لیکن ہماری قربانیوں کا ادراک نہیں کیا جارہا عالمی برادری سے تعاون کی اپیل کرتے ہیں عالمی برادری پاکستان کی قربانیوں کی قدر کرے ،پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہے اپنے ملک میں ہی نہیں پورے خطے میں امن وسلامتی چاہتے ہیں۔مندرجہ بالا بیان پاکستان کے وزیر داخلہ نے انسٹیوٹ آف پیس واشنگٹن امریکہ میں اپنے خطاب میں گذشتہ دنوں دیا ،اس بیان پر تبصرہ کرنے کی اشدضرورت ہے آیا کہ یہ بیان ایک ایٹمی پاکستان کے وزیر داخلہ کا ہے یا ایتھوپیا کے وزیر داخلہ کا ،جس میں بے بسی،کم ہمتی،درخواست ہی درخواست نظر آہی ہے نہ کو ئی لائحہ عمل ہے اور نہ ہی کوئی عزم صمعیم ۔۔۔۔۔یہ بے بسی پر مبنی بیان ایک ایسے فورم پر دیا گیا جو عالمی ساہو کاروں کا فورم ہے جس میں یہود دوہنود کے نمائندے ہی طاقت ور سیٹوں پر براجمان ہیں ایسے پلیٹ فارم سے اسلامی دنیا کے واحد ایٹمی صلا حیت کے حامل ملک پاکستان کے و زیر داخلہ کا بیان جرأت مندانہ ہونا چاہیے تھا وزیر داخلہ کو یہ حقیقت بیان کرنی چاہیے تھی کہ امریکہ واسطہ یا بلا واسطہ پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے امریکہ اپنے حواری بھارت کو لگام دے کر رکھے جس کی آشیرباد سے پاکستان مشکلات کا شکار ہے اگر امریکہ نے بھارت اور دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی ختم نہ کی تو پاکستان امریکہ سے اپنی راہیں جدا کرسکتا ہے ۔برکیف پھر بھی وزیر داخلہ کے بیان سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حالت کے ذمہ دار امریکہ اور اس کے حواری ہیں لیکن اس کا دوٹوک الفاظ میں اظہار نہیں کیا گیا آخر کیوں؟ نائن الیون کے بعد پاکستانی تاریخ کے بدترین حکمران،ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے بزدلی پر مبنی پالیسی اپناتے ہوئے قومی مفادات کا بھی خیال نہ رکھا اس کے بعد آنے والے حکمران بھی اسی پالیسی پر گامزن رہے جس کے نتیجے میں افغان جنگ کو ایک منظم سازش کے تحت پاکستان میں امریکہ ہی نے دھکیلا۔پاکستان نے جب حد سے بڑھ کر خدمات پیش کیں تو اس کاصلہ سودی قرضوں،قتل وغارت گری،بم دھماکوں،خود کش حملوں،پاکستان کو ناکام ریاست بنانیوالے گروہوں کی پیداوار،امریکی ڈرؤن حملوں کی صورت میں ملا ۔ اور اتنی زیادہ خدمات کے باوجود پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی روایت ختم نہ ہوئی ۔۔۔جس کا اظہارواشگاف الفاظ میں اعتراف پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے امریکہ میں اپنے خطاب کے دوران کیا ہے، انہوں نے اپنے خطاب میں یہود ونصاریٰ سے ایک بھیک مانگی ہے کہ خدارا !ہماری قر بانیوں کی قدر کی جائے۔۔۔اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ کوئی صاحب فہم وفراست ہمارے حکمرانوں کو سمجھائے کہ قدر مانگ کر تھوڑی حاصل کی جاتی ہے قدر تو دل میں خود بخود ہی پیدا ہوتی ہے جب کسی کا سربراہ،آقا ،سرپرست ا پنے ملازم،غلام ،ماتحت کی خدمات کی طرف نگاہ دوڑاتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ یہ خدمات قابل قدر بھی ہیں یا نہیں۔اگر قابل قدر ہوں تو اس کے دل میں ان خدمات کی قدر پیدا ہو جاتی ہے اگر ان خدمات کا معیار اس قدر بلند نہ ہو تو قدر کے پیدا ہونا ممکن نہیں ہوتا۔انتہائی اہم تیسری صورت یہ ہوتی ہے کہ اگر سربراہ ، آقا،سرپرست کی ذہنیت منافقت سے بھر ی ہوئی ہو تو اس کا ماتحت جتنی مرضی اعلیٰ خدمات سرانجام دے دے اس کے دل میں خدمات کی قدر کرنے کا داعیہ پیدا ہو جائے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔۔ اب پاکستان کی امریکہ کے لئے سرانجام دی گئی خدمات کا معیار کیا ہے ؟ اس کا علم پاکستان کے حکمرانوں کو ہے یا امریکہ بہادر کو، میرے نزدیک پاکستان کے ساتھ امریکہ کی کیفیت تیسری صورت والی ہے امریکہ یہ کیفیت تبدیل نہیں ہوسکتی اس لئے کہ مسلمانوں کی آسمانی،لاریب کتاب قرآن مجید مسلمانوں کو اس سلسلے میں مکمل رہنمائی کرتی ہے جس کا یہاں اعادہ ضروری سمجھا جا رہا ہے اﷲ کا کلام قرآن کہتا ہے کہ یہود ونصاریٰ تمہارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے اور نہ ہی (کبھی تمھاری کسی بھی خدمت پر) تم سے راضی ہوں گے تم سے یہ عیسائی اور یہودی اس وقت تک خوش نہ ہوں گے جب تک تم عیسائی یا یہودی نہ بن جاؤ گے۔(القرآن)اس قرآنی فیصلے کے بعد یہودونصایٰ سے اپنی خدمات کی بھیک مانگنا،خیر کی توقع رکھنا عبث ہی عبث ہے۔ وزیر داخلہ کا حالیہ بیان ایک لحاظ سے حقیقت کا اعتراف بھی ہے کہ عالمی دنیا (یہودونصاریٰ )پاکستان کی جدوجہد کو کسی خاطر میں نہیں لا رہی ۔پاکستان سمیت مسلم دنیا کے ارباب اقتدار سے گذارش ہے کہ جب تمھاری حتمی آئین وقانون کی کتاب قرآن حتمی فیصلہ دے رہی ہے کہ یہودونصاریٰ کو دوست ہی نہ بناؤ یہ تمھارے دوست ہو ہی نہیں سکتے ،تو انھیں دوست بنا کر ہم نے اﷲ ورسول ﷺ کی مخالفت کی،اوپر سے ان منافقین کے اتحادی بھی بن گئے جن سے صلہ ایک مسلمان کو مل ہی نہیں سکتاتو خدمات کی قدر کرنے کا مطالبہ کیا معنی رکھتا ہے؟ ۔۔۔۔ جب تک ہم مسلمان اﷲ ورسول ﷺ کے فیصلوں کو مدنظر رکھ کر اپنے اجتماعی فیصلے نہیں کریں گے تب تک ہم نام نہاد عالمی طاقتوں(درحقیقت عالمی دہشتگردوں) کے سامنے ایسے ہی بے بس رہیں گے اﷲ سے دعا ہے کہ اے رحیم وکریم اﷲ! تو ہم مسلمانوں کو ایسا حکمران عطاء فرماء جو امت پر فیصلے قرآن وسنت کے مطابق لاگو کرسکے ۔اے اﷲ ایسا حکمران عطاء فرماء جو تیرے فیصلے کو نافذ کرتے وقت کسی ملامت گر کی ملامت،کسی دنیا وی فرعون کی فرعونیت سے خائف،مرعوب نہ ہو۔ ا ے اﷲ! تو ہمیں صرف اپنے سے ڈرنے ولا حکمران عطاء فرماجو تیری مخلوق سے اس طرح محبت کرے جیسے تو چاہتا ہے(امین ثم امین)
 
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 269971 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.