ریاستوں کے متعلق یہ ایک عمومی
تصور اور رجحان ہے کہ ریاستی مقاصد کے حصول کے ذرائع ،طریقہ کار میں تبدیلی
لائی جا سکتی ہے لیکن ریاست کے نظریات ،اس کے مقاصد اعلی کو فراموش نہیں
کیا جا سکتا۔لیکن اب یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ آدھا پاکستان کھونے کے بعد وہ
کون سے منفی اہداف ہیں جو انھطاط پزیری کی نئی گہرائیوں کی دریافت میں
معاون ہو سکتے ہیں۔ملک میں طویل المدت منصوبہ بندی کی ضرورت محسوس کرتے اور
ملک کو محدود مدت کے منصوبوں پر چلتے دیکھتے آنے والے عوام حیران و پریشان
ہیں کہ قیام پاکستان کے مقاصد کو فراموش کرتے ہوئے پاکستان کو کن نئے اہداف
کی تلاش میں سرکرداں کیا جا رہا ہے؟
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے امریکہ میں دہشت گردی کے موضوع پر
تین روزہ عالمی کانفرنس کے اختتام پر صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ
کانفرنس میں شریک رہنماؤں نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کے موقف سے
اتفاق کیا ہے، کانفرنس میں اس بات پر بھی اتفاق پایا گیا کہ صرف فوجی طاقت
کے ذریعے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے اس موقع پر فلسطین
اور کشمیر کا خصوصی حوالہ دیا اور کہاکہ شدت پسندی اور عسکریت پسندی کے
فروغ میں ان دو بنیادی مسائل نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے، ان تنازعات کا
حل ضروری ہے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ اسلام آباد جا کر حکومت کو علاقائی
کانفرنس منعقد کرنے کی تجویز دینگے جس میں جنوبی ایشیائی اور علاقائی ممالک
دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے جامع منصوبہ بندی کے حوالے سے بحث میں حصہ
لینگے۔ وزیر داخلہ نے امریکی حکام سے ملاقاتوں کو نہایت مثبت قرار دیا اور
کہا کہ عالمی برادری کے ارکان کیساتھ تعلقات امریکہ کا استحقاق ہے لیکن
بھارت کیساتھ اس کے بعض معاہدوں سے پاکستان متاثر ہو رہا ہے۔ امریکہ کیلئے
ضروری ہے کہ خطے میں سٹریٹجک توازن برقرار رکھے۔بھارتی سیکرٹری خارجہ کے
متوقع دورہ پاکستان سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم’’
بلیم گیم ‘‘کے بجائے بھارتی سیکرٹری خارجہ کیساتھ کھلے ذہن کیساتھ ملیں گے
اور ہم توقع رکھتے ہیں کہ بھارت بھی خطے میں دیرپا امن کیلئے اس طرح مثبت
جذبے کا مظاہرہ کریگا۔خطے کے ہمسایہ ملک کا مسئلہ اٹھایا ہے جو پاکستان کو
پھلتے پھولتے دیکھ نہیں سکتا۔ اس بات کے شواہد بھی ہیں کہ اس نے دہشت کی آگ
بھڑکانے میں منفی کردار ادا کیا۔ چودھری نثار نے کہا کہ پاکستان دنیا میں
دیرپا امن کیلئے سیاسی تنازعات سمیت دہشت گردی کے اسباب کے خاتمے کا
خواہشمند ہے۔وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ خطے میں ایک ہمسایہ ملک پاکستان کو
پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتا، امریکہ کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف ا امریکہ میں ہونے والی عالمی کانفرنس کے کیا نتائج
برآمد ہو ں گے اور دہشت گردی میں الجھے ممالک کو امریکی تعاون کس حد تک ملے
گا،اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گاتاہم پاکستان کے لیئے یہ بات بہت اہم ہے کہ
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی تعاون کی ’’ مقدار اور سطح‘‘ کیا رہے
گی۔کیونکہ پاکستان کو درپیش دہشت گردی کی جنگ میں ہمسایہ ممالک افغانستان
اور بھارت کی طرف سے پیدا کردہ صورتحال بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں
معاون ہے۔پاکستان امریکہ سے یہ توقع بھی کرتا ہے کہ وہ پاکستان اور
افغانستان میں اچھے تعاون پر مبنی تعلقات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ بھارت
کی طرف سے پاکستان میں بدامنی،دہشت گردی کرنے والے گروہوں کو مددکا بھی سخت
نوٹس لیا جائے۔وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار احمد نے کانفرنس میں پاکستان
کی نمائندگی کرتے ہوئے اس اہم عالمی کانفرنس میں سرکاری موقف پیش کیا۔وزیر
داخلہ کیا یہ کہنا کہ ’’ وہ اسلام آباد جا کر حکومت کو علاقائی کانفرنس
منعقد کرنے کی تجویز دینگے جس میں جنوبی ایشیائی اور علاقائی ممالک دہشت
گردی کے مکمل خاتمے کیلئے جامع منصوبہ بندی کے حوالے سے بحث میں حصہ
لینگے‘‘ ، سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا امریکی مشورے پر کیا جا رہا
ہے۔بلاشبہ جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے جامع منصوبہ
بندی سے خطے میں بہتری کی جانب مائل ہوا جا سکتا ہے لیکن اس میں بڑا مسئلہ
یہ ہے کہ بھارت دہشت گردی کے حوالے سے اپنے توسیع پسندانہ اور جابرابہ تسلط
کو دوام بخشنے کی کوشش کرتا ہے۔بھارت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت
گردی قرار دینے کی مسلسل کوشش کرتا چلا آ رہا ہے جبکہ کشمیریوں کی جدوجہد
اور ان کا حق آزادی خودبھارت سمیت عالمی برادری نے ناصرف تسلیم بلکہ
آزادانہ عوامی طور پر رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا
فیصلہ کرنے کے موقع کا وعدہ کر رکھا ہے۔بھارت تو اس بات کو تسلیم نہیں کرتا
لیکن عالمی برادی کو اس بات کا ادراک کرنا چاہئے کہ گزشتہ67سال کے دوران
بھارت فوجی طاقت اور بے شمار سازشوں سمیت ہر حربہ استعمال کرنے کے باوجود
مسئلہ کشمیر کو اپنی من مانی تاویل کے مطابق حل کرنے میں ناکام رہا ہے،
مقبوضہ کشمیر کے حالات و واقعات،بھارتی ظلم و جبر،کشمیریوں کی آزادیوں پر
قدغن،مقبوضہ کشمیر کو ایک کھلی جیل بنا دینا، ان معاملات پر پاکستان کی
خاموشی سے بھی کشمیر کا مسئلہ بھارت کے حق میں حل نہیں ہوتا۔اس عالمی
کانفرنس کے موقع پر یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اب پاکستان مسئلہ کشمیر اور
کشمیریوں پر بھارتی مظالم سے نظریں چراتے ہوئے اس بات کی شکایت کر رہا ہے
کہ بھارت پاکستان میں مسائل پیدا کر رہا ہے۔
وزیر داخلہ نے دو عالمی مسائل کے طور پر کشمیر اور فلسطین کا نام لیا لیکن
پاکستانی نمائندے کی ایک طرف ایک جملہ بھی ایسا ادا نہیں کیا گیا کہ جس سے
پاکستان کے اپنے مسئلے کے طور پر تنازعہ کشمیر کا ذکر کیا جاتا اور نہ ہی
کشمیر میں بھارتی مظالم پر پاکستان کے لئے مسائل پیدا ہونے کی بات کی
گئی،نہ ہی یہ بیان کیا گیا کہ مسئلہ کشمیر کا پرامن اور منصفانہ حل پاکستان
کی سلامتی اور بقاء کے لئے کتنی اہمیت کا حامل ہے۔جب آپ خود مسئلہ کشمیر کو
اپنے ایک سنگین مسئلے کے طور پر بیان کرنے کے بجائے مسئلہ کشمیر کا تذکرہ
محض ایک عالمی مسئلے کے طور پر کریں گے تو پھر کشمیریوں کے لئے پاکستان کی
’’وکالت‘‘ کہا ں گئی،اورپاکستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے ان حریت پسند
عوام سے کئے گئے وعدے کہاں گئے جو نسل در نسل جدوجہد کرتے ہوئے قربانیاں دے
رہے ہیں۔آج پاکستان ہمیں مسئلہ کشمیر پر پسپائی اختیار کرتے کشمیر کاز کے
حوالے سے خاموشی،لاتعلقی کا انداز اپنائے نظر آتا ہے۔کیا یہ مناسب نہیں
ہوتا کہ وفاقی وزیر داخلہ اس عالمی کانفرنس میں مسئلہ کشمیر کا ذکر پاکستان
کو درپیش ایک سنگین ترین مسئلے کے طور پر کرتے؟پاکستان کا کشمیر سے متعلق
پیغام دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا؟ہمارے خیال میں پاکستان کے ’’ ارباب
اختیار‘‘ نے مسئلہ کشمیر کی سنگینی اور اس کے حل کی اہمیت کو دنیا کی توجہ
کے لئے سامنے لانے کا ایک اہم موقع ہی نہیں کھویا بلکہ اصل میں پاکستان کی
اس بنیادی پالیسی کا رخ تبدیل ہو جانے کو واضح کیا ہے جس کے اشارے پاکستان
کے ’’وار ڈاکٹرائن‘‘ میں تبدیلی اور پاکستان میں ’’حاکمیت و اختیار‘‘ کی
تقسیم کی نئی حد بندیاں قائم ہونے سے ملتے ہیں۔ملک میں قائم کردہ ریاستی
تقسیم اختیارات کی نئی حد بندیوں میں مسئلہ کشمیر کا مستقبل کیا ہو گا
،ابھی یہ واضح ہونا باقی ہے۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 1948ء میں قومی اسمبلی میں اس
سوال کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کیا ہے؟ کے جواب میں کہا تھا کہ پاکستان
کی کشمیر پالیسی وہی ہے جو پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفر اﷲ خان نے اقوام
متحدہ کی سلامتی کونسل میں تقریریں کی ہیں،لیاقت علی خان نے اس تقاریر کو
پاکستان کی کشمیر پالیسی سے عوامی آگاہی کے لئے اسے اردو اور بنگالی میں
شائع کرانے کو بھی کہا تھا۔واضح رہے کہ جب سرظفر اﷲ سلامتی کونسل جانے لگے
و قائد اعظم محمد علی جناح نے ان کی تقریر منگوائی اور شدید علالت کے
باوجود تمام رات جاگ کر پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ میں کشمیر کے بارے
میں تقریر تیار کی اور وہی پانچ گھنٹے کی تقریر وزیر خارجہ نے سلامتی کونسل
میں پیش کی۔آج وہ تقریر پاکستان میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی جسے پاکستان
کی کشمیر پالیسی قرار دیا گیا تھا۔فرق ہمارے حکمرانوں کی سوچ اور’ اپروچ‘
میں ہے،فرق ان کے کردار میں ہے،بانی پاکستان،گورنر جنرل شدید بیماری کے
باجود تمام رات جاگ کر کشمیر پر پاکستان کے موقف کو خون جگر سے تیار کرتے
ہیں اور آج کے ہمارے’’ کرتا دھرتا‘‘ حکمران مسئلہ کشمیر کو محض ایک عالمی
مسئلے کے طور پر ہی دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اس حکمران طبقے کی ترجیحات
میں مسئلہ کشمیر پاکستان کے اپنے مسئلے کے بجائے ایک عالمی مسئلے کے طور پر
شامل ہے جہاں خود پاکستان کی کشمیر کے حوالے سے کوئی ذمہ داری نظر نہیں آتی
اور اگر آتی بھی ہے تو پاکستان کو دباؤ میں اور مجبور ظاہر کیا جاتا ہے۔اہل
عقل و دانش پریشان ہیں کہ ملک کے نئے اہداف کا تعین کس کے جذبات اور امنگوں
کی ترجمانی ہے؟کیا کشمیر کی موجودہ جبری تقسیم کو دوام بخشتے اور کشمیریوں
کے المناک مصائب کو نظرانداز کرتے ہوئے خوشحال پاکستان اور ترقی یافتہ
ہندوستان کی توقع کی جا سکتی ہے؟اس کا فیصلہ انہیں کرنا ہی ہو گا جو اپنے
ملک،خطے میں بہتری کے خواہاں ہیں۔ |