ٰٰٓٓ28جنوری سے کیا وکلاء کی
احتجاج کی کال واقعی گیڈر بھبکی ہے.....؟
این آر اُو +حکومت+وکلاء اور پریشان حال عوام
عوام تو ملک سے مہنگائی کا خاتمہ چاہتی ہے وکلاء برادری اِس کی ہڑتالیں
کریں
لیجئے جناب! ابھی وکلاء برادری اپنی ملکی تاریخ کی ایک طویل ترین احتجاجی
تحریکوں اور ہڑتالوں کے اختتام کے بعد ذرا دم بھی نہیں لینے پائی تھی کہ
وکلاء برادری نے ملک میں کالعدم این آر اُو کا تفصیلی فیصلہ آجانے کے بعد
ایک بار پھر بھرپور طریقے سے عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کے
لئے28جنوری کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے یہ جواز پیش کیا ہے کہ
حکومت عدلیہ سے محاذ آرائی کررہی ہے اور وزیر اعظم کا صدر کو مستثنیٰ قرار
دنیا عدالتی فیصلے سے انحراف ہے اور ایسے ہی کئی اہم معاملات پر وکلاء
برادری نے حکومت کو 13 فروری کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے خبردار بھی کیا ہے کہ
اگر عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو پھر وکلاء کو سڑکوں پر آنے سے
کوئی نہیں روک سکتا اِس سلسلے کی ابتداء 28جنوری سے ملک گیر ہڑتال سے کی
جائے گی۔ اِسے کسی حد تک ضرور تسلیم کرنا ہوگا کہ گزشتہ دو سالوں سے وکلاء
برادری جو اپنے ایک منظم اور مثالی اتحاد اور یکجہتی کی بدولت ایک نئی قوت
بن کر ملک کے طول ُ ارض سے اُبھری ہے اِس نے اِسی بنا پر تو اپنے کئی ایک
مطالبات حکومت سے ضرور منوالئے ہیں مگر اَب اِس کا یہ ہرگز مطلب تو نہیں کہ
یہ وکلاء برادری ہر اپنے اور حکومتی معاملات کو بجائے افہام و تفہیم سے حل
کرنے کے الٹا ہڑتالوں اور احتجاجوں کا سہارا لے کر سڑکوں پر آجائے اور ہر
حساس معاملے کو یوں حل کرے اور کروائے جیسے ملک کی سیاسی جماعتیں اور اِن
کے کارکنان کروایا کرتے ہیں۔
جبکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اِنہیں اپنے اہم اور ذمہ دار پیشے سے تعلق کی
بنا پر یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ اِس سے اِن کا اپنا امیج کتنا متاثر ہوگا ؟
اور کیا اِس بات کا انہیں کوئی احساس ہے کہ نہیں وکلاء برادری اِس بابت
کیوں ہڑتال اور احتجاج کرنے پر تلی ہوئی ہے کہیں اِس لئے تو نہیں کہ اِنہیں
اِس کامیابی کے بعد کوئی میڈل مل جائے گا یا اِن کی شان بڑھ جائے گی .....یہاں
میں اِس وکلاء برادری سے یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ ملک سے مہنگائی کے فوری
خاتمے اور غریب آدمی کے سستے آٹے اور چینی کے حصول کے لئے اپنی ہڑتالیں اور
احتجاجوں کی کال کیوں نہیں دے رہی ہے جس کا براہ راست تعلق ملک کی ایک بڑی
آبادی والے طبقے غریب عوام کے بنیادی مسائل سے ہے۔ ملک سے غریب کے مسائل کے
فوری حل کے لئے بھی تو وکلاء برادری کچھ کرے یا جو کچھ بھی کرنا ہے بس اپنے
ہی لئے کرتے رہنا ہے۔
جبکہ اُدھر وکلاء برادری کی جانب سے28جنوری کی ملک گیر ہڑتال کی دی جانے
والی کال اور حکومت کو دی گئی 13فروری کو ڈیڈ لائن کے حوالے سے پاکستان
پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات فوزیہ وہاب نے اِس بات کا برملا
اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وکلاء کی طرف سے احتجاج کا اعلان صرف گیڈر
بھبکیاں ہیں اور اِس کے علاوہ اِن کا یہ بھی کہنا ہے کہ وکلاء کسی بھی
سیاسی پارٹی سے زیادہ طاقتور نہیں اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے وکلاء
برادری کو یہ بھی باور کرایا کہ اَب فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں گے سڑکوں پر
نہیں۔ اور اِس کے ساتھ ہی اِس حوالے سے لاہور کے پولو کلب میں میڈیا سے
اپنی ایک خصوصی گفتگو کے دوران وزیراعظم کے مشیر برائے قانونی امور و سابق
اٹارنی جنرل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ حکومت این آر اُو پر عدلیہ سے محاذ
آرائی نہیں چاہتی اور اگر وکلاء کو ہڑتال کرنے یا اور کچھ کرنے کا ارادہ ہے
تو وہ یہ شوق پورا کرلیں۔
اِس کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں کہ وکلاء برادری کو جذبات کے بجائے ہوش سے
کام لینا چاہئے یوں ہر ذرا ذرا سے معاملے میں ہڑتال اور احتجاج کا سہارا لے
کر سڑکوں پر آنے سے نہ صرف اِن کی ساکھ متاثر ہوگی بلکہ اور بہت سے معاملات
بھی بگڑنے کے امکانات ہیں۔ بہرحال یہ بات آج سب کو اچھی طرح ذہن نشین رکھنی
چاہئے کہ ملک میں جمہوری عمل کو چلانے کے لئے سب کو اپنا اپنا ایک تعمیری
کردار ادا کرنا ہے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا کہ جس سے ملک میں اِس
جمہوری عمل کو کوئی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔
اور اِس کے ساتھ ہی اِس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں آنے
والی ایک دو دن کی لولی لنگڑی نئی جمہوری حکومت اِس ملک میں رائج آمریت کی
کسی بھی طویل ترین حکومت سے لاکھ درجے بہتر ہوتی ہے اور اِن دنوں چوں کہ
ہمارے ملک میں بھی کچھ ایسی ہی جمہوری حکومت قائم ہے جِسے ایک میں ہی کیا
ملک کی ایک بڑی اکثریت اِسے نو سالہ دورِ آمریت کے مقابلے میں دو دن کی
بہترین جمہوری حکومت سے تعبیر کررہی ہے۔
اور اِب جبکہ اِن دنوں جہاں تک ہماری سماعت کام کرتی ہے ملک میں رائج اِس
لولی لنگڑی جمہوریت کے اچھے اور بُرے اور ظاہر اور باطن کئے گئے کاموں کے
چرچے بھی ہر طرف سے ہمارے کانوں کے پردوں کو چیرتے پھاڑتے اور دل کو ہلاتے
ہوئے دماغ میں زبردستی گھسنے کے بعد اِس پر اپنا جادوئی اثر کرتے محسوس
ہوتے ہیں کہ اِس طرح ایک ہم ہی کیا پوری پاکستانی قوم اِس خوشنما مگر
پریشان کن صورتِ حال میں اِس مخمصے میں مبتلا ہے کہ کیا یہ پارٹی جس کی آج
ملک پر حکومت قائم ہے اور جس نے انتخابات سے قبل عوام کو ایک ایسا پاکستان
دینے کا ایک ایسا بڑا دل کش اور حسین خواب دکھایا تھا کہ جب ہماری حکومت
ہوگی تو ملک سے غربت کوسوں دور جاچکی ہوگی اور جہاں سے غربت پھر کبھی بھی
ہمارے ملک میں واپس آنا بھی چاہے گی تو وہ نہیں آسکے گی کیوں کہ ہم اِس کے
واپسی کے تمام راستے مسدود کرچکے ہوں گے اور ہماری پارٹی کی حکومت کے آتے
ہی ملک میں یوں ہر طرف خوشحالی ہوگی اور عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہوگی اور
ہر ادارے آزاد ہوں گے اور ہر ادارے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں کام کریں گے
کوئی کسی کہ دائرہ اختیار میں حتیٰ کہ حکومت بھی کسی ادارے میں مداخلت نہیں
کرے گی۔
اور میرا خیال یہ ہے کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس حکومت نے اپنے آنے بعد
عوام سے کئے گئے وعدوں پر کسی حد تک عمل کرنے کا سلسلہ بھی ضرور شروع کیا
تھا۔ مگر پھر بعد میں کیوں اِس ڈگر سے اچانک یہ پھر گئی کہ کچھ سمجھ نہیں
آیا کہ اِس نے ایسا کیوں کیا ہے؟
یہاں میرے نزدیک یہ حکومت جس سے متعلق یہ بہت مشہور ہے کہ اِس حکومت کے
شروع کے صرف چند ایک ماہ اور دن ہی ایسے گزرے ہیں کہ جن کی بنا پر عوام نے
اِس تصور کے ساتھ یہ بھی یقین کرلیا تھا کہ ملک میں نو سالہ جان گھُسل
آمریت کے بعد ایک ایسی جمہوری حکومت کی شروعات ہوئی ہے کہ جس کے عنقریب
مثبت اور تعمیری اثرات ملک کے طول ارض پر نمایاں طور پر محسوس کئے جائیں گے۔
اور اَب ہمارا ملک اِس جمہوری حکومت کے سہارے صحیح معنوں میں خالصتاً ایک
مثبت اور تعمیری راہ کی جانب بھی گامزن ہوجائے گا۔
مگر یہاں انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایک میرے ہی خیال سے
کیا؟ بلکہ اَب اِس حکومت کی دو سالہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ملک کی ایک
بڑی تعداد اِس نقطے پر متفق نظر آتی ہے کہ اِس حکومت نے عوام کو کسی بھی
معاملے میں کوئی ریلیف نہ دے کر عوام کو بُری طرح سے مایوس کیا ہے اور اِس
حکومت سے قطعاً ایسا کچھ نہیں ہوسکا کہ جس سے عوام پوری طرح سے مطمئین ہو
کہ اِس عوامی حکومت نے عوام کے فلاح وبہبود کے لئے ایسا کچھ کیا ہے کہ جس
سے عوام کا اِس پر اعتماد بحال ہوگیا ہے۔
حالانکہ یہ ایک ایسی عوامی اور خالصتاً جمہوری حکومت ہے جو ایک طویل دورِ
آمریت کے خاتمے کے بعد وجود میں آئی تھی۔ مگر کچھ ہی عرصہ بعد یہ حکومت بھی
اُسی ڈگر پر چل نکلی جس پر اِس سے قبل کی حکومتیں چلا کرتی تھیں اور یوں یہ
حکومت بھی رفتہ فتہ اپنے اور اپنے اتحادیوں کے کچھ کردہ اور ناکردہ اعمالوں
کے باعث ایسے سنگین مسائل میں خود ہی دھستی چلی گئی ہے کہ آج اِسے اِن
مسائل کی دلدل سے خود کو نکالنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوچکا ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ آج عام طور پر یہ سوال ہر شخص کی زبان پر ہے کہ یہ حکومت
جو خود کو عوام کا مسیحا اور دوست گردانتی ہے اِس حکومت نے بھی عوام کے
ارمانوں کا گلا گھونٹا اور عوام کو اپنا اقتدار ملتے ہی ایک طرف رکھ دیا
اور چل پڑی اُسی راستے پر جو حکومتوں اور حکمرانوں کے لئے تباہی اور بربادی
کی منزل لیئے ہوتا ہے اِس عوامی حکومت نے بھی عوام کے ساتھ ایسا کیوں کیا
ہے کہ جس سے آئندہ اِسے حکومت میں آنا مشکل ہوگیا ہے؟
تو اِس کے بارے میں ملکی اور بین الاقوامی سطح کے سیاسی تجزیہ اور تبصرہ
نگاروں کی مختلف آراء تو ضرور سامنے آئی ہیں مگر اِن سب میں بھی اکثریت اِس
بات پر کلی طور پر متفق اور متحد نظر آتی ہے کہ اِس حکومت نے بھی اپنی پیش
رو حکومتوں کی طرح عوامی مسائل جن میں سرِ فہرست ملک سے مہنگائی کا خاتمہ
یا اِسے کنڑول کرنا، اچھی اور معیاری صحت، خالص خوراک، سستے علاج و معالجہ
کے مراکز کے قیام، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، توانائی کے بحران جن میں
بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات شامل ہیں اِن سمیت ملک میں سستی اور معیاری
تعلیم اور آٹا، چینی سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کی فراہمی جیسے عوامی مسائل
شامل ہیں اِن سب سے منہ پھیرا اور روگردانی کی اور اِن کے حل کے لئے کوئی
بھی ایسا دیر پا منصوبہ اور لائحہ عمل مرتب نہیں کیا کہ جس کی وجہ سے عوام
کو درپیش مسائل کے حل میں مدد حاصل ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ عوامی مسائل روز
افزوں بڑھتے گئے اور بالآخر اِس کا نتیجہ آج یہ نکلا ہے کہ عوام میں اِس
حکومت سے متعلق مایوسی بڑھ چکی ہے اور آج ملک کا ہر فرد یہ دعا کرتا نظر
آتا ہے کہ اِس حکومت حکمرانوں کو خدا پریشان حال انسانوں کا مسیحا بنا دے
یا اِن حکمرانوں سے خدا جان چھڑا دے اور کوئی ایسا حکمران اِس ملک قابض
کردے کہ جو اِس ملک کی ساڑھے سولہ کروڑ عوام کی بیکسی اور لاچارگی کے لئے
مسیحا ثابت ہو۔
بہرحال یہ تو اَب ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کو چھٹلانا کسی کے بھی دائرہ
اختیار میں نہیں رہا کہ یہ حکومت جو آج عوام پر جمہوریت کے نام پرایک دو
دھاری تلوار کے مافق جھول رہی ہے اِس حکومت نے سوائے اپنے متعلق سوچنے اور
اپنی کرسی مضبوط کرنے کے اور کچھ نہیں کیا اِس کا اندازہ اہلِ دانش اور دور
اندیشوں کو بہت پہلے اور جلد ہوگیا تھا کہ یہ حکومت سوائے عوام کو سبز
باغات دکھانے اور دل گداز وعدے کرنے کے اور کچھ نہیں کرسکے گی۔
کیوں کہ اِس کی ایک وجہ تو صاف طور پر اِس حکومت کے اقتدار میں آتے ہی اول
روز سے محسوس کی جانے لگی تھی کہ یہ حکومت اگر یوں ہی خود کو عوامی مسائل
کے فوری حل سے بچاتی رہی اور اپنی چاپلوسی اور سیاسی مہارت سے عوام کو اِن
کے مسائل حل کرنے کے بارے میں رلاتی رہی اور لولی پاپ دے کر خود کو کنی کٹا
کر نکالتی رہی تو کوئی شک نہیں کہ یہ حکومت عوام میں اپنی مقبولیت کا گراف
گراتے گراتے اِسے اتنا نیچے لے جائے گی کہ عوام اِس حکومت کے خلاف اپنے
بنیادی نوعیت کے مسائل حل نہ ہونے کی بنا پر خود ہی سڑکوں پر آکر اِس حکومت
کے خاتمے کی تحریک شروع کردے گی اور یہ عوامی تحریک اِس قدر شدید ہوگی کہ
حکومت کے اس کے سامنے قدم اُکھڑ جائیں اور حکومت ایک لمحہ بھی عوام کی اِن
احتجاجی تحریکوں کا مقابلہ نہ کرسکے۔ اور یہ حکومت اپنی ایسے ہی ٹمک ٹویوں
میں رہے گی کہ ہم نے ملک میں جمہوریت کی آبیاری کی ہے اور ہم جمہوریت کا
پودا سینچ رہے ہیں اور ہم عوام کے مسائل سے ناواقف نہیں ہیں ہم نے عوام کے
مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا تہیہ کررکھا ہے......اور بس........
وغیرہ وغیرہ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اِس حکومت نے عوام کو اَب تک آٹا اور
چینی جیسے دیگر ضروریات زندگی پر تو ایک پائی کا بھی ریلیف نہیں دیا تو یہ
حکومت اور بھلا کیا کرسکتی ہے۔؟ |