نوجوانوں کا پاکستان
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
نوجوانوں کو خدارا بچالیں کے عنوان سے اپنے
پچھلے مضمون میں پاکستان میں نوجوانوں کی زبوں حالی،مایوسی اور مخدوش
مستقبل کے حوالے یہ نکتہ اٹھایا گیا تھا کہ اس ملک پاکستان میں ساٹھ فیصد
سے زائد نوجوان ہے جن کے لیے ہمار ی اب تک آنے والی حکومتوں میں سے کسی نے
بھی کوئی ایسی منصوبہ بندی نہیں کی جس سے یہ پتا چل سکے کہ آنے والا کل
نوجوانوں کا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی المیہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں
نے بھی اس حوالے سے مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔1970کے انتخابات میں
نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھٹو صاحب کے سحر میں مبتلا ہو گئی تھی ،جب کے
مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے سونار بنگلہ کے سحر میں پوری قوم کو لیا
ہواتھا ۔سقوط مشرقی پاکستان کے سانحے نے پاکستان کے نوجوانوں کو بھٹو سے
مایوس کردیا ۔بھٹو کا پورا دور حکومت ظلم و جبر کا دور تھا ملک کے نوجوان
جیسے جیسے بھٹو سے مایوس ہوتے گئے ویسے ویسے وہ دینی جماعتوں کے قریب آتے
گئے ،چنانچہ بھٹو صاحب کے دور حکومت میں ان کے خلاف جتنی بھی تحریکیں چلیں
اس میں نوجوانوں نے ہراول دستے کا رول ادا کیا ،چاہے وہ بنگلادیش نامنظور
تحریک ہو ،ختم نبوت کی تحریک ہو ،بحالی جمہوریت کی تحریک ہو یا تحریک نظام
مصطفی ہو یہ تمام تحریکیں جو دینی جماعتوں نے چلائیں اور یہ تحریکیں اس وجہ
سے کامیاب ہوئیں کے ان کے ساتھ جونوانوں کی کثیر تعداد وابستہ تھی ۔
1977میں بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفی کے نام سے جو عظیم الشان تحریک چلی
اس کی کامیابی کی تین وجوہات تھیں پہلی یہ کہ تمام دینی اور سیاسی جماعتیں
ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو گئیں تھیں دوسری وجہ یہ تھی دینی جماعتوں سے
وابستہ نوجوانوں نے اپنے خون کے نذرانے پیش کیے اور تیسری وجہ شہر کراچی
تھا جس نے اس پوری تحریک میں لیڈنگ رول ادا کیا بھٹو صاحب کے پورے دور
حکومت میں جہاں ایک طرف سانحہ مشرقی پاکستان کی وجہ سے ملک کا نوجوان طبقہ
بھٹو سے نفرت کرنے لگا تھا وہیں دوسری طرف سندھ میں کوٹہ سسٹم کے نفاز کی
وجہ سے شہری نوجوانوں کی جو حق تلفی ہو رہی تھی اس کی وجہ سے سندھ کے شہری
علاقوں کے نوجوانوں کی اکثریت نے جماعت اسلامی کے ساتھ اپنی وابستگی اختیار
کی دوسری طرف پورے ملک کے تعلیم یافتہ نوجوان بھی جماعت کے قریب آتے گئے
اور پھر یہی وجہ تھی پورے ملک کی جامعات اور تعلیمی اداروں کے طلبہ
انتخابات میں اسلامی جمعیت طلبا بھاری اکثریت سے کامیاب ہو نے لگے جب کہ
کراچی و حیدر آباد میں اس کامیابی کی شرح پورے ملک کے مقابلے میں بہت زیادہ
تھی ۔یہ وہ مرحلہ تھا جہاں ہماری دینی جماعتوں کو اپنے وابستہ نوجوانوں کے
لیے کوئی خصوصی منصوبہ بندی کرنا چاہیے تھی ۔
1977کی تحریک کے نتیجے میں ملک میں مارشل لا نافذ ہو گیا فوجی اسٹبلشمنٹ جو
بھٹو دور حکومت سے ہی بڑی گہرائی سے دینی جماعتوں کے ساتھ نوجوانوں کی
وابستگی کا جائزہ لے رہی تھی ،بالخصوص کراچی میں جس طرح نوجوانوں نے
قربانیاں دیں اور یہ کہ جس طرح یونیورسٹیوں اور کالجوں اسلامی جمعیت طلبا
آگے بڑھ رہی تھی یہ تمام چیزیں نئی فوجی حکومت کے مستقبل کے عزائم کی راہ
میں اہم رکاوٹ بن سکتی تھی اس لیے انھوں نے ایک نئے منصوبے پر کام کا آغاز
کیا ،وہ منصوبہ کیا تھا تھوڑی دیر رک کر اس بات کا جائزہ لے لیا جائے کی
طلبہ یونینوں کے انتخابات سے ملک میں کیا اثرات مرتب ہوئے سب سے پہلے تو یہ
تمام تعلیمی اداروں میں امن امان کا قیام ہو گیا کہ طلبا کے مسائل ان کے
منتخب لوگ حل کروانے لگے ،پورے ملک میں یہ تاثر عام ہوا کہ اس ملک کے تعلیم
یافتہ نوجوانوں نے اپنا مستقبل دینی جماعتوں کے ساتھ وابستہ کرلیا ہے اور
یہ کہ ان نوجوانوں کے ذریعے اسلامی انقلاب کی منزل قریب آسکتی ہے تیسرا
فائدہ یہ ہوا کے مستقبل کی قیادت کی تیاری ہورہی تھی اور آج آپ کو ملک کی
تمام سیاسی جماعتوں میں جو لوگ قیادت کے منصب پر ہیں ان میں سے اکثریت ان
لوگوں کی ہے جو اپنے طالب علمی کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبا سے وابستہ
رہے ہیں-
1977کے بعد نئی قائم ہونے والی فوجی حکومت نے اسلامی نظام کے قیام کا نعرہ
بلند کیا اور 90دن کے اندر انتخابات والی میٹھی گولی پہلے احتساب پھر
انتخابات کے انجنیرڈ مطالبات میں تحلیل ہو کر رہ گئی اور طویل حکمرانی کی
منصوبہ بندی ہونے لگی ،یہ نئی حکومت نوجوانوں کی جماعت اسلامی سے وابستگی
کے خوف میں مبتلا تھی اس لیے شروع کے دو تین سال تو تعلیمی اداروں میں
انتخابات ہوئے اور حسب معمول اسلامی جمعیت طلبا شاندار کامیابی حاصل کرتی
رہی پہلے تو یہ کام کیا گیا کہ پورے ملک میں طلبا یونینوں پر پابندی عائد
کی گئی ۔طلبا کی تمام تنظیموں نے اس پابندی کو قبول نہیں کیا اور اس کے
خلاف اپنی تحریک کا آغاز کیا جس کو حکومت نے سختی سے کچلنے کی کوشش کی اور
اس کے نتیجے میں طلبا پر تشدد کا بازار گرم کیا گیا اور بالخصوص اسلامی
جمعیت طلبا کے لوگوں پر ایک خاص منصوبے کے تحت بہت زیادہ تشدد ہوا اس کی
تفصیل سلیم منصور خالد کی کتاب "طلبہ تحریکیں "دیکھی جاسکتی ہے یہ وہ فوجی
ظلم کررہے تھے جن کا دس گیارہ سال قبل اسی اسلامی جمعیت طلبا نے مشرقی
پاکستان میں ان کا ساتھ دیا تھا ۔مشرقی پاکستان میں جب وہاں پر محصور
پاکستانی فوجیوں کا مغربی پاکستان سے رابطہ کٹ چکا تھا ،ایک طرف بھارتی
فوجیوں سے مقابلہ تھا تو دوسری طرف عوامی لیگ کی مکتی باہنی جس کو ہندوستان
اسلحہ اور فوجی تربیت دے کر پاکستانی فوج سے لڑنے کے لیے تیار کیا تھا
،تیسری طرف بنگالی عوام کی نفرت اور چوتھی طرف پاکستانی فوجیوں کے مظالم کا
جھوٹا عالمی پروپیگنڈہ تھا ۔ان چاروں طرف سے محصور اور مایوس فوجیوں کا اگر
کسی نے ساتھ دیا تو وہ جماعت اسلامی کے کارکنان تھے یا اسلامی جمعیت طلبا
کے نوجوان۔اسلامی جمعیت طلبا وہاں اسلامی چھاترو شنگھو کے نام سے کام کررہی
تھی اس کے تمام نوجوان البدر اور الشمس کے نام سے پاکستانی فوجیوں کے شانہ
بہ شانہ ہندوستانی فوجیوں اور مکتی باہنی سے لڑرہے تھے لیکن اس کانتیجہ کیا
ملا کہ جب جنگ ختم ہوئی پاکستانی فوجی تو بھارت کی قید میں چلے گئے اور
البدر اور الشمس کے نوجوانوں کومکتی باہنی کے بھیڑیوں کے حوالے کر گئے ۔اس
کے بعد مکتی باہنی کے ان نوجوانوں کو جس بے دردی سے قتل کیا ہے وہ بھی
تاریخ کا ایک حصہ ہے دس سال بعد یہی فوج بقیہ پاکستان میں اسی اسلامی جمعیت
طلبہ پر ظلم کررہی تھی ۔
کراچی میں نوجوان جماعت اسلامی سے وابستہ تھے اور ان کی یہ وابستگی نئی
فوجی حکومت کو شدید ناپسند تھی پورے ملک میں طلبہ تنظیموں پر پابندی کے
بعدسندھ کے شہری علاقوں میں فوجی حکومت نے اپنے منصوبے پر کام کا آغاز کیا
ایک اہم فیصلہ یہ کیا کہ کوٹہ سسٹم جو دس سال کے لیے تھا اور 1983میں ختم
ہو رہا تھا اسے دس سال کے لیے مزید بڑھا دیا اس سے فوجی حکمرانوں کو دو
فائدے حاصل ہوئے ایک تو یہ کہ چونکہ ضیاء صاحب ایک سندھی وزیر اعظم کو
پھانسی دے چکے تھے اس لیے اس فیصلے سے سندھی عوام کو خوش کرنا تھا دوسرے یہ
کہ سندھ کے شہری علاقوں کے نوجوان جو کوٹہ سسٹم کی وجہ سے پہلے ہی احساس
محرومی کا شکار تھے لیکن دینی جماعتوں سے وابستگی برقرار تھی انھیں مزید
احساس محرومی کا شکار کرنا تھا تا کہ یہ دینی جماعتوں سے بد دل ہو کر کوئی
دوسرا راستہ اختیار کریں اور پھر ایسا ہی ہوا ۔
1986میں ناظم آباد چورنگی پر ایک ٹریفک حادثہ ہوتا ہے جس میں ایک طالبہ
بشرا زیدی جاں بحق ہو جاتی ہے بس ڈرائیور پٹھان تھا برسوں سے جو لاوا پک
رہا تھا اسے کسی چنگاری کی ضرورت تھی فسادات پھوٹ پڑے یہ لسانی تنازعہ آگے
بڑھتا رہا اور لسانی تنظیمیں وجود میں آئیں ۔اس لسانی تنظیم کے اندر
نوجوانوں نے اپنا روشن مستقبل دیکھا اور اس میں شامل ہو گئے پھر یہ ایک
طوفان اور سیلاب بن کر سندھ کی شہری سیاست کے مطلع پر نمودار ہوئے اور
انھیں پہلے بلدیاتی انتخابات میں نمایاں کامیابی ملی جس میں شہر کراچی سے
ان کے میئر فاروق ستار کامیاب ہوئے اس تنظیم کو اس فوجی اسٹبلشمنٹ کی اتنی
کھلی حمایت حاصل تھی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے جلسے جلوس پر پابندی تھی
لیکن یہ تنظیم جہاں چاہے جلسہ کرلیتی تھی ضیاء صاحب جو مقاصد حاصل کرنا
چاہتے تھے وہ حاصل ہو گئے لیکن اس سے سندھ کے شہری نوجوانوں کو کیا ملا یہ
ایک اہم سوال ہے کہ 1985سے2015تک ان تیس برسوں میں کراچی حیدرآباد کے
نوجونوں کے ساتھ کیا ہوا پہلے انھیں پٹھانوں سے لڑایا گیا پھر پنجابیوں سے
اور پھر سندھیوں سے اور آخر میں آپس میں لڑایا گیا جن نوجوانوں کے ہاتھوں
میں پہلے کتابیں ہوتی تھیں اس جگہ ان کے ہاتھوں میں ہتھیار آگئے جو نوجوان
دن بھر محنت مزدوری کر کے کچھ پیسے کماتے تھے اور شام کو سرکاری کھمبوں کی
روشنی میں پڑھا کرتے تھے وہ ایک گھنٹے میں چوری ڈکیتی سے ہزاروں روپئے
کمالیتے اور رات کو وہ عیاشیاں کر نے لگے شہر کراچی کا پورا کلچر تبدیل ہو
گیا یہ ایک بہت طویل اور پیچیدہ موضوع ہے ،قصہ مختصر یہ کہ ان تیس برسوں
میں ایک اندازے کے مطابق پچاس ہزار نوجوان تاریک راہوں میں مارے گئے ہزاروں
روپوشی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ہزاروں مقدمات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں
یہ ہمارے ملک پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سطح پر گہری سازش ہے پاکستان کا
معاشرہ جو نوجوانوں کی تعداد کے اعتبار سے نوجوانوں کا معاشرہ کہلاتا ہے
اسے بدلنے کی سازش کی جارہی ہے ۔
آج کا نوجوان بہت مایوس ہے اسے عمران خان کی شکل میں امید کی کرن کچھ نظر
آتی ہے لیکن عمران کی زاتی شخصیت اور گلیمر کے علاوہ تحریک انصاف نے بھی
نوجوانوں کے لیے کوئی ٹھوس پروگرام پیش نہیں کیا ۔اس لیے یہ دینی جماعتوں
اور بالخصوص جماعت اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کے سلگتے مسائل کے
حل کے لیے کوئی مربوط اور بھرپور منصوبہ بندی کرے ،یہ ملک پاکستان نوجوانوں
کا پاکستان ہے جن کے جوان خون سے اس ملک میں اسلامی انقلاب آئے گا ۔ان شاء
اﷲ |
|