اخبار کی اس خبر نے مجھے چونکنے پر مجبور کر دیا،خبر یہ
تھی کہ’’ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کو لاہور جماعت اسلامی کے رہنما میاں
مقصود احمد کے صاحبزادے کی دعوت ولیمہ میں اپنی جیب سے محروم ہونا پڑا۔اس
خبر میں میرے لیے دلچسپی کا سامان اس لیے بھی ہے کہ میں ’’موقع واردات‘‘ پر
موجود تھا۔ہمارے دوست صہیب شریف یعنی دولہا صاحب نے ہمیں یونہی’’چھوٹا موٹا
کالم نگار‘‘ سمجھ کر اپنے ولیمہ کی تقریب کی دعوت دے ڈالی ،اس ولیمے کی
تقریب میں شریک ہونے سے پہلے ہمیں ہرگز ہرگز اندازہ نہ تھا کہ یہ شادی
’’تاریخی حیثیت ‘‘اختیار کر جائے گی۔اس بات پر بھی میرا شکرانے کے نوافل
ادا کرنے کا دل چاہ رہا ہے کہ میں نے امیر جماعت سراج الحق صاحب سے ملنے سے
گریز کیا ورنہ عین ممکن تھا میں بھی شک کے دائرے میں آجاتا۔ لیکن حیرت اس
’’سیاسی جیب کترے ‘‘پر ہے جس نے ناجانے ’’امیر‘‘ کے لفظ کو اتنا سیریس کیوں
لے لیا۔۔؟حالانکہ اب وہ اپنی اس حرکت پر پچھتا رہا ہوگا،بیچارے جیب کترے نے
پتا نہیں کتنی امیدیں لگائی ہوں گی لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا یہ واحد
جماعت ہے جس کے کارکن اپنے’’امیر‘‘ سے زیادہ امیر ہوتے ہیں ۔کیا ہی اچھا
ہوتاوہ یہی ’’محنت‘‘ کسی کارکن کی جیب پر کرتا۔لیکن مجھے لگتا ہے اس
’’سیاسی جیب کترے‘‘ کی فہم و فراست کا حال بھی ہمارے ملک پر قابض ’’جیب
کتروں ‘‘ سے مختلف نہیں۔مجھے اس ’’سیاسی جیب کترے‘‘ سے ہمدردی ہے مجھے یقین
ہے وہ کسی دن پریس کانفرنس’’پھڑکا دے گا‘‘ اور مطالبہ کرے گا یا تو سراج
الحق اپنے نام کے ساتھ’’امیر‘‘لگانا بند کردیں یا ’’امیر‘‘ لفظ کے تقدس
کاخیال رکھیں۔دوسری بات جو عین ممکن ہے ’’سیاسی جیب کترا‘‘ کرے وہ یہ کہ کہ
ہمارے ملک کے رہنما اتنے غریب ہیں تو عوام کی کیاحالت ہوگی۔۔؟اس موقع پرمیں
’’سیاسی جیب کترے‘‘ بھائی کے غم میں برابر کا شریک ہوں۔حیرت ان سطور کے
لکھنے والے کو اس بات پر بھی ہے کہ ان نیک لوگوں کی صفوں میں بھی ’’ایسے
لوگ‘‘ آگئے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔جماعت اسلامی لاہور کے ’’کچھ سیاسی جیب
کتروں ‘‘ کی’’ شہرت‘‘ توپورے شہر میں پھیل چکی ہے ۔ان کو خلق خدا جھولیاں
اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دے رہی ہے ،مگر فرق ان کو کوئی نہیں پڑرہا،مجھے
یقین ہے جلد یا بدیر جماعت اسلامی ان ’’سیاسی جیب کتروں‘‘ کو اپنی صفوں سے
نکال باہر کرے گی۔اب جب سراج الحق صاحب کو خود اپنی جیب سے محروم ہونا پڑا
ہے یقینا اب وہ عوام کا دکھ درد بہتر طورر پر سمجھ سکیں گے۔
اس موقع پر مجھے ایک واقعہ یاد آگیا جو کہیں پڑھا تھا ۔ لاہور میں ایک
مجسٹریٹ چودھری عبدالوحید تھے جو داتا دربار کے ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔ یہ
بڑے دیانتدار اور با اصول شخص تھے اور فیصلے بھی اسی پیمانے کے مطابق کرتے
تھے، ایک مرتبہ ایک سائل پیش ہوا، اس نے ایک تھانہ انچارج کی بہت شکایت کی
اور رو رو کر بتایا کہ تھانیدار اس کی کوئی مدد نہیں کرتا وہ لٹ گیا اور
ملزموں کی نشاندہی کر چکا ہے۔ اتفاق سے یہ شخص جس تھانے کی حدود میں رہتا
تھا چودھری وحید کی رہائش بھی اْسی علاقے میں تھی۔ ان کو یہ شکایت سن کر
افسوس ہوا اور انہوں نے متعلقہ تھانیدار کو طلب کر لیا۔ وہ حاضر ہوا تو
افسر مجاز(عدالت) نے سائل کی شکایت کے حوالے سے تھانیدار سے سوال جواب کئے
وہ نہ صرف شافی جواب نہ دے سکا بلکہ عدالتی وقار کا بھی لحاظ نہ کیا، ننگے
سر ذرا گستاخانہ انداز اختیار کئے رہا، اس پر چودھری برہم ہو گئے اور انہوں
نے تھانیدار مذکورہ کو اپنا رویہ درست کرنے کے لئے کہا اور حکم دیا کہ سائل
کی شکایت کا ازالہ کریں اور اگلے روز عدالت میں رپورٹ کریں۔ دوسرے روزکچھ
دوست خبر کے لئے عدالت کی طرف گئے تو چودھری صاحب ریٹائرنگ روم میں تھے۔
ریڈر سے بات کے بعد معلوم ہوا کہ چودھری صاحب کسی صدمے سے دوچار ہیں،دوست
اجازت لے کر ان کے پاس گئے تاکہ وجہ معلوم کر کے ہمدردی کا اظہار کر سکیں۔
جب بات پوچھی گئی تو انہوں نے بتایا کہ ’’رات ان کے گھر چور گھس آئے اور
قیمتی سامان چرا کر لے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ متعلقہ تھانہ کے ایس ایچ
او کو بلایا ہے۔
متعلقہ ایس ایچ او آ گئے جو صاف ستھری وردی پہنے سمارٹ لگ رہے تھے، ٹوپی
بھی سر پر جما رکھی تھی، آتے ہی زور دار سلیوٹ کیا اور ہاتھ باندھ کر کھڑے
ہو گئے اور دریافت کیا،’’سر کیا حکم ہے‘‘ جب چودھری صاحب نے بتایا کہ ان کے
گھر چوری ہو گئی اور یہ علاقہ بھی انہی کا ہے، تھانیدار نے بڑے دْکھ کا
اظہار کیا اور بڑی مستعدی سے جواباً کہا: ’’سر! فکر نہ کریں، چور بچ کر
نہیں جا سکتا‘‘ امیر جماعت اسلامی سادہ آدمی ہیں مجھے ڈر ہے کہ کہیں جماعت
اسلامی کا نام استعمال کرنے والے ’’سیاسی جیب کترے‘‘ ان کی نظروں کے سامنے
ہوں اور کہہ رہے ہوں’’امیر صاحب فکر نہ کریں‘‘،اس امید کے ساتھ یہ سطریں
تحریر کررہا ہوں کہ امیر جماعت اسلامی ان ’’جیب کتروں‘‘ کا نہ صرف سراغ لگا
لیں گے بلکہ ’’مال‘‘ بھی اصل حقداروں تک پہنچا ئیں گے۔جیب کترے پر ایک
لطیفہ ملاحظہ کیجیے۔
وکیل نے ایک جیب کترے کا مقدمہ لڑا اور جیب کترے کو بری کرا دیا۔
بعد میں وکیل نے موکل کو اپنی فیس کا بل پیش کیا ، جو بہت زیادہ تھا۔۔
جیب کترے نے بل واپس کرتے ہوئے کہا : وکیل صاحب آپ بھول رہے ہیں۔۔ جیب کترا
میں ہوں۔۔ آپ نہیں۔
|