تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی کے پس پردہ اصل گیم پلان
(Syed Yousuf Ali, karachi)
عالمی مارکیٹ میں تیل کی
قیمتوں میںہونیوالی مسلسل کمی سے متعلق دنیا بھرکے معاشی اور عسکری حلقوں
میں مختلف تھیوریز گردش کر رہی ہیں ۔کیونکہ اس گیم پلان کے پس پردہ اصل
محرکات کا تعلق سیاسی اور عسکری مقاصد کے حصول سے ہے اس لئے ماہرین معاشیات
تیل کے اس کھیل کی حقیقت سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔یہودی پالیسی سازوں کے
ہاتھوں یر غمال امریکی ذرائع ابلاغ ابتدا سے ہی تیل کی قیمتوں میں مسلسل
کمی کی ذمہ داری سعودی عرب اور مشرقی وسطیٰ کے دوسرے عرب ممالک پر عائد
کرتے ہوئے اسے امریکی شیل کی بھرپور پیداوار کے خلاف سازش کے طور پر پیش
کرتا رہا ہے۔ان کا موقف ہے کہ قیمتوں میں کمی کی وجہ یہ ہے کہ مارکیٹ میں
تیل کی فراہمی بہت زیادہ جبکہ خریدار بہت کم ہیں۔سوال کیا جا سکتا ہے کہ
کیا امریکہ جیسا سپرپاور ملک اتنا بے بس ہو گیا ہے کہ اپنے سب سے قریبی
حلیف ممالک پرپیداوار میںکمی کے لئے دبائو نہیں ڈال سکتا ؟
ایک برطانوی روزنامہ نے پہلی بار اس حوالے سے خبر بریک کرتے ہوئے انکشاف
کیا کہ امریکہ نے روس، ایران اور شام کو سبق سکھانے کے لئے مشرق وسطیٰ میں
اپنے انتہائی قریبی حلیف ممالک سے مل کر منصوبہ بندی کی ہے ۔ یہ ممالک دنیا
بھر میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے اوپیک ارکان میں سر فہرست ہیں۔
معروف امریکی دانشور اور رائیٹر نوم چومسکی کے موجودہ صورت حال کے تناظر
میں حالیہ انتباہ کو پیش نظر رکھا جائے توسارا گیم کھل کر سامنے آ جاتا ہے
۔ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی قیمت پر اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا امریکی
خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔امریکی پالیسی ساز دراصل دوست نما بھیڑیئے
کی شگل میں سعودی عرب، کویت عراق،الجزائرحتیٰ کہ بعض افریقی ممالک کی
معیثتو ں کو بھی تباہ کر کے اسرائیلی فوجی و معاشی پوزیشن مضبوط بنانے کا
گیم کھیل رہے ہیں۔ دوسری جانب امریکہ عالم اسلام میں خام تیل کی پیداوار کے
مسئلہ پر اختلافات پیدا کرکے ان حکمرانوں کے درمیان نفرتیں پیدا کرنے کی
کوشش کررہا ہے ۔ امریکی ڈالر کے مضبوط ہونے سے بھی عالمی منڈی میں خام تیل
کی قیمتوں پر اثر پڑا ہے۔ چونکہ تیل کی قیمت ڈالرمیں ادا کی جاتی ہے اس لئے
ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے کسی دوسری کرنسی میں تیل خریدنا مہنگا
پڑتا ہے، جس سے تیل کی طلب میں مزید کمی ہوجاتی ہے ۔
ڈیلی گارجین نے9نومبر2014کو اپنی اشاعت میں دعویٰ کیا کہ امریکی وزیر خارجہ
جان کیری نے ستمبر 2014میں سعودی شاہ عبداللہ مرحوم سے ایک ڈیل کی جس کے
تحت سعودی عرب نے مارکیٹ کی مروجہ قیمت سے کم پر خام تیل کی فروخت پر
رضامندی ظاہر کر دی۔یہ ڈیل اس امر کی وضاحت کرنے میں بھی مددگار ہوگی کہ
ایک ایسے موقع پرتیل کی قیمتوں میں کمی کیوں ہو رہی ہے جب عراق اور شام میں
خودساختہ عسکریت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے بظاہر چیلنج سے اس کی قیمت میں
اضافہ ہونا تھا۔یہ ایک الگ بحثہے کہ القاعدہ سمیت دوسرے جنگجو گروپ خود
امریکہ کے پیدا کردہ ہیں جنہیں مخصوص مفادات کے حصول کے لئے تخلیق کیا
گیاتھا۔ اخبار کے نامہ نگار لیری ایلائٹ کا کہنا تھاکہ اسٹیکس کی سطح بلند
ہے کیونکہ امریکہ اس وقت ایران اور روس کے ساتھ آئل کارڈ کھیل رہا ہے۔حقیقت
یہ ہے کہ امریکی ایما پر ہی اس کے حلیف ممالک اوپیک اجلاس میں یہ واضح کر
چکے ہیں کہ ابھی تو بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل 50ڈالر فی بیرل کی قیمت پر
فروخت ہو رہا ہے ، تاہم تیل کی قیمت 20ڈالر فی بیرل بھی ہو گئی توتیل کی
پیداوار میں کمی کسی قیمت پر نہیں کی جائے گی۔نیویارک کی مارکیٹ میں تیل کی
قیمتیں گذشتہ پانچ برسوں میں پہلی مرتبہ پچاس ڈالر سے نیچے آگئیں اور ہر
بیرل خام تیل تقریباً 49 ڈالر میں فروخت کیا گیا۔
مئی2009کے بعد ایسا پہلی بارہوا کہ تیل کی قیمت پچاس ڈالر فی بیرل سے نیچے
پہنچی ہے۔ تیل کے امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کو
روکنے کے لئے تیل کی پیداوار میں کمی لانی چاہیے۔ تاہمسعودی عرب کا یہ
اصرار کہ اوپیک کے تیل کی یومیہ پیداوار30 ملین بیرل ہے ،ہرطرح سے ایک
سیاسی فیصلہ ہے جس کے سیاسی اہداف ہیں۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ
امریکہ میں تیل کی مقامی صنعت بھی قیمتوں میں کمی سے بہت متاثر ہو رہی ہے
۔تیل کا درآمد کنندہ ہونے کے ناطے امریکہ فی الوقت فائدے میں نظر آرہا ہے
لیکن امریکی معیشت آخر کار عالمی معیشت سے منسلک ہے اور دوسرے ممالک میں
معاشی بحران ناگزیر طور پر امریکی معیشت کو بھی اپنے ساتھ نیچے کھینچ لے
گا۔ یورپی معیشت دان گلز موئیک کے مطابق عالمی سطح پر معاشی گراوٹ کا اثر
خود امریکہ پر بھی پڑے گا۔تاہم اس حقیقت کے باوجود جو پالیسی سازافغانستان
میں قدرتی ذخائر اور مشرق وسطیٰ کے تیل پر قبضے کے لئے ورلڈ ٹریڈ ٹاور کی
تباہی اور ایران کو تباہی سے دوچار کرنے کی کوششوں میں ہیٹی جیسے چھوٹے سے
ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے جیسا ڈرامہ کھیل سکتے ہیں انکے لئے حلیف
ممالک کی معاشی تباہی کی قیمت پر اپنے طویل المدت فوجی مقاصد کا حصول تو
بہت سستا سودا ہے۔
امریکی سازشی کرداروں کو یقین تھا کہ صرف دو سے ڈھائی ماہ میں ایک جانب تو
روس اور ایران کا بھٹہ بیٹھ جائے گا کیونکہ ان کی مجموعی قومی پیداوار میں
تیل کی برآمدسے حاصل ہونے والی آمدنی70سے75فیصد تک ہے جبکہ دوسری جانب مشرق
وسطی میں امریکی حلیف ممالک کے پاس فی الوقت زرمبادلہ کے وافر ذخائر موجود
ہونے کے باوجود ان ممالک کی آمدنی کا انحصاربھی تیل کی دولت پر ہے جو بہت
جلد اپنے زرمبادلہ کے ذخائر سے محروم ہو کر اسرائیل کے لئے کم خطرے کا باعث
ہوں گے۔بلا شبہ تیل کی قیمتوں میں کمی اوپیک کے کچھ ارکان کے لیے خاصا بڑا
مسئلہ بن چکا ہے کیونکہ ان ممالک کے سرکاری اخراجات کا بہت بڑا انحصار تیل
سے آمدن پر ہے۔ یہ ممالک تیل کی پیداوار میں کمی کے خواہش مند ہیں مگر
امریکہ ان کی راہ روکے ہوئے ہے۔عسکری مبصرین کے مطابق امریکہ ہر قیمت پر
اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنائے گا کیونکہ اس میں ناکامی کی صورت میں اسے
واحد سپر پاور کی اپنی حیثیت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ماہرین کا خیال ہے کہ
اگرتیل کی قیمتیں بدستور کم ہوتی رہیں تو ماسکو اور تہران چند سال بعد
پالیسیوں میں مزید تبدیلی پر مجبور ہوجائیں گے۔
روس دنیا بھر میں سب سے زیادہ تیل فراہم کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے جو
کہ تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باعث تجارتی خسارے سے بچنے کے لئے شرح
سود کو بڑھا کر17فیصد تک لانے پر مجبور ہو چکا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ
تیل کی عالمی قیمتوں میں ہردو ڈالر کی کمی سے روس کے قومی ریونیومیں2ارب
ڈالر کا نقصان ہوجاتا ہے۔عالمی بینک بھی متنبہ کر چکا ہے کہ اگر2015میں بھی
قیمتوں میں کمی کا رجحان برقرار رہا تو روسی معیثت کا حجم کم از کم0.7فیصد
کم ہو جائے گا۔روسی رہنما ولادیمرپیوٹن نے پہلے ہی اپنے ہم وطنوں پر واضح
کر دیا ہے کہملک کو 2015 میں معاشی بحران کا سامنا ہوگا۔تاہم یہ وہ نتائج
نہیں جس کی امریکہ کو توقع تھی۔واشنگٹن چاہتا تھا کہ تیل کی قیمتوںمیں کمی
کے ذریعے روس کوناٹو میں اپنا دائرہ وسیع کرنے اور وسطی ایشیاء بھر میں
امریکی فوجی اڈے قائم کرنے میں روس کی مزاحمت کو توڑا جا سکے۔امریکہ سعودی
عرب گٹھ جوڑ کے نتیجے میں تیل کی عالمی قیمتیںگزشتہ جون کے مقابلے میں نصف
سے بھی کم رہ گئی ہیں۔ریاض میں قائم سعودی عربیہ آئل پالیسیز اینڈ
اسٹراٹیجک سینٹر کے صدرراشد ابانمی نے واضح کیا کہ حکومت عوامی سطح پر تو
قیمتوں میں کمی کے لئے یہ موقف اختیار کر رہی ہے کہ وہ مارکیٹ شیئرز پر
قابو اور نئی مارکیٹوں میں جگہبنانا چاہتی ہے مگر درحقیقت یہ ایران اور روس
پردبائو ڈال کرتہران کا ایٹمی پروگرام اور شام میں فوجی سرگرمیاں محدود
کرنا چاہتی ہے۔امریکہ الزام عائد کرتا ہے کہ ایران اور روس حماس اور حزب
اللہ کو فوجی مدد فراہم کرتے ہیں جو اسرائیل کی راہ کے سب سے بڑے کانٹے ہیں
۔
پچھلے12 ہفتوں سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں تیزی سے گر رہی
ہیں۔امریکی۔سعودی ڈیل کے تحت تیل کی قیمتوں کو 2015کے اختتام تک کم یا مزید
کم ہونا ہے۔ تاہم تیل کی موجودہ سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین نے رائے دی
ہے کہ سعودی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیزکے اچانک انتقال سے مخالف سمت میں
دوڑنے والے تیل کی قیمتوں کے منہ زور گھوڑے کی لگامیں کھینچنا ممکن ہو سکے
گا اور سستے داموں تیل کی خریداری پر خوشیاں منانے والے ممالک کا ہنی مون
پیریڈ اختتام کو پہنچنے والا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ دوطرفہمعاہدیحکومتی سطح
پرمرتب کئے جاتے ہیں جس میں رہنمائوں کے منظر سے ہٹ جانے سے کوئی فرق نہیں
پڑتا مگر اس بات کے امکانات روشن ہو گئے ہیں کہ نئے بادشاہ یقینی طور پر
ایران اور روس کی اب تک کی مستحکم معیثت کو دیکھتے ہوئے اپنے فیصلے پر نظر
ثانی کے لئے مجبور ہو جائیں گے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2014میں دنیا میں تیل
کی مانگ91.1ملین بیرل تھی جس میں سے غیر اوپیک ملکوں نے 55.9ملین بیرل تیل
پیداکیا تھا۔ رواں برس 92.3ملین بیرل تیل کی پیداوار ہوگی اور اس میں سے
غیر اوپیک ملکوں کا حصہ57.3ملین بیرول ہوگا۔ موجودہ حالات میں بعض ماہرین
کا کہنا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کا سلسلہ زیادہ دن نہیں چلے گااورتیل
کی قیمت 90 ڈالر فی بیرل ہوجائے گی تاکہ سرمایہ کاری جاری رہے۔
امریکہ نے ایران اور روس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لئے دنیا بھر میں
تیل پیدا کرنے والے ممالک بالخصوص مشرق وسطیٰ میں اپنے ہی حلیف ممالک کی
معیثت اور سالمیت کو دائو پر لگا دیا ہے۔یہ صورت حال محض اتفاقاً پیدا نہیں
ہوئی ہے بلکہ امریکی پالیسی سازی پرکنٹرول رکھنے والی یہودی لابی نے طویل
منصوبہ بندی کے بعداپنے قانون سازوں کو ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیا جس
کے نتیجے میں آخر کار اسرائیلی جنگی طاقت میں مزید اضافہ ہو گااور اسرائیل
کو حقیقتاً ناقابل تسخیر بنایا جائیگا کیونکہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنے
مفادات کو تحفظ فراہم کرنے والا خطے کاواحد ملک اسرائیل کو ہی سمجھتا ہے جس
پر امریکی حکومتیں اب تک درجنوں ٹریلین ڈالرکی سرمایہ کاری کر چکی ہیں۔
امریکہ میں خواہ ری پبلکن کی حکومت ہو یا ڈیموکریٹس کی اسرائیل کا تحفظ اور
اس کافوجی دفاع ہر حکومت کی پالیسی کا بنیادی نکتہ ہوتا ہے۔ تیل کی قیمتوں
میں کمی خلیجی ممالک بالخصوص ایران کے لیے چیلنج بن گئی ہے تاہم آزاد
مبصرین کاکہنا ہے کہ اسرائیل کو نوازنے اور ایران کو سبق پڑھانے کا امریکی
خواب شاید پورا نہ ہو سکے۔ایرانی صدر حسن روحانی نے خبردار کیا کہ عالمی
سطح پر تیل کی قیمتیں گرانے کے ذمے دار اپنے اس فیصلے پر پچھتائیں گے اور
قیمتوں میں کمی کے اس بحران سے ایران کے ساتھ دوسرے ممالک بھی متاثر ہوں
گے۔ایرانی صدر روحانی اور روسی رہنما پیوٹن کے بیانات کی روشنی میں اگر
آزاد مبصرین کی آرا ء کو دیکھا جائے تو اس امر پر کسی کو شبہ نہیں ہونا
چاہئے کہ اسرائیل کو نوازنے اور ایران کو سبق پڑھانے کا امریکی خواب پورا
نہ ہونے کے باوجود امریکہ نے اپنے مفادات کے حصول کے لئے پوری دنیا کے 7ارب
سے زیادہ افراد کے مستقبل کو دائو پر لگا رکھا ہے۔ |
|