مسلم کانفرنس آزاد کشمیر کے صدر
سردار عتیق احمد خان یوں تو اکثر ’’ملٹری ڈیموکریسی‘‘ کی بات کرتے رہتے ہیں
اور ان کے تقریبا ہر بیان میں ’’ ملٹری ڈیموکریسی‘‘ کی حمایت ضرور کی جاتی
ہے۔تاہم اب ان کی طرف سے ایک مضمون بعنوان ’’ سول گورننس مکمل ناکام،سول
ملٹری گورننس ناگزیر ‘‘ تحریر کیا گیا ہے۔ اب معلوم نہیں کہ انہیں روزانہ
کے بیانات کے علاوہ اسی موضوع پر مضمون لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی،کیا
آزاد کشمیر کی سیاست میں یہ ’’نعرہ‘‘ ناکام ہو رہا ہے اور اسی لئے مضمون کے
ذریعے اس انداز فکر کی ’’ لام بندی‘‘ کی ضرورت درپیش آئی ہے؟یہ الگ بات ہے
کہ سردار عتیق احمد خان صاحب کی اس سوچ کو ان کی اپنی جماعت میں بھی
پذیرائی حاصل نہیں ہے۔ان کی وزارت عظمی کے دور میں ان کے سینئر وزیر ملک
نواز اور کئی دوسرے افراد نے اجلاسوں کے دوران کئی بار یہ واضح کیا کہ
ملٹری ڈیموکریسی اور مشرف حمایت سے متعلق ان کا موقف ان کے ذاتی خیالات ہیں۔
سردار عتیق صاحب نے اپنے مضمون اور ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ’’مفادات
کی سیاست کرنے والوں نے جمہوریت کو تباہی کے دہانے تک پہنچا چھوڑا ہے،ریاست
کو بچانے کے لیے سول ملٹری ڈیموکریسی گورنس کو اپنانے کی ضرورت ہے،کیونکہ
سول ڈیموکریسی گورنس کرپشن کی نظر ہوچکی ہے جبکہ ملٹری ڈیموکریسی فوج کے
لیے اور نہ ہی جمہوریت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے‘‘۔اپنے مضمون میں
لکھتے ہیں کہ’’ بطور مملکت پاکستان اور اُس کے قائدین کے قد کاٹھ میں وہ
مناسبت نہیں جو مطلوبہ قومی اہد اف پورے کر سکے ۔ اس بات پر بھی مجھے پوری
طرح شرح صدر اور اطمینان قلب ہے کہ سول گورننس (Civil Governance)مکمل طور
پر ناکام ہو چکی ہے جس کے متبادل کی تلاش ناگزیر ہے ۔ اس لیے طویل سوچ و
بچار مطالعے اور تجربے کے بعد میری رائے میں چندبنیادی اصلاحات ناگزیر ہیں
جن میں انتظامی اصلاحات اور انتظامیہ ، انتخابی ادارہ اور انتخابی اصلاحات
، عدلیہ میں عدالتی اور انتظامی اصلاحات کے ساتھ ساتھ یا بعد ان تمام
اداروں کے باوقار تال میل اور باہمی تعاون کو یقینی بنانے کے لیے ایک قومی
سلامتی کونسل(National Security Council) کی تشکیل وقت کی اہم ترین ضرورت
ہے ‘‘۔مزید لکھتے ہیں کہ ’’ہماری انتظامیہ /سول بیورو کریسی مسلح افواج کے
بعد دوسرا ایسا ادارہ ہے جو بے پناہ سیاسی دست برُد اور دخل اندازیوں کے
باوجود کسی نہ کسی حد تک اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے‘‘۔ اور آخر میں حاصل
بحث کے طور پر لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کسی بھی صورت مادرپدر آزاد جمہورت کا
متحمل نہیں ہو سکتا ۔ ہمیں مزید تاخیر کیے بغیرادارہ سازی اُن کے قواعد و
ضوابط اور اُن پر عمل درآمد کا ماحول پیدا کرنا ہو گا‘‘۔
بدقسمتی سے ہمارے کئی سیاستدان پاکستان کی خرابیوں اور خامیوں کو موجود ہ
حکومتوں کے ادوار کی روشنی میں ہی دیکھتے ہیں۔اپنے ماضی کو بھول چکے ہیں یا
جان بوجھ کر اس سے آنکھیں چراتے ہیں۔پاکستان میں آج انتظامیہ،حکومت،عدلیہ و
دیگر ملکی اداروں کی خرابیوں کی ذمہ داری سیاسی کلچر پر ڈال دی جاتی
ہے۔بلاشبہ آج ہمارا ملکی نظام عوامی اور ملکی مفادا ت کے تناظر میں خرابیوں
کی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ پاکستان کی اس تباہی اور بربادی کی ذمہ داری محض
موجودہ سیاستدانوں پر ہی نہیں عائید کی جا سکتی ۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم
کے قتل سے لیکر مختلف سازشوں کے چند سال گزارنے کے بعد آنے والا جنرل ایوب
کا وہ مارشل لاء کا دور ہے جس نے پاکستان کو اس کے اصل راستے سے’’ ڈی ٹریک‘‘
کر دیا۔ملک کی اصل طاقت اور قوت سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں (بدقسمتی سے سردار
عتیق صاحب بھی ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے دعویدار ہیں)جو ملک اور
عوام کو پیش رفت کے لئے سوچ و عمل کے راستے فراہم کرتی ہیں۔جنرل ایوب نے
اپنے مارشل لاء میں ہی خود کو حکومت کا’’ منتخب‘‘ آمرحکمران بنانے کے لئے
خود ساختہ الیکشن کا ڈول ڈالا تو ملک بھر کی سیاسی جماعتیں اور رہنما ملک
کے اس حال ہر سخت متفکر ہوئے اور جنرل ایوب کی بھر پور طاقت کے سامنے خود
کو بے بس و مجبور پاتے ہوئے مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کے پاس آ کر ان سے
عوام کی قیادت سنبھالنے اور جنرل ایوب کی آمریت کے مقابلے کی قیادت کی
درخواست کی۔مادرملت ضعیفی میں،بیماری میں گھر پہ تھیں لیکن ملک کو ہٹ دھرمی
پر مبنی غلط راستے پہ جانے سے بچانے کے لئے انہوں نے پاکستانی عوام کی
قیادت سنبھال لی۔ پاکستان کی اس سنگین صورتحال پر متفکر ہونے والے اور مادر
ملت کے پاس آنے والے سیاستدانوں میں وہ سیاستدان بھی شامل تھے جنہیں اور جن
کی جماعتوں کو باوجوہ ملک دشمن سوچ پر مبنی قرار دیا گیا۔ اس وقت کا سیاسی
کردار ایسا تھا کہ جنرل ایوب ان میں سے غدار پیدا نہیں کر سکا ،چناچہ
مادرملت اور عوام کا مقابلہ کرنے کے لئے جنرل ایوب نے ہر علاقے کے بد قماش
افراد کو اپنا امیدار بنایا۔جنرل ایوب کے اس الیکشن میں بھی مادر ملت کے
ٹکٹ یافتہ امیدار اکثریت سے جیت گئے تھے لیکن جنرل ایوب کی آمر و ظالم
حکومت نے پولیس،انتظامیہ کے ذریعے لالچ اور جبر سے مادرملت کے ٹکٹ پر
الیکشن جیتنے والے کئی کونسلروں کو اپنے ساتھ ملا لیا اور انہوں نے جنرل
ایوب کو ووٹ د ے کر صدر بنا دیا۔بتانے والے تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس
الیکشن میں بھی جنرل ایوب ہار گیا تھا لیکن اس کی آمر حکومت میں اس کے خلاف
انتخابی نتائج کا فیصلہ کس طرح ہو سکتا تھا ۔وہاں سے پاکستان کی سیاست کے
دروازے باکردار افراد کے لئے بند اور بدکرداری پر مبنی سیاست کے لئے کھول
دیئے گئے۔اس کے بعد جنرل ضیاء الحق اور پھر جنرل پرویز مشرف نے جنرل ایوب
کے تسلسل میں اپنا حصہ ڈالا اور اس چلن کو مضبوط بنایا۔آج کی سیاست کو
بدکرداری کا نمونہ کہنے والوں کو اس کے ذمہ داروں کی نشاندہی کا حوصلہ بھی
پیدا کرنا چاہئے۔
سردار عتیق صاحب نے کچھ ہی عرصہ قبل ایک حیران کن بیان دیا تھا کہ’’ پرویز
مشرف کو اس کے گھر والے بھی چھوڑ جائیں لیکن میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑوں
گا‘‘۔اس بیان کے مطلب پر جائیں تو انسان ہنسنے پر مجبور ہو جاتا ہے لیکن جب
یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا بیان دینے والا ایک سیاستدان ہے ،تو عوام رونے پر
مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہماری اس سیاست کی یہ سوچ ہے؟ہماری مخلصانہ رائے میں
فوجی اقتدار ، ملٹری ڈیمو کریسی اور سول ملٹر ی ڈیموکریسی کی باتیں کرنے
والے افواج پاکستان کے لئے ایسے’’ نادان دوست ‘‘ ثابت ہو رہے ہیں جن کے
مقابلے میں دانا دشمن کو بہتر قرار دیا جاتا ہے۔ایک بات یہ بھی ہے کہ ہمارے
کئی لوگ اب خالص چیزوں کے عادی نہیں رہے ،ان کی باتوں پر جائیں تو پھر خالص
فوجی آمریت ہی رائج نہ کر دی جائے؟ اورسیاسی بیروزگار’’ سیاست‘‘ کے علاوہ
اور کوئی کام ڈھونڈیں؟کہتے ہیں کہ دلوں کا حال اﷲ ہی بہتر جانتا ہے لیکن
سردار عتیق صاحب سیاسی اور روحانی کرامات کے باعث نیتوں کا حال بھی جان
لیتے ہیں،اس ’’ گہری سیاسی اور روحانی نظر ‘‘ رکھنے کے باوجود اگر ان کا
متمع نظر یہ ہے تو اس پر صرف اقبال کا یہ شعر ہی کہا جا سکتا ہے کہ
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
ہر ملک کی سوچ،فکر،مقاصد اور عمل کی راہیں سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ہی
متعین کرتی ہیں جیسا کہ پاکستان کا نظرئیہ،قیام پاکستان کی جدوجہد اور قیام
پاکستان، سیاسی جماعت اور سیاسی رہنما کا ہی اعجاز قرار پائی۔لیکن بدقسمتی
سے ہمارے ملٹری حاکمیت کی سوچ والوں نے سیاسی جماعتوں کا یہ حال کر دیا کہ
آج سیاسی جماعتوں کے نام پر شخصی،خاندانی،علاقائی اور فرقہ وارانہ وغیرہ
گروپ موجود ہیں جو خود کو سیاسی جماعتیں سمجھتے ہیں۔یہ جنرل ایوب ،جنرل
ضیاء اور جنرل مشرف کے ملک و عوام کے خلاف وہ ’’ کارہائے نمایاں‘‘ ہیں جن
کے بدترین نتائج آج ملک و عوام کو درپیش ہیں۔ملک میں فوج کی حاکمیت کے
خواہاں ہر معاملے میں فوج کو فرنٹ پہ لانا چاہتے ہیں تا کہ ہر معاملے میں
فوج سب سے پہلے براہ راست نشانہ بنے ۔جبکہ محب وطن عوام فوج کو اپنی دفاعی
قوت سمجھتے ہیں اور فرنٹ لائین پہ آ کر اپنی فوج کے لئے پہلی صف بننا چاہتے
ہیں، جیسا کہ ہر ملک میں ہوتا ہے کہ عوام ہی اپنی فوج کے اصل محافظ ہوتے
ہیں۔فوج کو سیاسی امور میں کردار دینے سے ہماری دفاعی قوت کو تنقید کا
نشانہ بھی بننا پڑتا ہے،جس کے متحمل ہم نہیں ہو سکتے۔مفاداتی اور طبقاتی
اہداف حاصل کرنے والے بے شک پاکستان کے لئے نت نئے راستوں کا انتخاب کرتے
رہیں لیکن قائد اعظم محمد علی جناح اور تحریک پاکستان کے کارکن اپنے
پاکستان کو صحیح راستے پہ چلانے کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور آواز
حق بلند کرتے رہیں گے۔یہ ہر گز نہ سمجھا جائے کہ قائدا عظم اور پاکستان کے
سپاہی سب مر گئے ہیں۔ |