آج کے اخبار میں محترم جناب
پرویز رشید صاحب کا بیان پڑھا موصوف نے فرمایا کہ ہم آمریت کا گند صاف کرنے
کی کوشش کررہے ہیں ۔ مجھے جمہوریت کے اس ارسطو کا بیان پڑھ کر خوشی بھی
ہوئی اور میں حیرت کی گہری گھاٹیوں میں بھی کھو گیا ۔ خوشی اسلئیے ہوئی کہ
چلو حکومت کوئی تو کام کررہی ہے ویلی تو نہیں بیٹھی اور حیرت در حیرت
اسلئیے ہوئی کہ جناب شاہسوار میدان جمہوریت کس گند کی بات کررہے ہیں ؟
کیونکہ مشرف کی باقیات تو اکثر انکے آقا نواز شریف کی جماعت میں موجود ہیں
، نحیف و صنف نازک محترمہ ماروی میمن صاحبہ سے لیکر قوی الجوثہ گوشت کے
پہاڑ امیرالمقام صاحب تک سبھی تو آج کی تاریخ تک جمہوریت کی علمبردار پارٹی
مسلم لیگ ن میں موجود ہیں ۔ ایسے میں پرویز رشید صاحب کس کی آنکھوں میں
دھول جھونک رہے ہیں ۔ ہاں البتہ پرویز رشید کے اس بیان کو جھولی چک دانشور
اور ڈھولچی اینکرز ضرور سراہیں گے ۔ رہی بات عوام اور جنتا کی تو وہ تو
دوبارہ مشرف جیسی آمریت کی دعائیں کررہے ہیں اور اپنی اس دعا کے لئیے عوام
الناس سو فیصد حق بجانب ہیں کیونکہ نام نہاد جمہوریت کی کوکھ عوام کے لئیے
بانجھ ہے اسکے پلے کچھ نہیں ، البتہ اس جمہوریت نے پنجاب میں حمزہ شہباز
اور سلمان شہباز کو ہر بڑے کاروبار کے سیاہ و سفید کا مالک و مختار بنا دیا
ہے اور سندھ میں جمہوریت کھپے نے تمام بڑی شوگر ملز پاکستان کے نیلسن
منڈیلا آصف زرداری کی جھولی میں ڈال دیں ہیں ۔ اب آپ کے سامنے آمریت کا گند
رکھتا ہوں اور طفیلی دانشوروں اور جھولی چک اینکروں کو دعوت شرم و غیرت
دیتا ہوں - اکانومی گروتھ ضیاء الحق کے دور میں 5.88، ایوب خان 5.68 پرویز
مشرف 5.41، آصف زرداری ۔2.67 ، نواز شریف ۔3.17 اگر جی ڈی پی گروتھ بھی
دیکھیں تو آمریت کے ادوار میں سب سے زیادہ تھی ۔ اب پرویز مشرف کے دور کے
مذید گند ملاحظہ کریں ۔ مشرف دور میں پاکستانی معیشت چائنہ اور انڈیا کے
بعد تیسری تیزی سے ترقی کرنے والی اکانومی تھی ۔ انڈسٹری کی گروتھ ٢٦٪ تک
بڑھ چکی تھی اور پرویز رشید کی گورنمٹ نے انڈسٹری کا دھڑن تختہ کردیا ہے ۔
مشرف دور میں گاڑیاں ریوڑیوں کی طرح بانٹی گئیں انھوں نے پٹرول بحران کرکے
پہیہ جام کردیا ۔ انسٹی ٹیوٹ آف سپیس اینڈ ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی گئی ۔
تعلیمی اداروں کا جال بچھایا گیا ، کالجز اور یونیورسٹیاں بنائی گئیں ۔
جمہوری مداریوں نے اگر کسی سکول میں دو اینٹیں بھی لگائی ہیں تو بتائیں ۔
مشرف کے دور میں 99,319 تعلیمی ادارے بنے اور لٹریسی ریٹ ٥٣٪ تک پہنچ گیا
جبکہ جمہوری جگاڑی ادارے برباد کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ مشرف دور
میں صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی موجودہ نوسربازوں کے دور میں جعلی
ادویات سے سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے ۔ بے شرموں کے کان پر جوں تک نہیں
رینگی ۔ کاش پرویز رشید اینڈ کمپنی مشرف جیسا گند ڈالتی تاکہ عوام کو سکھ
کا سانس آتا ۔ الله کرے کوئی مشرف جیسا گند ڈالنے دوبارہ آئے اور جمہوری
جگاڑیوں کا صفایا ہمیشہ کے لئیے کردے ۔ مشرف نے بلدیاتی الیکشن کروا کر
اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا ۔ جمہوری نوسربازوں نے گند سمجھ کر پورے
بلدیاتی نظام کا صفایا کردیا اور بے شرمی سے جمہوریت کے ٹھیکدار بنتے ہیں ۔
جمہوریت اداروں کی کارکردگی سے پہچانی جاتی ہے کوئی ایک ادارہ ٹھیک کام
کررہا ہے تو بتائیں ۔ موصوف کی موجودگی کا ادراک ہوتا ہے اسکی صفت سے ۔ صفت
موجود نہیں کوئی اور طفیلی نیم دانشور موصوف ہم سے منوانا چاہتے ہیں ۔ جاہل
ڈھولچی اینکر تو مان سکتے ہیں مگر جنھیں الله نے شعور دیا ہے وہ صفات و
خوبی دیکھنے کا تقاضہ کریں گے کیونکہ صفت و موصوف لازم و ملزوم ہیں - صفت
اگر ہے تو موصوف کے وجود کو ماننا پڑے گا ۔ یہ چند لائنیں ذرا علمی و ثقیل
ہیں آسان کرتا ہوں ، ہم سے جمہوریت کا وجود منوانے والے اسکی خوبی و صفت تو
دکھلائیں کیونکہ جمہوریت ہے موصوف اور کارکردگی ہے اسکی صفت ۔ جمہوریت کوئی
مجسم شکل نہیں رکھتی اپنی صفات اور کارکردگی سے پہچانی جاتی ہے ۔ جب صفت
یعنی کارکردگی کا نام و نشان ہی نہیں تو پھر موصوف یعنی جمہوریت کا وجود
کیسا ؟
اس بانجھ خاندانی جمہوریت سے مشرف کی آمریت ہزار گنا بہتر تھی پرویز رشید
صاحب آمریت صرف مشرف کی نہیں تھی غازی امیرامئومنین ضیاء الحق بھی آمر اور
ڈکٹیٹر تھے اور انکا نواز شریف کی صورت میں ڈالا گند قوم آجتک بھگت رہی ہے
اسطرف بھی تو جناب اپنی توجہ کا رخ کریں ۔ نونیوں اور طفیلی دانشوروں کو
ایک عجیب عارضہ لاحق ہے انکی سمجھدانی بہت چھوٹی ہے جسمیں مشرف کی آمریت
گھس بیٹھی ہے اور ضیائی آمریت انکی کھوپڑی شریفیہ میں جگہ نہیں پاتی ۔ |