كامریڈ لعل خان، میڈیكل كالج كی لیڈری سے
جیل، جلا وطنی اور دانشوری، ہر رنگ میں رنگِ بہاری- گزشتہ دنوں كامریڈ لعل
خان كی خوابوں سے بھرپور تحریر نظر سے گزری اور یوں لگا كہ موسمِ بہار سے
عین اس كے عالمِ شباب میں ملاقات ہوگئی - اگر آپ نے كامریڈ لعل خان سے واقف
نہیں تو آپ پاكستان میں بائیں بازو كی انقلابیوں اور انقلابی جدوجہد سے كم
كم آشنا ہیں - جن لوگوں نے ان كی تازہ تصنیف نہیں پڑھی وہ شاید پاكستان میں
بائیں بازو كی جدوجہد اور بعد از مرگِ روس سوشلسٹ انقلابی نظریات كے
ارتقائی عمل سے پوری طرح واقف نہ ہوسكیں - وہ لوگ جنہوں نے ہمارے موجودہ
وزیر اعظم كی كتاب پڑھی تھی انہیں تو یہ كتاب لازماً پڑھنا چاہئیے - گو
كامریڈ لعل خان كی تحریر پر برطانوی سوشلسٹ مفكر ایلن ووڈ كی نظریاتی چھاپ
نمایاں ہے لیكن اس كتاب میں پاكستانیت كافی حد تک موجود اور محفوظ ہے-
كامریڈ لعل خان كو پڑھنے كے بعد آپ كو محسوس ہوگا كہ وہ اور ان كے دانشور
ساتھی آج بھی پاكستان میں سوشلسٹ انقلاب كے امكانات دیكھ رہے ہیں - وہ ١٩٦٨
میں پاكستان میں سوشلسٹ انقلاب برپا نہ ہونے كو اپنی نظریاتی شكست نہیں
سمجھتے بلكہ اس وقت كی سوشلسٹ لیڈر شپ میں اخلاص كی كمی كو اس كا ذمہ دار
سمجھتے ہیں - سادہ زبان میں، وہ ١٩٧٠ كے الیكشن میں پاكستان پیپلز پارٹی كی
فتح كو پاكستان میں سوشلسٹ تحریک كی بدنصیبی سمجھتے ہیں - ان كا خیال ہے كہ
آج بھی، ١٩٦٨ كی طرح، پاكستان میں ایک نظریاتی سوشلسٹ انقلاب كی فضاء موجود
ہے اور آج بھی ١٩٧٠ كی طرح پاكستان پیپلز پارٹی اس انقلاب كی راہ میں خود
مزاحم ہے- خواب كہیے یا خوب كہیے آپ كی مرضی مگر كامریڈ لعل خان كے خیال سے
پاكستان میں نظریاتی سوشلسٹ انقلاب كا موقع آج پھر حاضر اور موجود ہے-
كامریڈ لعل خان اور ان كے نظریاتی ساتھیوں كی طرح الطاف شكور اور دائیں
بازو كے بہت سارے نظریاتی كاركنوں كو بھی ایسا ہی دكھ لاحق ہے- انییں بھی
ایسا ہی گمشدہ اور گنوایا ہوا اسلامی انقلاب برپا كرنے كا موقع بار بار یاد
آتا ہے- وہ ١٩٧٧ میں نو ستاروں كی جدوجہد كو اپنی تحریک كی انتہا قرار دیتے
ہیں اور اس تحریک كی ناكامی اور انقلاب برپا نہ ہونے كا ذمہ دار نو ستاروں
كی اس وقت كی قیادت كو قرار دیتے ہیں -ہائے اس سادگی كا كیا كیجئے؟ نو
ستاروں كے ایک ستارہ خان عبد الولی خان اور نظام مصطفیٰ؟ ایک اور ستارہ
ائیر مارشل اصغر خان اور اسلامی انقلاب؟ خواب دیكھنے اور دكھانے والے اتنے
اندھے گونگے اور بہرے كیوں ہوتے ہیں؟ برا ہو جنرل ضیاء كی حقیقی سیاست اور
حق پرستانہ سازشوں كا دائیں بازو كے پاس تو كچھ بھی نہیں بچ- ، دائیں بازو
كے خواب دكھانے والوں كو جنرل ضیاء الحق نے دانشور سے بدل كر درباری بنا
ڈال- شاید پاكستان كے دائیں بازو كو ایک طویل سیاسی چلّے كی ضرورت ہے- كاش
ایک مرتبہ پھر كوئی اسلامی انقلاب اور سبز انقلاب كے نئے نعرے لگائے اور
نئی امیدیں جگائے - بس پاكستانی دائیں بازو كو ایک یاد دہانی، وہ رحمتِ دو
عالم، بشیر پہلے تھے، نذیر بعد میں- خواب جگاؤ خواب دیكھو اور خواب دكھاؤ
كہ ہر نئی دنیا خوابوں سے ہی جنم لیتی ہے-
لگتا ہے اس مرتبہ پاكستان كے دائیں اور بائیں بازو والوں كے دكھوں سے ملتے
جلتے دكھ امریكیوں كے حصے میں بھی آگئے اور ہمارا ١٩٦٨ اور ١٩٧٧ والا تجربہ
امریكہ میں دہرایا جانے والا ہے - امریكی سیاست میں باراک اوبامہ كےطلوع كے
پسِ منظر میں بھی خواب ہی كارفرما تھے اور ہیں - باراک اوبامہ كے سیاست میں
آنے اور چھا جانے كے حوالے سے لكھی گئی گوین افِل كی كتاب "اوبامہ كے دور
میں نسل اور سیاست" اور جباری عاصم كی كتاب "اوبامہ ہمارے معاشرے، ہماری
سیاست اور ہمارے مستقبل كیلئے كیا معنی ركھتے ہیں؟" امریكی ووٹروں اور عوام
كی بڑی تعداد كے خوابوں كی عكاسی كرتی نظر آتی ہیں- كالے اور گورے كی
مساوات كا خواب، روزگار اور ترقی كے یكساں مواقع كا خواب، عزت اور پسندیدگی
كی نظروں سے دیكھے جانے كا خواب، تاج اچھالے جانے اور تخت گرائے جانے كا
خواب، گراوٹ كو رفعتوں میں بدلتے دیكھنے كا خواب، نیلی امریكی آنكھوں كا
آزاد اور بےفكر زندگی كا حسین خواب كالی آنكھوں میں منتقل ہوتے دیكھنے كا
خواب - خواب دكھانے والوں نے خوب خوب خواب دكھائے مگر كاش كوئی امریكی
ووٹروں كو یہ بھی بتاتا كہ انٹرنیٹ پر باراک اوبامہ كے فیس بک (face book)
كے صفحات كیا بتا رہے ہیں- موصوف كی پسندیدہ كتب كی فہرست میں موجود تقریباً
ساری ہی كتابیں عملیت پسند اور وقت كی نبض پر ہاتھ ركھنے والوں كی لكھی
ہوئی ہیں، خواب دیكھنے اور دكھانے والوں كی لكھی ہوئی نہیں- تاہم فہرستِ
كتب میں شكسپئیر كی تصانیف كی شمولیت باراک اوبامہ كی فصاحت اور بلاغت كے
اسباب كا پتہ دیتی ہے اور شاید اسی لئے ان كی تحریر اور تقریر كا لوہا
امریكی اور بین الاقوامی صحافت نے مانا ہے - فہرستِ كتب كے تقریبا" آخر میں
بائیبل كا بھی تذكرہ ہے مگر بائیبل میں بھی آخرت میں بخشش كی بات ہی ہے اور
دنیا كا معاملہ اعمال اور محنت پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے- مگر خواب دیكھنے
والوں نے كب باریكیوں كو گھاس ڈالی ہے -
یوں تو اوبامہ كا امریكی سیاست میں جنم لینا اور ایسا اہم مقام حاصل كرلینا
ہی ایک دلكش خواب سے كیا كم تھا كہ قدرت نے فصاحت اور بلاغت كے ہتھیاروں سے
بھی اس حسین كو مسلح كردی- خوابوں كی وہ جنت بسائی ہے اس كے وجود نے امریكہ
كا ہر محروم اور مظلوم امید كے خوبصورت جہانوں كا عارض ہو چلا - تاہم باراک
اوبامہ كی حكومتی ٹیم كے تمام عہدیداروں كو سرسری طور پر دیكھنے كے بعد
امریكی عوام كے خوابوں كا شیرازہ بكھرتا ہی نظر آتا ہے- باراک اوبامہ!
تبدیلی كا نقیب، نئے دور كا پیامبر، انقلاب انقلاب امریكی انقلاب كی علامت،
اور یہ ٹیم؟ جارج بش كی حكومت كی بہت سارے حصہ داروں كو ہیلری كلنٹن اور
راھم ایمانئیول كے ساتھ ملا كر جو كچھ بنا ہے اس نے یقین اور خوش فہمی
دونوں ہی رفو چكر كر دئیے - كیا ٹیم بنائی ہے جنابِ اوبامہ نے- دیكھنا یہ
ہے كہ كیا یہ ٹیم گھر كی چھت اور عزت كی روٹی كے خوابوں میں غرق، علاج،
تعلیم اور مساوات كے متلاشی اور صدیوں كی محرومی اور بے عزتی كا شكار
امریكیوں كے دكھوں كا مداوہ تو دور كی بات ہے، ان كا ادراک بھی كرسكے گی؟
اس ٹیم كو دیكھ كر بظاہر تو یہی محسوس ہوتا ہے كہ كارپوریٹ امریكہ كا
سرمایہ دارانہ راج جوں كا توں جاری و ساری رہے گا اور خواب حقیقت نہیں بن
سكیں گے- لگتا ہے امریكہ میں بھی دكھی سیاسی كاركنوں كی ایک كھیپ تیار ہو
رہی ہے-
كچھ بھی ہو خواب دكھانا اور خواب جگانا بہت بڑا كام ہے- بڑا نفع ہے اس كام
میں - ذوالفقار علی بھٹو نے عوام كو كچھ اور دیا ہو یا نہ دیا ہو، بھٹو كے
الیكشن جیتنے كی صورت میں عوام كو مساوات اور برابری كا ایک احساس ضرور ملا
تھ- عوامی فتح كے احساس كی دولت كی كمائی كھانے والے آج تک كھا رہے ہیں- جو
نہیں كھا پارہے وہ بیچارگی سے كڑھ رہے ہیں، پچھتا رہے ہیں - باراک اوبامہ
گو جارج بش سے زیادہ وسیع المطالعہ نہیں اور نہ ہی اب تک انہوں نے بش كی
طرح ایک سال میں ٩٥ كتابیں پڑھنے كا دعویٰ كیا ہے-لیكن بظاہر جارج بش سے
نسبتا كم كتابیں پڑھ كر بھی باراک اوبامہ نے دنیا كے عملیت پسند لكھاریوں
سے خواب دكھانے كا ہنر خوب سیكھ لیا ہے- جس ذہین آدمی نے عملیت پسندوں كی
تصانیف كا مطالعہ كیا ہو، شكسپئیر كو پڑھا ہو اور سوئیكارنو اور سوہارتو كے
انڈونیشیا میں عمر كا كچھ حصہ گزارا ہو وہ یہ ہنر كیوں نہ سیكھتا؟ دیكھیں
ڈیموكریٹ پارٹی، امریكی استعمار اور باراک اوبامہ خوابوں كی سوداگری كر كے
جمع كی ہوئی اس دولت سے كب تک مستفید ہوتے ہیں- یہ دولت امریكہ ہی نہیں،
افریقہ، لا طینی اور جنوبی امریكہ، ایشیا اور باقی دنیا میں امریكہ كے بہت
كام آئے گی- امریكہ كی بے اعتبار سفارت اور گرتی ہوئی معیشت كو اس سے اچھا
كوئی اور سہارا نہیں مل سكتا تھ- مگر، میں امریكہ میں بھی بہت سارے، بہت ہی
سارے، بیچارے الطاف شكور اور كامریڈ لعل خان دیكھ رہا ہوں- |