پاکستان میں بلیک واٹرز کی
موجودگی اور ان کی سرگرمیاں آج کل زیر بحث ہیں پاکستانی وزیر داخلہ نے
پاکستان میں بلیک واٹرز کی موجودگی کے امکان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے دعویٰ
کیا کہ کوئی شخص اس بات کو ثابت کر دے۔ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔
تاہم گزشتہ دنوں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے بلیک واٹرز کی پاکستان میں
موجودگی کا بر ملا اعتراف کیا تو معاملہ پارلیمنٹ تک پہنچ گیا جہاں حکومتی
اور اپوزیشن ارکان کی طرف سے بہت لے دے ہوئی جس پر وزیر اطلاعات قمر الزمان
کائرہ نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر بڑے طنطنے سے کہا کہ ”کس نے کہا ہے کہ
بلیک واٹرز“ کا پاکستان میں وجود نہیں ہے جب ان کی توجہ رحمٰن ملک کے بیان
اور دعویٰ کی طرف دلائی گئی تو انہوں نے اس بیان سے لاعلمی کا اظہار کیا
پاکستان میں بہت زیادہ شور مچنے پر امریکی حکام نے پاکستان میں بلیک واٹرز
کی موجودگی سے انکار کردیا جس پر پاکستانی حکام نے بھی اپنا مؤقف تبدیل کر
لیا تاہم امریکی حکام اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں مختلف نوعیت
کے ٹھیکیدار سرگرم ہیں جن کو سفارتی تحفظ بھی حاصل ہے یہ بات بھی ثابت ہو
چکی ہے کہ بلیک واٹرز یا کوئی دوسری تنظیم پاکستان میں سکیورٹی اہلکاروں کو
تربیت دینے کی غرض سے موجود ہیں۔ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کے دسمبر میں
دورہ عراق کے موقع پر عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے ان سے ملاقات کرنے سے
انکار کر دیا لیکن 8 دسمبر کو بم دھماکوں میں 127 عراقیوں کی ہلاکت پر
ارکان پارلیمنٹ سخت طیش میں تھے نوری المالکی چھ گھنٹے تک پارلیمنٹ میں
معافی مانگتے رہے لیکن ان حالات میں بھی امریکی وزیر دفاع سے ملاقات کیلئے
مختصر سا وقت نکالاجا سکتا تھا لگتا ہے کہ کوئی ایسی بڑی بات ضرور ہوئی جس
کی وجہ سے وزیرا عظم نے طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی۔
10 دسمبر کو ایک خبر کے ذریعے معلوم ہوا کہ بلیک واٹرز نامی سکیورٹی فرم نے
سی آئی اے سے عراق میں گرین زون میں ان کے دفاتر اور ایجنٹوں کی حفاظت کا
ٹھیکہ حاصل کیا تھا لیکن رفتہ رفتہ وہ عراق میں انسداد دہشتگردی کے خلاف
آپریشنز میں ملوث ہو گئی۔ اس آپریشن کو ”چھینو اور پکڑو“ کا نام دیا گیا۔
یہ ایک غیر قانونی عمل تھا جس میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کے ملازمین کے
بجائے بلیک واٹرز نے مشتبہ افراد کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی اور اغواء کے بعد
انہیں امریکی حکام کے حوالے کرنا شروع کر دیا۔ 2004ءسے 2006ء تک جب امریکی
فوج کے خلاف بغاوت عروج پر تھی سی آئی اے اپنی کاروائی ہمیشہ رات کے وقت
کرتی اس کاروائی کے دوران بلیک واٹرز کا کام سی آئی اے ملازمین کو تحفظ
فراہم کرنا تھا لیکن درحقیقت ایجنسی اور بلیک واٹرز پارٹنر بن گئے اور
مشترکہ طور پر کام کرنے لگے تھے نیو یارک ٹائمز نے ایجنسی کے ایک اعلیٰ
افسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس پارٹنر شپ میں بلیک واٹرز کو زبردست مالی
فائدہ ہوا حقیقت میں لگتا ہے کہ بلیک واٹرز ایک نجی کمپنی نہیں ہے بلکہ سی
آئی اے کی کوئی توسیعی تنظیم ہے۔ ایجنسی کے ترجمان نے کہا کہ ٹھیکیداروں کی
خدمات حاصل کرنے سے ایجنسی کو اپنے کام انجام دینے میں کچھ لچک حاصل ہو
جاتی ہے اورا س کی اپنی افرادی قوت کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بلیک
واٹرز کے ترجمان کا کہنا ہے کہ عراق، افغانستان سمیت کسی بھی ملک میں سی
آئی اے کے خفیہ چھاپوں میں شامل ہونا اس کے معاہدے میں شامل نہیں ہے۔
حقیقی ایشو بھی یہی ہے کہ یہ کام کنٹریکٹ کا حصہ تھا نہ ہی قانونی طور پر
کنٹریکٹ میں شامل ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ عمل ہوا بلیک واٹرز کی
ان سرگرمیوں سے سی آئی اے کے اعلیٰ افسر بھی آگاہ تھے۔ ایک سابق گارڈ کے
مطابق جب ایجنسی کے سربراہ ایرک پرنس بغداد آئے تو انہوں نے اپنے اہلکاروں
کو تلقین کی کہ وہ سی آئی اے کی طرف سے مدد کریں۔ ایسا ممکن نہیں کہ
2004ءسے 2007ءتک بلیک واٹرز کی ان غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں بغداد
اور واشنگٹن میں فوجی اور سی آئی اے حکام اس سے لاعلم ہوں۔ یہ بھی ثابت ہو
چکا ہے کہ بلیک واٹرز نے ان کاروائیوں میں وہ ہتھیار استعمال کئے جن کا
قانونی طور پر ٹھیکیداروں کیلئے استعمال ممنوع ہے۔ افغانستان میں بلیک
واٹرز کے استعمال بارے معلومات بھی اب خفیہ راز نہیں ہیں تاہم پاکستان میں
بلیک واٹرز کی سرگرمیاں روز برور بڑھتی جا رہی ہیں۔ اگرچہ امریکی اور
پاکستانی حکام بار بار اس سے انکار کر رہے ہیں۔ لیکن پشاور اور اسلام آباد
کے پوش علاقوں میں نوگو ایریا اور لاہور کے فائیو سٹار ہوٹلوں میں عام
مہمانوں یہاں تک کہ عملہ کیلئے بھی ممنوع فلور اپنی پر اسراریت کی کہانی
بیان کر رہے ہیں یہ کہانی اب کراچی کے گلی کوچوں میں بھی سنی جا رہی ہے یہ
بھی اطلاع ہے کہ بلیک واٹرز کو افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں میں
پاکستان کی مقامی زبانیں لکھائی جاتی ہیں مختلف شہروں کے جغرافیہ سے آگاہ
کیا جاتا ہے اور بھر پور تربیت دے کر پاکستان بھجوایا جاتا ہے جو یہاں
سیاسی، سماجی، اقتصادی شعبوں میں اپنے تعلقات مضبوط کر رہے ہیں۔ |