بلا شبہ یہ حقیقت تو کسی عقلی و نقلی دلیل کی محتاج نہیں
کہ دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان نے جو قربانیاں دیں ہیں انکی
مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ ماضی تاحال پاکستان انتہاء پسندی کے خاتمے کیلئے
جس انداز میں کوشاں رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔اور پاکستان کی انہی ناقابلِ
فراموش قربایوں کے پیشِ نظر عالمی سطح پر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اس
کاشمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو براہ راست دہشتگردی کے خاتمے کیلئے کوشاں
ہیں ۔
مگر دوسری جانب یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی ا ن لا زوال
قربانیوں کے باوجود ہر سطح پر اس کے استحقاق کو مجروح کیا جاتا رہا ہے اور
ابھی تک کیا جارہا ہے۔ ایک طرف تو ہم انسدادِ دہشتگردی کیلئے اپنا سب کچھ
داؤ پر لگائے بیٹھے ہیں جبکہ دوسری جانب ستم ظریفی یہ کہ ہم ہی کو اس کا
قصور واس ٹھہرایا جاتا ہے۔اور اس سارے عمل میں پاکستان مخالف قوتوں اور
مغربی میڈیا کا بڑا اہم کردار رہا ہے جنہوں نے پورے زور و شور سے اس سارے
عمل کو سپورٹ کیا ۔
جبکہ اگر یہی بات امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے پسِ منظر میں کہی جاتی تو
غلط نہ ہوتا۔ کیونکہ انکی پوری تاریخ کوئی امن پسندی کے ایوارڈز سے نہیں
بھری پڑی بلکہ پر تشدد واقعات انکی تاریخ کی زینت ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہمیشہ
ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلمانوں اور باالخصوص پاکستان سے متعلق
واقعات کو ہوا دی جاتی ہے جبکہ پاکستان مخالف قوتوں کے کالے کرتوتوں پر
پردے ڈالے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں تصویر کا ایک ہی رخ نظر آتا ہے جبکہ
دوسرا رخ پوشیدہ رہتا ہے۔اور ان افعالِ مکروہہ پر اول تو کوئی بولتا نہیں
اور اگر کوئی بولنے کی ہمت کر تا ہے تو اسکی گزا رشات کونظر انداز کر دیا
جاتا رہا ہے۔
نتیجتاََ دنیا کو تہذیبِ حاضر کا چہرہ تو نظر آتا ہے لیکن امریکہ کا وہ
مکروہ چہرہ جو خونِ انسانیت سے رنگا پڑا ہے نظر نہیں آتا۔رپورٹس کے مطابق
امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں شدت پسندوں کے نیٹ ورک خطرناک حد تک مضبوٹ
اور فعال ہیں۔مگر ان پر بات کرنے کی جسارت کہئی بھی نہیں کرتا۔
بے گناہ اور معصوم لوگوں کو جس انداز میں مارے جا رہے ہیں وہ محتاجِ بیاں
نہیں۔ ایشیا اور افریقہ کے برِ اعظموں میں نصرانیت کے فروغ و تبلیغ کیلئے
وحشیانہ کاروائیوں میں لاکھوں انسانوں کی جانوں سے جو کھیل کھیلا گیا وہ
کسی مسلمان یا کسی پاکستانی کا رنامہ نہیں بلکہ ٓاج کے نام نہاد انسانیت کے
ٹھکیداروں کے ہی کارنامے ہیں۔افریقہ کے کڑوڑوں سیاہ فاموں کو لاکر غلام کسی
پاکستانی نے نہیں بنایا ۔بلکہ یہ اس کا اجر بھی انہی لوگوں کوجاتا ہے جو
انسانیت کے ٹھکیدار بنے بیٹھے ہیں۔
1942 میں ایک اسپینی پادری نے Bartolomede Deals اصل امریکی باشندوں کے قتل
عام کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان
کیا کہ جب اسپینیوں نے جزیرہ Hispaniola پر قبضہ کیا تو اس وقت وہاں کے
باشندوں کی تعدا د تین ملین تھی جبکہ بعد میں وہاں بچ جانے والوں کی تعداد
صرف چند سو میں رہ گئی۔ اسپینیوں کے چالیس سالہ دورِ ظلم و جاحیت میں بارہ
ملین انسان موت کے گھاٹ اترے ۔مگر انکے قاتل آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں
اور تو اور ٓاج دنیا کو امن کا درس بھی وہیں سے مل رہا ہے۔ افغانستان، برما،
فلسطین و دیگر علاقوں میں انسانیت کے قتلِ عام میں مسلمان ملوچ نہیں۔ اور
ستم طریفی یہ کہ ان سارے کارناموں کے باوجود انتہاء پسندی کا الزام صرف ہم
ہی پر لگایا جاتا ہے جنہوں نے انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے ان گنت قربایاں
دے رکھی ہیں اور ابھی تک دے رہے ہیں۔ کیا یہ انصاف کا عالمی معیار ہے؟
بہر حال یہ وہ چند حقائق ہیں جن پر تاریخِ عالم شاہد ہے اور یہاں پر اس
ساری صورتِ حال میں ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ کم از کم اپنے حقوق
کیلئے آواز اٹھانا ہما راحق ہے کیونکہ یہ بات کسی صورت بھی قبول نہیں کہ
ایک طرف اس جنگ میں ہم ہی قربانیاں دیں اور دوسری جانب ہم ہی کو ملزم
تھرایا جائے۔ اور اسی سلسلہ میں وزیرِ داخلہ صاحب کی وائٹ ہاؤس میں تقریر
انتہائی قابل ستائش ہے جس میں انہوں نے دہشتگردی کو عالمی مسلہ قرار دیتے
ہوئے کم از کم اس تعصر کی نفی کی کہ دہشتگردی صرف اسلام یا پاکستان کے ساتھ
منسلک ہے۔
اور یہی وہ نقطۂ نظر ہے جو ہم پچھلے کئی سالوں سے قارئین کی خدمت میں پیش
کر رہے ہیں کہ دہشتگردی اور شدت پسندی کو صرف مسلمانوں کے ساتھ منسوب کر
دینا حقائق سے نظریں چرانے والی بات ہے کیونکہ جو لوگ آج انسانی حقوق کے
تحفظ کے علمبردار بنے بیٹھے ہیں انکے اپنے ہاتھ مظلوموں خون سے رنگے پڑے
ہیں۔ اور اس مسلے کادیر پا حل بھی اسی صورت میں ممکن ہوگا کہ جب برابری کی
سطح پر اس مسلے کو Address کیا جائے۔ |