سینٹ کا الیکشن اور گھوڑے

سینٹ جسےایوان بالا بھی کہتے ہیں کےآدھےممبران کا الیکشن مارچ کے پہلے ہفتہ میں ہونےجارہا ہے۔ بڑی اہمیت کاحامل ہے۔ اور یہ اہمیت کئی حوالوں سے ہے۔ ایک اہمیت یہ ہے کہ اس الیکشن کے بعد سینٹ میں پارٹیوں کی نمائندگی کی پوزیشن کو بدل جائے گی۔ پیپلز پارٹی جوکہ سینٹ میں اکثریت کی حامل پارٹی ہےاب شاید وہ دوسری بڑی پارٹی بن جائے۔ برسراقتدار پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن کویہ الیکشن سینٹ میں اکثریت ممبران کی حامل پارٹی بنا دے گااورپھراس کا سینٹ میں اپنا چیئرمین بھی بنے گا۔ تحریک انصاف پہلی بارسینٹ میں نمائندگی حاصل کرے گی۔ مگر اصل اہمیت اس الیکشن کی یہ نہیں ہے۔ ہونے والے الیکشن درحقیقت کرپشن جسے ہارس ٹریڈنگ کا نام دیا جارہا ہے۔ کی وجہ سے اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ ایوان بالا کے ممبران کاالیکشن روپے پیسہ کے بل بوتے پر ہوگا اور امیدوارہرطرح کے ہتکنڈے استمال کریں گے۔ یہ ہارس ٹریڈنگ ہے کیا ! بنیادی طورپر ہارس ٹریڈنگ گھوڑوں کی خرید و فروخت، ہے.اور فروخت کے لئےپیش ایک ایسا گھوڑاجس کےامتیازات وخصوصیات کا جائزہ لینے کے بعد خریداری کی جائے۔ جب فروخت ہونے والی چیز گھوڑا نہ ہو اور وہ چیز جواصل میں برائے فروخت بھی نہ ہو۔یعنی یہ کوئی کاروبار نہ ہو مگر فریقین اس کوکاروباربنالیں توپھریہ سب کچھ غیر قانونی اور بےایمانی تصور ہوتا ہے۔ پاکستان میں کافی سالوں سے یہ مکروہ ،کاروبار، بے ایمانی کا دھندہ ہورہا ہے۔ بدقستمی سے ایسا سینٹ کے الیکشن کو جیتنے کے لیے ہوتا رہا۔ کبھی کسی پارٹی نے بھاری رقوم اور مراعات لے کر کسی دولت مند کو ٹکٹ دے دیا تو کبھی کسی دولت مند نے اپنی دولت سے ووٹرز کو ہارس یعنی گھوڑا سمجھ کرخرید لیااورسینٹ کا ممبربن گیا۔ روپے پیسے کے اس عمل دخل نے ایسا کھیل کھیلا کہ اس کو روکنا مشکل ہوگیا ہے۔ حکومت 22 ویں ترمیم لے بھی آئی تو بھی اس پرقابو پانا کافی مشکل ہے۔ اصل مسئلہ نئی ترمیم نہیں ہے۔ بلکہ وہ انتخابی اصلاحات ہیں جوسینٹ سمیت تمام الیکشن کے لیے ہوں۔ اصلاحات سے بھی پہلے اور اسی سلسلہ کی کڑی کے طور پرضروری ہے کہ ہمارا ،الیکشن کمیشن مکمل طور پر آزاد اور خود مختیار ہو۔ویسے تو الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جس کوآئین کے تحت اختیارات حاصل ہیں۔ مگر اس سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ اداررہ حقیقت میں بااختیار نہیں ہے۔ آئین کی اصل روح کے مطابق کام نہیں کررہا۔ اگریہ ادارہ واقعی ہی آزاد اور خود مختیار ہوتا تو کسی بھی سطح کےالیکشن میں دھونس دھاندلی ہارس ٹریڈنگ نہ ہوتی۔ قانون بنادئیے جاتے ہیں قوائد و ضوابط طے کر لیے جاتے ہیں مگر جب عمل درآمد کی بات ہوتی ہے تو پھروہ حقیقی سازگار ماحول اور کلچر پیدا نہیں کیا جاتا۔ سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کے سدباب کی خاطرحکومت 22 ویں ترمیم لانے کے لیے متحرک ہوئی۔ اورایم کیو ایم‘ اے این پی، مسلم لیگ(فنکشنل)، مسلم لیگ(ضیاء)، تحریک انصاف، بلوچستان نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، مسلم لیگ ق اورجماعت اسلامی کی طرف سے آئینی ترمیم کی حمایت کی یقین دہانی کرائی گئی۔ اس ترمیم کے حق میں حکومتی پارٹی کے بعد سب سے زیادہ پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی آگے آگے رہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام ف نے سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کو روکنے پر ضروردیا ہے لیکن اس مرحلے پر آئینی ترمیم پیش کرنیکی حکومتی تجویز کو مناسب قرارنہیں دیا۔ سینٹ الیکشن میں ٹکٹ اور ووٹ کے حصول کے لیے روپے پیسے کا آزادانہ استمال اسی الیکشن میں نہیں ہوگا۔ قبل ازیں بھی پیسے کے زور پر الیکشن میں حصہ لیا جاتا رہا ہے اور پیسے دے کر ووٹ خریدنے کا مکروہ کاروبار پہلے بھی ہوتا رہا۔ یہ مرض نیا نہیں پرانا ہے جو کہ شاید ناسور بن چکا ہے۔آئینی ترمیم لاکر اس ناسورکو ختم کرنے کی بات کی گئی۔ روپے پیسے کا استمال اوردھونس دھاندلی کسی بھی سطح کے الیکشن کے لیے خطرناک ہوتے ہیں۔ اورایسا سب کچھ آزاد، شفاف الیکشن کے خلاف ہے۔ امیدوارچاہے یونین کونسل کے کسی ایک وارڈ کا ہو یا پھر صوبائی۔قومی اسمبلی کے حلقے کا اور اسی طرح سینٹ کی نشست سے چاہے امیدوار ہو۔ اس امیدوار کے لیے اس کا حلقہ اور حلقہ کے اہل ووٹرز،پرمبنی الیکٹرورل کالج کا ہونا لازمی ہے۔ رائے دہندگان جب اپنے حق کا استمال کرتے ہیں تو اس کے لیے یہ بھی لازمی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے آزادانہ طور پر خفیہ طریقے سے اپنی رائے یعنی ووٹ کا استمال کریں۔ ایک ووٹرکو جب مجبور کیا جائے کہ وہ ووٹ دیتے وقت یہ ظاہر کرے کہ اس نے کس کو ووٹ دیا ہے۔ تویہ آزادی اور شفافیت کے خلاف ہے۔ خفیہ رائے دہی کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ ووٹراپنی پسند اور مرضی کا خیال رکھتے ہوئے امیدوار کو ووٹ دے۔ ووٹرز پر کوئی زبردستی نہ کی جائے۔ بات ہورہی ہے سینٹ کے الیکشن کہ جس میں بھی امیدوار ہوتے ہیں اور ووٹرز بھی۔ امیدوار کا حلقہ بھی ہے اور اور ووٹر بھی ہیں جو کہ اپنے اپنے حلقہ کے امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں۔ ایک صوبے کے ووٹرز اپنے صوبے کے امیدوار کو ہی ووٹ دیں گے۔ یہی عمل وفاق اور فاٹا کے لیے ہے۔ بلوچستان اسمبلی کا ممبر جوکہ سینٹ ممبران کے الیکشن کاووٹر ہے وہ پنجاب کے امیدوار کو ووٹ نہیں دے سکتا۔ سینٹ ممبر کے لیے ہونے والا الیکشن جماعتی ٹکٹ اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑا جاسکتا ہے۔ سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ ہونے کا خدشہ ہے۔ اور یہ خدشہ اس قدر ہے کہ حکومتی پارٹی اس کو روکنے کے لیے سنیٹ الیکشن کے قوائد و ضوابط یعنی طریقہ کار کے بدلنے کے لیے آئینی ترمیم لانا چاہتی تھی۔ مگر اس پر اتفاق رائے تاحال نءہ ہوسکا ۔ سینٹ کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لیے کچھ بھی کیا جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ضرورت اس امر کی ہے کہ دیرپا اور حقیقی اقدامات کئے جائیں جس کے ثمرات اس ایک الیکشن میں نہیں بلکہ ہر الیکشن میں نظر آئیں۔

Riaz Jazib
About the Author: Riaz Jazib Read More Articles by Riaz Jazib: 53 Articles with 58699 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.