میں بڑا آدمی بنوں گا

ہماری سوسائٹی میں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین اپنے بچوں کیلئے بڑی عجیب سی پلاننگ سوچتے ہیں اور جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو ان کی سوچ بھی ویسی ہی ہوتی ہے۔ میں اپنے بچے کو بڑا آدمی بناؤں گا میں اپنے بچے کو ڈاکٹر بناؤں گا۔ میں اپنے بچے کو انجینیر بناؤں گا۔ میں تو اپنے بچے کو فوج میں بھیج دوں گا۔ بچہ سوچتا ہے میں تو پائلٹ بنوں گا وغیرہ وغیرہ۔ پھر ہوتا کیا ہے اکثر تو وہ بن ہی نھیں پاتے جس کا خواب انہوں نے دیکھا تھا اور کچھ وہاں پہنچ بھی جاتے ہیں جو انہوں نے سوچا تھا لیکن پھر ہوتا کیا ہے بڑھاپا اور پھر آخر کار موت سب ختم کر دیتی ہے۔ سمجھ تو یہی آتی ہے یہ بننا بننا نہیں ہے بس کچھ دیر کیلئے بن کر مٹنا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو اولیاء اللہ جلا جلالہ کہلاتے ہیں۔ جن کے واسطے دے دے کر ہم دعائیں کرتے ہیں۔ جن کے ذکر اور ناموں سے ہم سرور پاتے ہیں۔ ان کا معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ ان کے والدین اور یہ بھی بڑے ہو کر، زندگیوں کے بارے میں منصوبہ سازی کرتے ہیں، محنت کرتے ہیں اور بنتے ہیں۔ وہ ایسے بنتے ہیں کہ دنیا سے جا کر بھی مٹتے ہی نہیں ہیں اور کبھی مٹیں گے بھی نہیں۔ تاریخ سے یہی پتہ چل رہا ہے۔ حضرت خواجہ اجمیری، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی، حضرت امام حنبل، سلطان اولیاء المروف حضرت غوث پاک، حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری، حضرت خواجہ اجمیری اور حضرت بہاوالدین ذکریا ملتانی، حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمت اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور بہت سے اولیاء ہیں انہوں نے جو مقام پائے ان میں کئی سو سال گزرنے کے بعد بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ یہ بھی اسی دنیا میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بھی وہی دنیا پائی جو ڈاکٹروں، انجینیروں، سرمایہ کاروں نے پائی۔ انہوں نے بھی روزگار کیلیے محنت کی۔ بلکہ ان کا چلن تو ایسا رہا کہ کسی سے کچھ مانگنا کبھی مناسب ہی نہیں سمجھا۔ لیکن ان کے بننے میں اور ہمارے معاشرے کے دوسروں کے بننے میں کتنا فرق ہھے۔ اتنا وقت گزر گیا لیکن ان کا مقام آج بھی روشن ہے لیکن ان کے دور کے بادشاہوں، بڑے بڑے سرمایہ داروں اور دوسروں کا نام کوئی مقام کہیں نظر نہیں آتا۔ ایک دنیا ہے جو ان پر رحمتوں کی دعا کرتی ہے۔ جنہوں نے ان کو دیکھا بھی نہیں ان کے واسطے دے دے کر دعا کرتے ہیں ۔ ہر انسان اپنی سمجھ کے مطابق ان کے تعظیم کرتا ہے۔ کیا مقام ہے، کیسی بادشاہی ہے۔ سالہا سال گزر گئے ان کے چرچے ہیں۔ آخر ماجرا کیا ہے۔

کوئی فرق ہے ان کے اور ہمارے بیچ۔ لیکن کہاں پر۔ شاید ان کے والدین کی سوچ سے فرق شروع ہوا ہے۔ شاید ان کے والدین نے نکاح کے بندھن میں بندھتے وقت یہ سوچ لیا تھا ہم نے اپنا کردار اسلامی رکھنا ہے اور پھر ان کی دعاؤں میں یہ دعائیں بھی شامل ہوگئیں تھیں کہ ان کی اولاد نیک ہو۔ لگتا ہے کہ ان کے والدین نے ان کی پیدائش پر باقاعدہ کمر باندھ لی ہوگی کہ ہم اپنے بچے کو ایک اچھا مسلمان بنائیں گے اور ایک ایسا مسلمان جو دنیاوی علوم و فنون کو ایک مسلمان کی طرح سیکھے گا اور اس پر عمل بھی ایک مسلمان کی طرح کرے گا۔ مجھے لگتا ہے انہوں نے سب سے پہلے اپنے بچے کا اسلامی نام ڈھونڈ اور رکھا ہوگا۔ جب یہ بچہ بڑا ہوا ہوگا تو انہوں نے اپنے بچے کو ضرور اسلام کے بارے میں بتانا شروع کر دیا ہوگا۔ تھوڑا اور بڑا ہوا ہوگا تو اسے قرآن پاک پڑھانا شروع کر دیا ہوگا۔ ساتھ ساتھ کھانا کھانے، پانی پینے کا سنت طریقہ سکھایا ہوگا۔ کچھ عرصے بعد نماز سکھا دی ہوگی۔ پھر اپنے بچے کو بٹھا کر بتایا ہوگا۔ بیٹا ہمیں ہمارے رب جلاجلالہ نے اپنی عبادت کیلیے پیدا کیا ہے لہٰذا ہماری زندگی کا مقصد اپنے رب جلاجلالہ کی عبادت، رب جلاجلالہ کے حبیب پاک، سردار مکہ مکرمہ، سلطان مدینہ منورہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے کے مطابق کرنی ہے اور سلطان مدینہ منورہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے محبوب ہیں، ہم ان سے اپنے ہر رشتے اور ہر شے سے زیادہ بلکہ اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں۔ بچے نے مسکرا کر ایک عزم سے سر ہلایا ہوگا۔ یہ سب تو اسے پہلے ہی بتا اور سکھا دیا گیا تھا۔ پھر ایک دن بچے کو اس وقت کے سکول کے بارے میں بتایا ہوگا۔ اسے سمجھایا گیا ہوگا کہ اسے تعلیم بھی حاصل کرنی ہے اور آگے چل کر زندگی میں رزق حلال کمانے کے طریقے بھی طریقے بھی سیکھنے ہیں لیکن صرف ایک انسان کی حیثیت سے نہیں ایک مسلمان کی حیثیت سے اور یہ سب ہمارا مقصد نہیں۔ ہمارا مقصد تو اپنے رب جلاجلالہ کو، رب جلاجلالہ کے حبیب پاک، سردار مکہ مکرمہ، سلطان مدینہ منورہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے کے مطابق راضی کرنا ہے۔ اس بچے نے اپنے ذہن میں سوچا ہوگا تو اس کے ذہن میں زندگی کا یہی مقصد آیا ہوگا۔ یہ وہی مقصد ہے جو شب و روز کی محنت سے اسے سکھایا گیا تھا۔ بس جب اس کی سوچ اپنے والدین کی سوچ سے مل گئی ہوگی، اسی لمحے ایک وہ بچہ آنے والے کل کے ایک ایسے انسان کی چلتی پھرتی تصویر میں بدل گیا ہوگا جو ایک کامیاب مسلمان بنے گا اور ایسا مقام پائے گا جس میں اس کے دنیا سے جانے کے بعد بھی کمی نہیں آئے گی۔

واہ کتنا فرق ہے اپنے آپ کو صرف مسلمان کہنے والوں اور اپنے آپ کو مسلمان بنانے والوں میں۔
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 117013 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More