احسن اقبال کے شکوے ،کاکردگی ،صلاحیتیں اورمشورہ سنٹر
(Muhammad Siddique, Layyah)
وفاقی وزیر منصوبہ بندی وترقی
احسن اقبال نے لاہورمیں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں
سرکاری اداروں کی کارکردگی توقع کے مطابق نہیں۔حکومت سرکاری اداروں کی
کارکردگی بہتربنانے کی کوشش کررہی ہے۔تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے
افرادسرکاری اداروں کی بہتری کے لیے تجاویز دیں۔حکومت سرکاری اداروں کے لیے
دی گئی تمام تجاویزکاخیرمقدم کرے گی۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے
کہا کہ پاکستان کی افرادی قوت انتہائی باصلاحیت ہے۔انفرادی صلاحیتوں میں
سرکاری ملازمین کسی سے کم نہیں۔لیکن عدم دلچسپی اورکرپشن کی وجہ سے ادارے
کارکردگی نہیں دکھارہے۔ان کاکہنا تھا کہ صلاحیت اوراہلیت کومناسب اندازمیں
بروئے کارلانے کی ضرورت ہے۔ احسن اقبال کہتے ہیں کہ سرکاری سکولوں کے
اساتذہ کونجی سکولوں کے اساتذہ سے دوگنی تنخواہ دی جارہی ہے۔مگر نتائج کے
معاملہ میں یہ ادارہ سب سے پسماندہ ہے۔وفاقی وزیرمنصوبہ بندی وترقی
کاکہناتھا کہ پاکستان کے سرکاری ملازمین انتہائی باصلاحیت ہیں۔سرکاری
اداروں کے سربراہ آکسفورڈ کے ہم پلہ پریذنٹیشن دے سکتے ہیں۔ان کاکہنا تھا
کہ کارکردگی کابیس فیصدانحصارعوام اور۸۰ فیصدنظام پرہے۔ملک میں عوامی سطح
پراختیارات کابھی فقدان ہے۔حکومت اختیارات کوعوامی سطح تک منتقل کرناچاہتی
ہے۔مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افرادسرکاری اداروں کی بہتری کے لیے
تجاویزدیں سرکاری اداروں کی بہتر کارکردگی سے ملک ترقی کرسکتاہے۔
اس تقریب میں صحافیوں اورتجزیہ نگاروں کاکام خودکردیا ہے۔یہی باتیں کوئی
ایڈیٹر، کوئی رپورٹر، کوئی کالم نویس یاتجزیہ نگاکرتا توکہا جاسکتا تھا کہ
یہ حکومت کوبدنام کرنے کی سازش ہے۔ سرکاری اداروں پرکیچڑ اچھالا جارہا ہے۔
حکومت کی کارکردگی کوچھپانے اورغلط رنگ دینے کی کوشش ہے۔اسی طرح کے بہت سے
تبصرے کیے جاسکتے تھے۔ اب نوازشریف کی حکومت کے ایک وزیرنے یہ باتیں کردی
ہیں تواسے حکومت کے خلاف سازش، حکومت کوبدنام کرنے اورسرکاری اداروں کی
کارکردگی چھپانے کی کوشش نہیں کہاجاسکتا۔اب اگرایک وفاقی وزیر نے خودہی
کارکردگی کااعتراف کرلیا ہے توماننا پڑے گا کہ معاملات میں ضرورگڑبڑہے۔احسن
اقبال یہ باتیں کرکے اپنی حکومت کی کارکردگی کااعتراف کررہے ہیں یاسرکاری
اداروں کو ان کی کارکردگی کے حوالے سے آئینہ دکھا رہے ہیں۔اس کا سراغ لگانے
کی کوشش کرتے ہیں۔احسن اقبال کہتے ہیں کہ ملک میں سرکاری اداروں کی
کارکردگی توقع کے مطابق نہیں۔اس میں انہوں نے سرکاری اداروں کی کارکردگی
کوناقص اورخراب نہیں کہا ۔ وہ کہتے ہیں کہ کارکردگی توقع کے مطابق نہیں۔وہ
کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت نے سرکاری اداروں سے جوتوقعات وابستہ کررکھی تھیں
وہ ان پرپورانہیں اتررہے۔انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ حکومت نے
سرکاری اداروں سے کیا توقعات وابستہ کرلی ہیں۔کسی فردیاادارہ سے کوئی بھی
توقع وابستہ کرنے سے پہلے یہ دیکھاجاتاہے کہ وہ اس پرپورااتربھی سکتاہے
یانہیں۔اورکیا اس کے پاس مطلوبہ وسائل بھی ہیں یانہیں۔ہرفرداورادارہ سے
ہرایک کی توقعات ایک جیسی نہیں ہوتی ہیں۔ہرحکومت کااپناوژن اورمنشورہوتاہے
جس کے مطابق وہ سرکاری اداروں سے کارکردگی چاہتی ہے۔ہرحکومت کی اپنی
ترجیحات ہوتی ہیں ۔سرکاری اداروں کوان ترجیحات کے مطابق کام
کرناپڑتاہے۔احسن اقبال اگر سرکاری اداروں سے وابستہ توقعات بھی بتادیتے
توان کی بات کوسمجھنے اوراس پرتبصرہ کرنے میں آسانی ہوجاتی۔وفاقی وزیر نے
اپنے اس خطاب میں صرف شکوہ ہی نہیں کیا تعریف بھی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ
پاکستان کی انفرادی قوت انتہائی باصلاحیت ہے۔انفرادی صلاحیتوں میں سرکاری
ملازمین کسی سے کم نہیں۔ان کی اس بات سے کوئی انکارنہیں کرسکتا۔پاکستانی
عوام کی صلاحیتوں کااعتراف دنیا بھرمیں کیاجاتاہے۔کسی زمانے میں سرکاری
سکولوں اورکالجوں میں بزم ادب کاہفتہ میں ایک دن پیریڈ ہواکرتا تھا۔ اس میں
طلباء اپنی مرضی سے جوچاہتے وہ سناتے تھے۔ اس سے طلباء کی چھپی ہوئی
صلاحیتوں کاپتہ چلتاتھا۔غیرنصابی سرگرمیوں کوبھی اہمیت دی جاتی تھی۔ اس سے
بھی طلباء کی چھپی ہوئی صلاحیتیں اجاگرکرنے میں مددملتی تھی۔ وفاقی وزیر
بھی انہی چھپی ہوئی صلاحیتوں کی بات کررہے ہیں۔ان چھپی ہوئی صلاحیتوں
کونکھارنے کے لیے استاد، معاون کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ہرانسان میں سب
صلاحیتیں نہیں ہوتیں اورتمام انسانوں کے پاس کوئی نہ کوئی صلاحیت موجودہوتی
ہے۔ایبٹ آبادمیں جب امریکی فورسزنے اسامہ کے خلاف آپریشن کیا تواس آپریشن
میں امریکہ کاایک ہیلی کاپٹرجل کرراکھ ہوگیا۔ ہماری معلومات کے مطابق
امریکہ وہ راکھ بھی اٹھاکرلے گیا ہے۔یہ امریکہ کاپاکستانیوں کی صلاحیتوں
کااعتراف ہے کہ کہیں یہ اس راکھ سے بھی اپنا اسی طرح کاہیلی کاپٹرنہ
بناڈالیں۔امریکہ نے پاکستان کوایف سولہ نہ دیے پاکستان نے چین کے ماہرین کی
مددسے اپنے ایف سولہ ’’جے ایف تھنڈر‘‘ کے نام سے بنالیے۔پاکستان امریکہ سے
ڈرون ٹیکنالوجی مانگتا رہا۔امریکہ نے یہ تکنیک پاکستان کونہیں دی۔ پاکستان
نے بھی اپنے ڈرون بنالیے ہیں۔امریکہ نے پاکستان کاایٹمی پروگرام شروع نہ
ہونے دینے ، شروع ہونے کے بعد اسے روکنے کی بہت کوشش کی۔پاکستان کایہ
پروگرام بھی جاری ہے اورجاری رہے گا۔سرکاری ملازمین بھی انفرادی صلاحیتوں
میں کسی سے کم نہیں ہے۔ان کی صلاحیتوں کوجانچنے اوران سے استفادہ کرنے کی
ضرورت ہے۔احسن اقبال کاکہنا ہے کہ عدم دلچسپی اورکرپشن کی وجہ سے ادارے
کارکردگی نہیں دکھارہے۔انہوں نے سرکاری اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے
جوشکوہ کیااس کی وجہ بھی بتادی۔سرکاری ملازمین کے پاس صلاحیتیں توموجودہیں
تاہم وہ اپنے کام میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔انہیں اپنی ذمہ داریوں
کااحساس نہیں ہے۔سرکاری ملازمین کی عدم دلچسپی توتب ہوتی وہ گھروں میں سوئے
رہتے۔ وہ روزانہ صبح کے وقت جاگتے ہیں۔ دفتروں میں جانے کی تیاری کرتے
ہیں۔جن کے پاس اپنی سواریاں ہیں وہ ان کے ذریعے اورجن ملازمین کے پاس اپنی
سواریاں نہیں ہیں وہ پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے دفتروں میں جاتے ہیں۔ہم نے
بہت سے سرکاری ملازمین کوپبلک ٹرانسپورٹ میں سفرکرتے ہوئے دیکھاہے۔پھروہ
دفترمیں حاضری لگاتے ہیں اوربیٹھ جاتے ہیں۔اپنی تنخواہیں بھی باقاعدگی سے
وصول کرتے ہیں۔اب آپ بتائیں روزانہ صبح کے وقت اٹھنا کوئی آسان کام
ہے۔اورروزانہ بسوں، ویگنوں میں سفرکرنااورروزانہ کی پابندی کوئی آسان ہے۔
اب بھی سرکاری ملازمین سے شکوہ ہے کہ وہ اپنے اپنے کام میں دلچسپی نہیں لے
رہے ہیں۔ انہوں نے توقع سے کم کارکردگی ایک اوروجہ کرپشن بتائی ہے۔اس سے
توکارکردگی میں اضافہ ہوناچاہیے تھا۔کیونکہ جہاں سے انسان کوکچھ نہ کچھ
ملنے کی امیدہویاوہ اپناحصہ پہلے سے وصول کرچکاہوتووہ اس کام کوکرنے
کوترجیح دیتاہے۔جس کام کی اجرت پہلے وصول کرلی جائے تووہ کام توپہلے
کیاجاتاہے۔سرکاری ملازمین اگرکسی سے کوئی کام کرنے کے لیے کچھ وصول کربھی
لیتے ہیں تویہ وہ اس کام کی اجرت وصول کرتے ہیں۔اس میں کرپشن کہاں سے
آگئی۔وہ کہتے ہیں کہ صلاحیت اوراہلیت کومناسب اندازمیں بروئے کارلانے کی
ضرورت ہے۔اس کے لیے حکومت کوسرکاری ملازمین کی حسب ضرورت تربیت کااہتمام
کرنا ہوگا۔سرکاری ادارے ہوں یانجی ادارے ان میں افسران کہتے ہیں کہ ہم
جوکہہ رہے ہیں وہی ٹھیک ہے اسی پرعمل کیاجائے۔ چاہے اس سے فائدہ
ہویانقصان۔وہ اپنے ماتحت کی کوئی بات سننے اورماننے کوتیارنہیں ہوتے۔اس سے
ماتحت عملہ کی خفیہ صلاحیتیں چھپی ہوئی ہی رہ جاتی ہیں۔ہوسکتاہے کسی کے ذہن
میں کوئی ایسامشورہ ہوجس سے کام کوبہترطریقے سے کیاجاسکتاہو۔ یوں بھی
ہوتاہے کہ انسان جہاں ملازمت کرناچاہتا ہے۔ وہاں تواسے ملازمت نہیں ملتی
اورجہاں وہ نہیں چاہتا وہاں اسے ملازمت مل جاتی ہے۔ اب وہ تلاش معاش کے لیے
ڈیوٹی تودیتارہتا ہے تاہم اس کادل سروس مکمل ہونے تک بھی اس میں نہیں
لگتا۔ان حالات میں وہ کیاکارکردگی دکھائے گا۔احسن اقبال نے شکوہ کیا ہے کہ
سرکاری سکولوں کے اساتذہ کونجی سکولوں کے اساتذہ سے دگنی تنخواہ دی جارہی
ہے۔مگرنتائج کے معاملہ میں یہ ادارہ سب سے پسماندہ ہے۔سرکاری سکولوں کے
اساتذہ نجی سکولوں کے اساتذہ کی طرح طلباء کوتعلیم تودیتے ہیں۔انہیں پڑھاتے
اورسمجھاتے ہیں۔اب اگرطلباء امتحان میں کامیابی نہ دکھائیں اس میں اساتذہ
کاکوئی قصورنہیں ہے۔تعلیمی نصاب بھی معیاری بناتے بناتے مشکل بنالیاگیا
ہے۔اب بچوں کواردو،انگریزی ،عربی زبانیں ایک ساتھ سیکھنا پڑتی ہیں۔ سرکاری
سکولوں کے طلباء بھی اچھے نمبروں میں پاس ہوجاتے ہیں۔ان کاکارکردگی بہتر
بنانے کے لیے انعامات وکارروائی کاسلسلہ جاری رکھنا ہوگا۔کسی زمانے میں
افسران تعلیمی اداروں میں جاکران کی کارکردگی چیک کیاکرتے تھے اس سلسلہ
کوپھر سے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔وفاقی وزیر کی یہ بات بھی درست ہے کہ
پاکستان کے سرکاری ملازمین انتہائی باصلاحیت ہیں۔سرکاری اداروں کے سربراہ
آکسفورڈکے ہم پلہ پریذنیٹیشن دے سکتے ہیں۔ان کاکہناتھا کہ کارکردگی
کاانحصاربیس فیصدعوام اور۸۰ فیصدنظام پرہے۔یہاں انہوں نے توقعات سے کم
کارکردگی کی دواوروجوہات بتائی ہیں۔ ان میں سے ایک عوام ہیں
اوردوسرانظام۔عوام اپنی ذمہ داری ادانہ کریں توکارکردگی صرف بیس
فیصدمتاثرہوتی ہے۔دوسری وجہ نظام ہے۔ اس میں بھی وہ اعتراف کررہے ہیں کہ
ہمارے نظام میں ہی وہ صلاحیت نہیں ہے جس سے سرکاری ملازمین بہتر کارکردگی
دکھاسکیں۔سرکاری اداروں کی کارکردگی کوبہتربنانے کے لیے نظام کوبہتر کرنے
کی ضرورت ہے۔یہاں توکئی نظام لائے گئے ہیں۔ کوئی نظام بھی توقعات
پرپورانہیں اترتا۔ایک اوروجہ بتاتے ہوئے احسن اقبال کہتے ہیں کہ ملک میں
عوامی سطح پراختیارات کابھی فقدان ہے۔حکومت اختیارات کوعوامی سطح تک منتقل
کرناچاہتی ہے۔عوامی سطح تک اختیارات کی منتقلی حکومت کاکام ہے۔حکومت اگریہ
کام کرنابھی چاہتی ہے توپھردیرکس بات کی۔اس میں کوئی رکاوٹ ہے تووہ کیا
ہے۔وفاقی وزیرمنصوبہ بندی وترقی احسن اقبال نے کہا کہ تمام شعبوں سے تعلق
رکھنے والے افرادسرکاری اداروں کی بہتری کے لیے تجاویزدیں ۔حکومت سرکاری
اداروں کے لیے دی گئی تجاویزکاخیرمقدم کرے گی۔سرکاری اداروں کی بہتر
کارکردگی سے ملک ترقی کرسکتاہے۔سرکاری اداروں کی کارکردگی کوبہتر بنانے کے
لیے انعامات اورکارروائی کوساتھ ساتھ جاری رکھناہوگا۔ حسب ضرورت تربیتی
سیشن بھی کیے جائیں۔جس سرکاری ملازم کی حاضری کاتناسب سب سے زیادہ ہواورکام
کاتناسب بھی سب سے زیادہ ہواس کے لیے ماہانہ ،سالانہ اورسروس مکمل ہونے
پرانعامات کاسلسلہ شروع کیا جائے۔آئے روزکارکردگی چیک کرنے اورموقع
پرانعامات اورکارروائی کاسلسلہ ساتھ ساتھ چلایاجائے۔ان کی خفیہ صلاحیتیں
اجاگرکرنے اوران سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے وفاقی اورصوبائی سطح پرمشورہ
سنٹرقائم کیے جائیں۔سرکاری ملازمین سے کہا جائے کہ وہ اپنے دفتر، ادارہ
اورمحکمہ میں کسی بھی حوالہ سے کوئی خامی، کوئی نقص یابدانتظامی دیکھیں
تومشورہ سنٹرکوبذریعہ ای میل، فیکس یاڈاک آگاہ کریں۔ ساتھ ہی اسے دورکرنے
اوربہتربنانے کے لیے تجاویزبھی ساتھ ارسال کردیں توبہتررہے گا۔یہ تناسب
حکومت خودطے کرے کہ کسی بھی دفتریاادارے کے کتنے فیصدملازمین ایک ہی
نشاندہی کریں تواس پرغورکیاجائے گا۔سرکاری ملازمین کی کارکردگی کوبہتربنانے
اورخفیہ صلاحیتیں بروئے کارلانے کے لیے مقابلوں کااہتمام بھی
کیاجاناچاہیے۔حکومتی سطح پرپالیسیوں کے تسلسل سے سرکاری اداروں اورملازمین
کی کارکردگی کوبہتربنایاجاسکتاہے۔احسن اقبال نے شکوہ کیا ہے کہ سرکاری
اداروں کی کارکردگی توقع کے مطابق نہیں۔تمام سرکاری اداروں کانظم ونسق
چلانے کے لیے وزاتیں اوران کے سیکرٹریزموجودہیں۔سرکاری اداروں کی توقع سے
کم کارکردگی کی ذمہ داری ان وزارتوں اورسیکرٹریوں پربھی عائدہوتی ہے۔ان سے
بھی بازپرس کی جانی چاہیے۔وزراء اورسیکرٹریزاپنی کارکردگی بہتربنالیں
سرکاری اداروں کی کارکردگی خوبخودبہترہوجائے گی۔سرکاری اداروں کی کارکردگی
توتوقع کے مطابق نہیں ۔بقیہ شعبوں اوراداروں کے بارے میں کیاخیال ہے۔کیا
سیاستدانوں کی کارکردگی توقع کے مطابق ہے؟توکیا وکلاء ، صحافی، شاعر، ادیب،
کالم نویس،اخبارات، نیوزاوردیگرچینلز،سول سوسائٹی، این جی اوز،ٹھیکیدار،
پرائیویٹ کمپنیاں،ٹرانسپورٹر،صنعتی ومالیاتی ادارے،علماء کرام، تاجر
حضرات،مذہبی، سیاسی اورسماجی تنظیمیں اپنی کارکردگی توقع کے مطابق دکھارہے
ہیں۔صرف سرکاری اداروں اورملازمین کی کارکردگی ہی توقع سے کم نہیں۔سب کی
کارکردگی تسلی بخش نہیں۔ہم سب کواپنے اپنے کردارکاجائزہ لے کراس کوبہترسے
بہتربناناہوگا۔ |
|