حالیہ بجٹ - مسلمانوں کی غیر رسمی معیشت پر لٹکتی تلوار

این ڈی اے کاپہلا عام بجٹ منظر عام پر آگیاہے ۔ 28فروری 2015کو صبح گیارہ بجے مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے ایک شعر کے ساتھ اپنی بجٹ تقریر کا آغاز کیا اور ملکی معیشت کو ایک نئے دھارے پر موڑنے والا بجٹ پیش کردیا جس میں عام آدمی کے روزمرہ مفادات کو تو سرے سے نظر انداز کردیا مگر اس کی جیب میں بچے کھچے پیسوں پر بھی ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ تلقین کرڈالی کہ لوگوں کوپیسہ بچانے کی عادت ڈالنی چاہئے ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مہنگائی کم ہوئی ہے ۔مگر بازار میں جائیے تو ان کا یہ دعویٰ سرا سر غلط ثابت ہوتا ہے ۔ ہاں البتہ ضرورہے کہ عالمی بازار میں تیل کی ڈوبتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر مہنگائی کم ضروری ہونی چاہئے تھی جو نہیں ہوئی۔ اور اسی کے پیش نظر عام آدمی کو یہ امید تھی کہ ٹیکس میں مزید کچھ راحت ملے گی ۔ مگر ٹیکس میں راحت ملی تواس کارپوریٹ سیکٹر کو جو پہلے سے ہی دھنا سیٹھ ہے۔ بجٹ میں بار بار وزیر خزانہ نے عام آدمی اور کسان کا ذکر کر کے یہ تاثر دینے کی بھر پور کوشش کی ہے کہ موجودہ سرکار نہ تو کسان مخالف ہے اور نہ عام آدمی مخالف لیکن ان کی ایک گھنٹہ پینتس منٹ کی تقریر جیسے جیسے بڑھتی گئی ویسے ویسے یہ اندازہ ہوتا گیا کہ وہ بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لئے عام آدمی سے زیادہ سے زیادہ پیسہ وصول کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے ایک جانب ٹیکس میں کوئی کمی نہیں کی دوسری جانب سروس ٹیکس اور دیگر بلاواسطہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کر کے عام آدمی کے روز مرہ بجٹ میں اضافہ کردیا۔ صحت کے نام پر انشورنس کی کئی اسکیموں کا اعلان کر کے انشورنس زمرے میں حالیہ دنوں سرکار نے ایف ڈی آئی میں جوا ضافہ کیا ہے اس کے لئے گاہکوں کا انتظام بھی کردیا ۔ یعنی غیر منضبط (Unorgnised)زمرے میں جو مزدور کام کرتے ہیں ان کو بھی اجازت دے دی کہ وہ ای ایس آئی میں انشورنس لینے کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر میں انشورنس کراسکتے ہیں۔ اسی طرح بزرگوں کی پینشن کے لئے انشورنس ۔حادثاتی موت کے لئے انشورنس وغیروغیر ہ ایسی اسکیمیں اعلان کیں ہیں کہ بس انشورنس کا پریمیم دیتے رہئے۔

موجودہ سرکار نے اپنے انتخابی وعدوں میں ایک بڑا وعدہ کالے دھن کی واپسی کا بھی کیا تھا اور وزیر اعظم نے بڑے طم طراق کے ساتھ ’’ گاجے باجے ‘‘ لے کر اعلان کیا تھا کہ کالے دھن کی واپسی کے بعد ہر ہندوستانی کو 15لاکھ روپیہ ملے گا۔ مگر بجٹ میں کالے دھن کی واپسی کا تو کوئی اعلان نہیں کیا گیا ۔ البتہ کالے دھن کے خلاف بہت سے نئے قوانین وضع کرنے کے اعلانات کے ساتھ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ حکومت کالے دھن کے خلاف کمر بستہ ہے ۔ مگر جو دھن غیر ممالک میں رکھا ہے اس کی واپسی کی کوئی تدبیر وزیر خزانہ نے نہیں بتائی ۔ بلکہ گزشتہ سرکاروں کی طرح ایک تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل جو پہلے ہی کی جاچکی ہے بس ا س کی رپورٹ کا انتظار کیا جائے گا اور اس رپورٹ کا کیا حشر ہو گا یہ کہنا مشکل ہے ۔ نئے قوانین جن کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے ان میں کالے دھن کے سوا جو دوسری سب سے خطرناک چیز وزیر داخلہ نے پیش کی ہے وہ ہے’’ نقد مکت بھارت ‘‘کا تصور۔ یعنی اب آپ 20ہزار سے زائد قیمت کی کوئی بھی چیز بغیر چیک یا کریڈٹ کارڈ کے نہیں خرید سکتے۔ یعنی اب اپنے گھر کے لئے اگر ایک فرج بھی خرید یں گے تو اس کا بھگتان چیک سے کرنا ہوگا۔ ملک میں اس قانون کو لے کر زیادہ بحث بھی نہیں ہوئی مگر سچ یہ ہے کہ وزیر خزانہ کی یہ تدبیر ملک سے بلیک مارکیٹ کو نیست و نابود کرنے کی جانب پہلا قدم ہے ۔ بظاہر سننے میں یہ اچھا لگتا ہے کہ ملک سے بلیک مارکیٹ کا خاتمہ ہورہاہے مگر اس ضمن میں چند باتیں خصوصاً ذہن میں رہنی چاہئے ۔ ابھی چند سال پہلے جب ساری دنیا اقتصادی دباؤ میں تھی اور امریکہ اور یوروپ جیسی بڑی اقتصادیات نے بھی سر جھکا لیا تھا بھارت ان چند ممالک میں سے ایک تھا جس نے ان سخت ترین اقتصادی بحران کا کامیابی سے مقابلہ کیا تھا اور ایک دن بھی ملک اقتصادی مندی کا شکاری نہیں ہوا تھا ۔ مندی کا دور ختم ہوجانے بعد اس وقت کے وزیر خزانہ پرنب مکھرجی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بھار ت اس اقتصادی مندی کا مقابلہ صرف اس لئے کر پایا تھا کہ ہمارے ملک میں سرکاری اقتصادیات کے علی الرغم ایک بڑی متوازی اقتصادیات بھی چلتی ہے ۔ جس کا پیسہ اس وقت خود بخود بازار میں آگیا تھا جس نے بھارت کو اقتصادی طور ڈوبنے سے بچایا تھا ۔ یہ وہی متوازی اقتصاد ہے جس کو عر ف عام میں بلیک مارکیٹ کہتے ہیں ۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ملک کا ایک عام آدمی اپنی روزمرہ کی خریداری کیش میں کرتا ہے اور اس کے علاوہ بھی بڑی بڑی تجارتی لین دین کیش میں یا بونڈ کی صورت میں ہوتے ہیں ۔

ہنڈی کا چلن بھی اب تک ملک میں رائج ہے ۔ ہمارے بازاروں میں ابھی تک کمیٹی ڈالنے کا طریقہ رائج ہے اور یہ سب کچھ کیش میں ہوتا ہے ملک کے غر یب ترین عوام چھوٹی چھوٹی بچت کیش میں کرتے ہیں اور اسی چھوٹی بچت سے گھر یلو استعمال کی مہنگی مہنگی اشیاء بھی خرید لیتے ہیں ۔ اب اس نئے قانون کے بعد اس کی گنجائش تقریباً ختم ہوجائے گی ۔ منڈیوں میں آڑھت کا سارا کاروبار کیش پر چلتا ہے ۔ اب اس کا کیا ہوگا یہ تو جیٹلی صاحب ہی جانیں مگر ایک بات صاف ظاہر ہے کہ ملک کے غریب پسماندہ طبقات ، اقلیتیں، کسان اور مزدور یعنی ملک کی کل آبادی کا 85فیصد حصہ اسی کیش کے کاروبار سے چلتیہے جس کو اب روزآنہ اپنے کاروبار کرنے میں دقت پیش آئے گی ۔یا یہ کاروبار بند ہوجائیں گے۔ مثال کے طور پر زمینوں کی خریدو فروخت کا کاروبار ، یہ بات سب جانتے ہیں کہ ملک کی بڑھتی آبادی کے پیش نظر مکانات کی ضرورت بھی بڑھتی جارہی ہے ۔ کنبے بڑے ہورہے ہیں تو مکان کی ضرورت بھی بڑی ہورہی ہے ایسے میں ایک غریب دوکاندار یا چھوٹا کام کرنے والے لوگ یا تو گاؤں کی اپنی زمین بیچ کر شہر میں گھر بناتے ہیں یا تھوڑا تھوڑا پیسہ جمع کر کے کچی کالونیوں میں چھوٹے چھوٹے اور سستے پلاٹ خرید کر ان پر گھر بناتے ہیں اور یہ سارا کاروبار غیر سرکاری ہوتا ہے ۔ ایک پلاٹ اگر 10لاکھ روپے میں فروخت ہوتا ہے تو کاغذ پر محض 2-3لاکھ روپے ہی آتا ہے اس طرح 7-8لاکھ روپیہ بلیک مارکیٹ میں رہتا ہے ۔ سچ پوچھئے تو اسی کاروبار کے ذریعے نچلے طبقے کی قوت خرید میں اضافہ ہوا ہے ۔ میں اگر صاف کہوں تو خصوصاً مسلم محلوں میں اگر گھروں میں کچھ اجالا دکھائی دینے لگا ہے تو وہ ایسے ہی کاروباروں کی بدولت ہے جسے وزیر خزانہ اب بند کردینا چاہتے ہیں اور بڑے بڑے کاروباری گھرانوں میں ہی یہ کاروبار بھی بانٹ دینا چاہتے ہیں۔ یعنی 1947کے فوراً بعد سیلنگ ایکٹ کے ذریعے مالدار مسلمانوں کی زراعتی زمین چھین کر ان کے ہاتھوں میں کٹورا تھما دیاگیا تھا ۔ اور اب جب مسلمانوں نے کچھ کمر سیدھی کی اور غریب مسلمانوں نے چندپیسے اپنے خون پسینے کی گاڑھی کمائی سے جمع کر کے یہ چھو ٹے چھوٹے کاروبار شروع کئے تو بی جے پی کے پروردہ وزیر خزانہ صاحب سے یہ بھی برداشت نہیں ہور ہا ہے۔

مسلمان اگر معاشی طور پر ابھی کچھ آسودہ ہوئے ہیں تو اسکی وجہ یہی ہے کہ یا تو انہوں دستکاری کے ذریعے پیسہ کمایا، چھوٹی انڈسٹری میں ہاتھ ڈالا۔ جائدادوں کی خرید وفروخت کاکام کیا اور چھوٹے چھوٹے غیر روایتی قسم کے کاروبار کر کے اپنی معیشت کی نیّا کو کھینے کا کام کرتے رہے وگرنہ سرکار نے کسی بھی زمرے ان غریب مسلمانوں کے کاروباروں پر زد لگانے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔مدد کرنا تو دور کی بات ہے ۔ کبھی ماحولیاتی آلودگی کے نام پر سہارنپور ، خورجہ ، علی گڑھ ، میرٹھ ، مرادآباد ، بھیونڈی، بنارس کی چھوٹی صنعتوں کی تباہ کر نے کی کوشش کی ۔ کبھی برانڈنگکے نام پر یہ کوشش ہوئی اور جب کچھ نہ بس چلا تو فسادات کے ذریعے ہی بنائی انڈسٹری کو تباہ کرنے سے گریز نہیں کیاگیا۔ واضح رہے کہ اب تک بھیانک ترین فسادات انہیں شہروں میں ہوئے جہاں مسلمان صنعتی اعتبار سے کسی نہ کسی طور پر آسودہ تھے۔ لیکن ان مظالم کے بعد بھی مسلمانوں نے ہار نہیں مانی اور آگے بڑھتے گئے تو اب یہ نئے قوانین کے ذریعے مسلمانوں کی معاشی قبر کھودنے کی تیاری کی جارہی ہے ۔ یہ بھی واضح رہے کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعر ہ دینے اور 125کروڑ ہندوستانیوں کو بلا لحاظ مذہب ، رنگ ونسل ایک ساتھ لے کر چلنے کے عزم کا اظہار کرنے والی اس سرکار کے پہلے ہی بجٹ میں اقلیتوں کو کچھ نہیں دیا گیا ۔ گزشتہ سال اقلیتی امور کی وزارت کو جو 3784کروڑ دیئے گئے تھے اس بار اس میں محض چار کروڑ کا اضافہ کر کے مسلمانوں کو ذلیل کرنے میں وزیر خزانہ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ جب کہ دلتوں اور خواتین کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافے کا اعلان کیا گیا ہے ۔تو جو قوم سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق دلتوں سے بھی بدتر حالت میں ہو اس کی ترقی کے لئے مرکزی سرکار کے بجٹ میں ٹھینگا ہے ۔بجا طور پوچھا جا سکتاہے کیسے ہوگا سب کا وکاس؟

خیر یہ تو رہی مسلمانوں کی بات بصورت دیگر بھی ’’نقدمکت بھارت‘‘ سے ملک کے ہر طبقے کو بے تحاشہ نقصانات کا اندیشہ ہے ۔ ہوسکتا ہے عوام کی جیب سے زیادہ پیسہ نکلوا کر اور بلیک مارکیٹ سے پیسہ حاصل کر کے ملک سرکاری خزانے میں اتنا اضافہ ہوجائے کہ بجٹ خسارہ تین فیصد کے بھی نیچے آجائے مگر یہ پیسہ جائے گا کہاں ۔ سارا ملک جانتا ہے کہ سرکاری اسکیمیں کرپشن کی نذر ہو کے پیسہ واپس پلٹ کے بلیک مارکیٹ میں ہی جاتا ہے ۔ راجیو گاندھی جب وزیر اعظم تھے تو ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ سرکاری اسکیموں کا محض 10فیصد ہی زمین تک پہنچ پا تاہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ باقی90فیصد کہاں جاتاہے ظاہر کہ وہ سرکاری بابوؤں ، وزیروں او ردوسرے پونجی پتیوں تک منتقل ہوتاہے ۔ چنانچہ اب ملک کی کل مارکیٹ کا ایک بڑا حصہ ارون جیٹلی کے ذریعے چند ہی ہاتھوں میں سمٹ جائے گا اور ملک کے چھوٹے کاروباری تباہ وبرباد ہوجائیں گے۔ اس قسم کی معشیت عوامی مفاد میں تو ہر گز نہیں ہے البتہ وہ غیر ملکی طاقتیں جو اقتصادی مندی کے زمانے میں بھارت کو غیر متا ثر دیکھ کر حیران تھیں ان کو ضرور خوشی ہوگی کہ اتنی بڑی معشیت کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی گئی ۔ ارون جیٹلی ایک قوم پرست سیاسی جماعت کے رکن ہیں وہ اگر واقعی قوم پرست ہیں تو ان کی ذمے داری ہے کہ گھریلو صنعتوں کو فروغ دے کر اپنی اقتصادیات کو خود کفیل بنانے کی جانب اقدامات کریں لیکن ہر شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دیکر اورسرکاری زمرے کے بیمار یونٹوں کو پرائیویٹ بلکہ غیر ملکی ہاتھوں میں سونپ کر وہ دراصل ہماری گھریلو معشیت کو گروی رکھنے کا کام کررہے ہیں ۔ انہوں نے اگلے پانچ سال کا ویزن بھی دینے کی کوشش کی ہے ۔لیکن اس طریقۂ کار سے تو اس بات کا اندیشہ بڑھ گیا ہے کہ اگلے پانچ سال میں پورے ملک کی اقتصادیات چند مخصوص ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے ہاتھوں میں قید ہوجائے گی اور ملک کے بیشتر عوام ایک بار پھر اقتصادی غلامی کا شکار ہوجائیں گے۔
tasneem kausar
About the Author: tasneem kausar Read More Articles by tasneem kausar: 7 Articles with 5690 views associated with electronic and print media .. View More