اتھارٹی کی جنگ

اس وقت ہماری ساری توجہ گلوبل ٹیررازم پر ہے، آرمی چیف اس حوالے سے بہت فعال کردار ادا کررہے ہیں۔ ان کے افغانستان، ترکی اور متحدہ عرب امارات کے دورے اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ آپریشن ضرب عضب اور دہشت گردوں کے خلاف فوج کی کارروائیاں پاکستانیوں ہی کے لیے نہیں امریکا سمیت انتہاپسندی سے خائف دیگر ممالک کے لیے بھی اطمینان بخش ثابت ہوئی ہیں، لیکن جہاں تک لوکل ٹیررازم، فرقہ وارانہ تشددودہشت گردی کا تعلق ہے صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی، جس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہم شہری اداروں کو مضبوط نہیں کرسکے ہیں۔ پولیس اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔

عالمی دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تشددودہشت گردی ملک، خاص طور پر کراچی میں ہونے والی جرائم کی دیگر نوعیت کی وارداتوں سے گہرا تعلق رکھتی ہیں، بھتا، ڈکیتیاں اور اغواء برائے تاوان کی وارداتیں دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہیں اور ان وارداتوں کو روکنا پولیس کا کام ہے، لیکن پولیس نفری نہ ہونے، ٹیکنالوجی سے محرومی، غیرفعالیت اور ایسی ہی دیگر وجوہات کی وجہ سے ایک ناکام ادارہ بن چکی ہے۔

پولیس کی ناقص کارکردگی کی سب سے اہم وجہ اس ادارے کا ناجائز استعمال ہے۔ منتخب نمائندوں اور بااثرشخصیات کی جانب سے اپنے علاقوں میں پسندیدہ پولیس افسران کی تعیناتی، پولیس افسران کی تقرریوں اور تبادلوں میں مداخلت ایک عام سی بات ہے۔ منتخب نمائندے اور بااثر شخصیات کو اپنی اور اپنے لوگوں کی غیرقانونی سرگرمیوں کے سلسلے میں پولیس کا تعاون درکار ہوتا ہے۔ الیکشن کے دوران انھیں کام یابی کے لیے پولیس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی ضرورت کے باعث سندھ پولیس میں سیاست در آئی ہے اور یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ کرا چی کے حالات اس وقت تک بہتر نہیں کیے جاسکتے جب تک سندھ پولیس کو سیاست سے الگ نہ کردیاجائے۔

2011 میں سپریم کورٹ نے سندھ گورنمنٹ کو پولیس کو سیاست سے پاک کرنے اور دیگر اقدامات کی ہدایت کی تھی، لیکن صوبائی حکومت نے اس حکم پر عمل نہیں کیا۔ کراچی کے حالات خراب ہوتے گئے اور بالآخر رینجرز کو کراچی سونپ دیا گیا۔ دو سال سے تو رینجرز کراچی میں بہت فعال ہے، اس کے مقابلے میں پولیس غیرفعال نظر آتی ہے۔ ایسے میں جب کراچی میں صورت حال سیکیوریٹی ہائی الرٹ پر ہے پولیس کے معاملات پر توجہ نہ دینا حیرت انگیز اور افسوس ناک ہے۔

سندھ گورنمنٹ نے دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے جو نمایاں اقدام کیا ہے وہ ہے برٹش راج سے آج تک قائم ادارے سی آئی ڈی یعنی Crime Investigation Department کے نام کی تبدیلی، جسے Counter Terrorism Department سی ٹی ڈی کا نیا نام دیا گیا ہے۔ ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق سی ٹی ڈی National Counter Terrorism Authority نیکٹا کے تحت اپنے فرائض انجام دے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی ادارے کی صرف نام کی تبدیلی کافی ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ صوبے کے امن وامان سے براہ راست تعلق رکھنے والی پولیس کا انٹیلی جینس کا شعبہ مضبوط اور فعال کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟
سندھ پولیس میں پچیس ہزار بھرتیوں کا معاملہ ایک عرصے سے رکا ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے گذشتہ دنوں پولیس افسران کے تبادلوں اور تقرریوں پر تین ماہ کے لیے پابندی عاید کرکے گویا سندھ پولیس کے بارے میں آرمی چیف کی اس ہدایت کا ”جواب“ دیا ہے کہ سندھ میں پولیس کی تقرری اور تبادلے صرف ایپیکس کمیٹی کے ذریعے کیے جائیں۔ وزیراعلیٰ نے اس اقدام سے اپنے بہ اختیار ہونے کا اعلان تو کردیا مگر کیا پولیس کی صوبے خاص طور پر کراچی کی آبادی کی مناسبت سے نفری بڑھائے بغیر اس محکمے سے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں؟

جہاں تک سندھ پولیس کا تعلق ہے اس کے اہل کار عام جرائم اور جرائم پیشہ افراد سے ڈیل کرتے ہیں، لیکن دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے نہ انھیں تربیت دی گئی ہے نہ نفسیاتی طور پر وہ اس کے لیے تیار ہیں۔ چناں چہ کاؤنٹرٹیررازم کے ضمن میں پولیس وہ کردار ادا نہیں کر پارہی جو اسے کرنا چاہیے۔ پولیس کی بہتری کے لیے پولیس پالیسنگ پلان بنانے کی بات ہر سال ہوتی ہے، لیکن ایسے کسی پلان پر عمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ ایک طرف پولیس اہل کاروں کا کردار دوسری طرف نفری، تربیت اور ٹیکنالوجی کے فقدان کی وجہ سے پولیس کے پاس دہشت گردی کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا اور امن وامان قائم کرنا ہے تو ہمیں پولیس کی تعمیرنوکرنا ہوگی اور اس میں صلاحیت پیدا کرنی ہوگی کہ وہ دہشت گردی اور اس سے جُڑے جرائم کو جڑ سے اکھاڑ سکے۔ ایک موثر پولیس پالیسنگ پلان نہ صرف بنانا ہوگا بلکہ اس پر پوری طرح عمل درآمد بھی کرنا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومت اور تمام متعلقہ اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ مکمل کوآرڈینیشن کرنا ہوگا۔ ہمیں ضد، انا اور اتھارٹی کی بحث سے نکلنا ہوگا، یہی حالات کا تقاضا ہے۔

اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف راحیل شریف نے اپنے حالیہ دورہئ کراچی کے موقع پر حکومت سندھ کو ہدایت کی تھی کہ پولیس کو سیاست سے پاک کیا جائے۔ آرمی چیف نے پولیس کو سیاست سے پاک کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے پولیس میں تقرریاں اور تبادلے صرف ایپیکس کمیٹی کے ذریعے کیے جائیں۔

یہ تو بعد کی بات ہے کہ وزیراعظم اور فوج کے سربراہ کی اس ہدایت پر عمل درآمد شروع ہوسکا ہے یا نہیں، یہاں تو یہ معاملہ بھی متنازع ہوچکا ہے یا کردیا گیا ہے۔ ایپیکس کمیٹی کے ذریعے تبادلوں اور تقرریوں کی ہدایت پیپلزپارٹی کو پسند نہیں آئی۔ چناں چہ خورشید شاہ نے کہا کہ ایپیکس کمیٹیوں کا کام حکومت کرنا نہیں نگرانی کرنا ہے اور اگر ایپیکس کمیٹیوں کے ذریعے صوبوں کے معاملات چلانے کی کوشش کی گئی تو یہ خطرناک ہوگا۔ گویا یہ پیپلزپارٹی اور سندھ میں قائم پارٹی کی حکومت کا موقف ہے جو خورشید شاہ کے ذریعے سامنے آیا ہے۔ دوسری طرف وزیراعلیٰ کی جانب سے تقرریوں اور تبادلوں پر پابندی عاید کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے ایپلیکس کمیٹیوں کے ذریعے صوبائی معاملات چلانے کی بات صحیح ہے یا غلط اور موجودہ حالات میں جب پیپلزپارٹی نے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اکیسویں ترمیم پر دستخط کرکے فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دے دی ہے، تو ان ہی زمینی حقائق کے پیش نظر دیگر اقدامات سے گریز کیوں کیا جارہا ہے؟ اس قسم کا بیان ایک مختلف صورت حال سامنے لارہا ہے۔

اتھارٹی کا ایشو کتنی اہمیت رکھتا ہے، آپ اندازہ لگاسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صوبائی معاملات میں مداخلت کا شکوہ کرنے والی پارٹی جو پانچ سال صوبے پر حکومت کرنے کے بعد دوبارہ لگ بھگ دو سال سے صوبے کا اقتدار سنبھالے ہوئے ہے، سندھ میں امن وامان کی بہتری اور پولیس کی اصلاح کے لیے کیا کرسکی ہے؟ کراچی میں لاقانونیت کا سلسلہ عرصہئ دراز سے جاری ہے لیکن صوبائی حکومت نے دعوؤں سے زیادہ کچھ نہیں کیا ہے۔

دہشت گردی کے خاتمے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور مختلف انسٹی ٹیوشنز کے درمیان کوآرڈینیشن کی بات تو اب پیچھے رہ گئی، اب تو لگ رہا ہے کہ سندھ پولیس کا معاملہ متنازعہ ہوچکا ہے اور پیپلزپارٹی اس ایشو کو صوبائی خودمختار سے جوڑ سکتی ہے۔ جب معاملہ اتھارٹی ہاتھ میں رکھنے اور اختیارات کی دوڑ کا ہو تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

ایسے میں جب ہم دہشت گردی کے خلاف اتنی بڑی جنگ لڑ رہے ہیں، ہمارے شہر، ہماری بستیاں دہشت گردی کا شکار ہیں، بدقسمتی سے ہمارے اداروں اور صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے درمیان رابطہ کا فقدان نہیں تو اس حوالے سے کھنچاؤ ضرور نظر آتا ہے۔ رابطوں اور تعاون کے اس فقدان کو دور کرنا ہوگا۔ جہاں تک نیشنل ایکشن پلان کا تعلق ہے تو لگتا ہے کہ اسے تشکیل دیتے ہوئے ترجیحات طے نہیں کی گئی ہیں، لہٰذا نیشنل ایکشن پلان پر ازسرنو غور کرنے اور ترجیحات طے کرنے کی ضرورت ہے۔ ری پلاننگ کرتے ہوئے ایپیکس کمیٹیوں اور ان کے اختیارات کا معاملہ بھی طے کرنا ہوگا۔ صوبوں میں امن وامان کی صورت حال اور اس حوالے سے صوبائی حکومت اور اداروں پر نظر رکھنے کے لیے بنائی گئی ان کمیٹیوں کے اختیارات کا معاملہ حل نہ کیا گیا تو صوبائی خودمختاری کا سوال لے کر تنازعات پیدا ہوں گے، اور اس وقت جب ہم حالت جنگ میں ہیں ہم کسی ایسے تنازعے کے متحمل نہیں ہوسکتے جو اس جنگ میں ہمیں کم زور کرے اور وقت ضائع کرنے کا سبب بنے۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 282505 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.