کرپشن کا زہر
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن ہماری سیاست کے سینے میں
تو صرف دِل ہی نہیں غیرت ،حمیت ،انا اور خودداری نامی بھی کوئی چیزنہیں
پائی جاتی ۔کرپشن کے ناسور کا موادِبَد قوم کی نَس نَس میں سما چکاہے جس کی
بناپرشگفتِ بہارکی اُمید دَم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔قحط الرجال کایہ عالم کہ
قطاراندر قطار جہلاء کے جلوس اورچند ’’گِنے چُنے‘‘ عقیل وفہیم ربّ ِ علیم
وخبیرکی ودیعت کردہ دانش کوبروئے کارلانے کی بجائے تضحیک کے ڈر سے خاموش ۔
ہم حالتِ جنگ میں ،لیکن وقت کے فرعون اپنی ذات کے گنبدمیں گُم ۔پوراملک
دہشت گردوں کے نشانے پرلیکن سینٹ کی ’’کھلی منڈی‘‘ میں’’گھوڑوں‘‘کی
خریدوفروخت جاری ۔اسی خریدوفروخت سے پریشان ہوکر حکومت نے آئین میں22 ویں
ترمیم کاڈول ڈالالیکن پیپلزپارٹی اورجے یوآئی نے صاف انکارکر دیا ۔حکومت کے
اتحادی مولانافضل الرحمٰن کی رال ایک آدھاضافی سینیٹرکے حصول پرٹپک رہی ہے
اورآصف زرداری صاحب ایک بارپھر اپناچیئرمین سینٹ بنوانے کی تگ ودَومیں
دَردَر کے بھکاری بنے نظرآتے ہیں ۔کپتان صاحب سے لاکھ اختلاف کے باوجود
ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ کرپشن کے عفریت کے سامنے سینہ تانے
کھڑے ہیں۔اِس سارے منظرنامے میں قصور کس کاہے ؟۔کیاسیاستدانوں کا ؟۔ہرگزنہیں
، قصورتوہمارا اپناہے کہ ہم اپنی تقدیرہمیشہ انہی ہاتھوں میں سونپتے ہیں
جوہم سے زیادہ کرپٹ ہوں۔ جب یہ ہمارے ہی ہاتھوں کے تراشیدہ بُت ہیں تو سوال
یہ ہے کہ اگریہ ’’گھوڑے‘‘ہیں توپھر ہم کیاہیں؟۔
آقاﷺ کافرمان ہے ’’اﷲ جب کسی قوم کوسزا دیناچاہتاہے تواُس پرظالم وجابر
حکمران مسلط کردیتاہے ‘‘۔جب ہم من حیث القوم ہی کرپٹ ہیں تو پھرہمارے ساتھ
یہی ہوناتھا جوہورہا ہے ۔ سچ تویہی ہے کہ ہم تووہ سدھائے ہوئے بندرہیں جو
اپنے مفادات کی خاطرہر صاحبِ مکر وریا کی ڈگڈگی پر ناچتے رہتے ہیں لیکن
پھربھی ہاتھ کچھ نہیں آتا سوائے رسوائیوں کے ۔ربّ ِ لَم یَزل نے توہمیں
دنیاجہاں کی نعمتوں سے مالامال کیا ۔سونا اُگلتی زمینیں،آسمان سے باتیں
کرتی پہاڑوں کی چوٹیاں ،جنت نظیروادیاں ،لہلہاتے کھیت اورزمین کے اندر تہ
در تہ سونے ،تانبے ،لوہے ،کوئلے ،جپسم ،کرومائیٹ ،سنگِ مَرمَر ،تیل اورگیس
کے لامحدود ذخائر لیکن لاریب ہم اِن سے مستفیدنہیں ہوسکتے ۔وجہ یقیناََیہ
ہے کہ ہم نے رَبّ کے نام پرزمین کایہ ٹکڑاحاصل کیا۔قائدِاعظم نے فرمایا کہ
ہمیں زمین کاایک ایساٹکڑا چاہیے جسے ہم اسلام کی تجربہ گاہ کے طورپر
استعمال کرسکیں ۔زمین کاوہ ٹکڑا توہمیں مل گیالیکن ’’اسلام کی تجربہ گاہ
‘‘کہاں ہے ؟۔ہم نے وطنِ عزیز کانام تو اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ دیا لیکن
یہ اسلامی ہے نہ جمہوری ۔اسلام کے نام ہی سے ہمیں چِڑ ہے اور جمہوریت
زورآور کے گھرکی لونڈی اور دَر کی باندی ۔ہم نے اپنی زندگیوں سے ’’رَبّ ‘‘
کو نکال کررسوائیوں کوگلے لگا لیا ۔حفیظ جالندھری نے کہاتھا
منظور، منظور اے اہلِ دنیا
اﷲ میرا ، باقی تمہارا
لیکن ہم نے اﷲ کوچھوڑ کرباقی سب کواپنا خُدا مان لیاجس کانتیجہ ہمارے سامنے
ہے ۔حکمت کی کتاب کہتی ہے ’’اے نبیؐ ! اِن سے پوچھو کہ ایک تووہ ہے جو
دَردَر کابھکاری ہے اورایک وہ جوصرف ایک دَرپہ جھکاہے ۔بتاؤ اِن دونوں میں
سے بہترکون ہے؟‘‘۔لیکن ہم ایسے نافرمان کہ ایک دَرچھوڑ کر دَردَر کے بھکاری
بَن گئے۔اﷲ کی نعمتیں ٹھکرانے والوں کا یہی حشرہوتا ہے ۔قومِ بنی اسرائیل
بھی رَبّ کی محبوب قوم ہواکرتی تھی اُس پرمَن وسلویٰ اتاراگیا ،بادلوں کی
چھت تیارکی گئی ،فرعون کواُس کی سپہ سمیت دریائے نیل میں غرق کیاگیا ،لیکن
وہ ایسی باغی ،بَدبخت اور احسان نا سپاس قوم کہ مَن وسلویٰ کی جگہ ساگ پات
کا مطالبہ کردیا ۔ساگ پات کا مطالبہ پوراکرنے کے لیے اﷲ نے اُن کے لیے
شہرمسخر کیااور شہرکے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے وقت مخصوص الفاظ کی
ادائیگی کاحکم دیا لیکن بنی اسرائیل نے اُن الفاظ کوالٹ کردیا اورتب اُنہیں
ہمیشہ کے لیے بھٹکنے کوچھوڑ دیاگیا ۔قُرآنِ مجیدمیں بنی اسرائیل کاقصہ
پڑھتے وقت رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ ربّ ِ
لَم یزل سے بغاوت کے معاملے میں ہم بھی بنی اسرائیل سے کم نہیں ۔ہمارے بھی
پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیاپر بَرملا احکاماتِ ربانی کامذاق اُڑایا جاتاہے ۔ہمارے
علماء بھی حبِ جاہ کے اسیرہیں ۔ہمارے مدبربھی اپناسارا تدبر اِس امرپر صرف
کردیتے ہیں کہ فی زمانہ دینِ مبیں قابلِ عمل نہیں ۔اُنہوں نے ’’لبرل
اسلام‘‘کی ایسی اصطلاح گھڑی ہے کہ جس کی آڑ میں وہ دینِ مبیں کا مذاق اڑاتے
نظر آتے ہیں ۔ایساکرتے ہوئے وہ یکسربھول جاتے ہیں کہ میرے آقاﷺنے یہ گارنٹی
دی تھی کہ اگر قُرآن وسنت کومضبوطی سے تھامے رکھوگے توقیامت تک گمراہ نہیں
ہوگے لیکن ہم تووہ گارنٹی بھی بھول چکے ۔اب یہی دیکھ لیجئے کہ ایٹمی طاقت
ہونے کے باوجودہم عالمی دہشت گرد امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبورہیں
۔اگرکوئی غیرت کی بات کرے تو ہمارے سیکولر بزرجمہر ’’غیرت بریگیڈ‘‘ کا نام
دے کر اُس کامذاق اُڑاتے ہیں۔یہ ربّ ِ کردگار سے کھلی بغاوت کا شاخسانہ ہی
توہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجودہمارے پاس کچھ بھی نہیں ۔چنیوٹ کے علاقے
رجوعہ میں کھربوں ڈالرکا لوہا ،سونا اورتانبا ملا جس کی مالیت کاتخمینہ
2500 ارب ڈالرلگایا جارہا ہے ۔تھرمیں دنیاکا چوتھابڑا کوئلے کا175 بلین ٹن
کاذخیرہ جوسعودی عرب اورایران کے تیل کے مجموعی ذخائرکے برابرہے ۔جس کی
مالیت 25 کھرب ڈالراور جہاں سے 200 سال تک مسلسل ایک لاکھ میگاواٹ سالانہ
بجلی پیداکی جاسکتی ہے ۔چاغی کے علاقے ریکوڈک میں معدنی ذخائر 6 ارب ٹن ،
جن سے 22 ملین پاؤنڈ تانبا اور 13 ملین اونس سوناحاصل ہوسکتا ہے لیکن
کینیڈاکمپنی بیرک گولڈنے یہ مقداراِس سے کئی گنا زیادہ بتائی ہے کیونکہ
چاغی میں300 کلومیٹر کے وسیع علاقے میں ایسے ذخائرکی نشاندہی کی گئی ہے ۔بلوچستان
میں گوادرایک ایسی پورٹ ہے جوچین ،روس ،مشرقِ وسطیٰ اوریورپ کی باہمی تجارت
میں آسانیاں پیداکر دے گی ۔گوادرپورٹ پاکستان کونہ صرف مضبوط بلکہ خطے کی
سیاست میں انتہائی اہمیت کاحامل ملک بھی بناسکتی ہے ۔عالمی اندازے تویہی
ہیں کہ اگرہم اِن قدرتی خزانوں سے استفادہ کرنے کے قابل ہوجائیں توپاکستان
دنیا کادسواں امیرترین ملک بن سکتاہے لیکن ہم تو کشکولِ گدائی تھامے دَردَر
کے بھکاری ہیں اوربھکاری ہی رہیں گے کیونکہ اِن سارے خزانوں کا مالک تو اﷲ
ہے۔ یہ خزانے ہماری پہنچ سے اُس وقت تک دورہی رہیں گے جب تک ہم اپنے اقوال
،افعال اوراعمال سے یہ ثابت نہیں کرتے کہ ہم صرف اسی کے بندے ہیں جس کے یہ
خزانے ۔ |
|