ایک تھا مسافر
(Sheedi Yaqoob Qambrani, Karachi)
اہل علم کی قدر کا ایک
مثالی نمونہ شاید ہی آپ کی نظر سے گذرا ہو ، جو میری نظر سے گذرا ہے وہ یہ
کہ سندھ کے مہان ادیب میاں محمد صدیق مسافر شیدی اپنے دور کے بڑے ادیب ،
شاعر ، نثر نویس ، اور ماہر تعلیم گذرے ہیں ، جن کے بارے میں آج کی نئی نسل
لا علم ہے یہ وہ مہان شخصیت ہیں جنہوں نے سندھ کے لاڑ کے تاریک خطہ میں علم
کی روشنی کو ایسا منور کیا جس کا ثمر آج بھی موجود ہے مگر اہل ادب ان کے
نام سے آشنا ہوکے بھی نا آشنا ہیں ۔ آج ان کی قبر کے گرد گٹر کا گندہ پانی
اس بات کی واضیح نشاندہی کر رہا ہے کہ اہل ادب اور ان کے شاگرد جو بڑے بڑے
منصب پر فائز ہیں وہ اپنے محسن کو بھول گئے ہیں ۔
مسافر شیدی نے سندھی ادب اور تعلیم کے فروغ کے لئے ان تھک جدوجھد کی ہے ،
ٹنڈو باگو میں آج بھی ان کی علمی کاوشوں کا روشن ثبوط اس اسکول کی صورت میں
موجود ہے جو انہوں نے 1919 میں میر غلام محمد تالپر کے ساتھ قائم کیا جسے
سندھ کی تیسری بڑی درسگاہ کا درجہ بھی حاصل ہوا جو ان کی شب و روز محنتوں
کا منہ بولا ثبوت ہیں ۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ان کی کاوش گرلز ھائی اسکول
کی صورت میں اآج بھی قائم ہے جسے انہوں نے ایک پرائمری اسکول کی صورت میں
شروع کیا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے بچوں کے لئے درسی کتابیں بھی تحریر کی جو
بمبئی پریزیڈنسی میں بھی بطور نصاب پڑھائی جاتی تھیں ۔ ان کے دو ناول ممتاز
دم ساز اور مہروز بانو اپنے دور کے کلاسک ناول شمار کئے جاتے ہیں جو بطور
ادبی نصاب کے طور کافی عرصے تک پڑھائے گئے ہیں ۔ ان کے درس و تدریس میں غصب
کا اثر تھا اور وہ تعلیم دینے کی اس منزل پر تھے جہاں تک رسائی کے لئے اآج
کے ماہر تعلیم کتنا بھی زور لگائیں نہیں پہچ سکتے ۔ ان کی تحریر میں وہ
شیرنی اور روانی تھی کہ جس کی لذت سے بہت سے لوگ مستفیذ ہوئے ۔ فارسی ،
عربی ، اور انگریزی پہ ان کو عبور حاصل تھا ۔ مسافر شیدی ایک ایسی اکیڈمی
کا نام تھا جو پوری عمر علم و ادب کے فروغ کے لئے کوشاں رہا مگر کسی نے آج
تک ان کے لئے خراج تحسین کے دو بول بھی ادا نہیں کئے اور نہ ہی کوئی واقف
ہے جبکہ آج ان کی قبر بھی مٹنے کو ہے ، کیا یہی انجام ہوتا ہے کیا یہی صلہ
ہے ان کی خذمات کا ، یہ سوال ہر اس ادیب و مفکر کے لئے ہے جو اس راہ کا
مسافر ہے ۔ |
|