عدلیہ حکومت تصادم

نظام اور شخصیات میں سے کسی ایک کا انتخاب

اٹھائیس جنوری کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کی تقریر کے جواب میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا خطاب دراصل” نا کرنے کے بہانے ہزار“کا عملی نمونہ پیش کررہا تھا، وزیر اعظم صاحب نہایت ہی معصومیت اور کمال سادگی سے فرما رہے تھے کہ صدر کو استثنیٰ آئین اور قانون کے تحت حاصل ہے میں اسے ختم نہیں کر سکتا، آئین کے آرٹیکل 248 کی تشریح کر کے مجھے بتایا جائے کہ وہ کیا کہتا ہے، اگر کسی کو اعتراض ہے کہ صدر کو آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل نہیں ہے تو وہ عدالت میں جائے اور مقدمہ دائر کرے کہ صدر کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے اور وہ اس کے خلاف سپریم کورٹ سے فیصلہ لے آئے، جو چیزیں تشریح طلب ہیں سپریم کورٹ ان کی تشریح کر دے، اس حوالے سے عدالت جو وضاحت کرے گی اس پر عمل کریں گے، ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کریں گے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سابق اٹارنی جنرل میری جماعت سے ہیں نہ حزب اختلاف سے، انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل کی ہے جب تک اٹارنی جنرل کی نظرثانی کورٹ میں ہے میں کیسے کاروائی کر سکتا ہوں؟ انہوں نے چیف جسٹس کے بیان کہ” اداروں میں تصادم نہیں ہونے دیں گے“کو خوش آئند قرار دے کر خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان کے ”ڈومین“ میں مداخلت نہیں کر سکتے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ڈومین میں بھی کوئی مداخلت نہ کرے، ہر ادارہ اپنی اپنی حدود میں کام کرے، انہوں نے کہا کہ آٹھ ہزار 34 کیسیز میں سے صرف صدر کے کیسز کی بات کیوں کی جاتی ہے؟ ہر کوئی چاہتا ہے کہ میں صدر سے کہوں کہ وہ ہٹ جائیں، صدر کو ان کے عہدے سے فارغ کر دیا جائے تو یہ ان کے لئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہو گا، آج ہر طرف ایک ہی بات کی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کیا جائے، یہ سوال تو تب پیدا ہونا چاہئے تھا کہ اگر میں کہتا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کریں گے، لیکن عدالت کے فیصلے کے بعض نکات وضاحت طلب ہیں جب ان کی وضاحت آ جائے گی تو ان پر عملدرآمد کیا جائے گا۔

یہ ہے وزیر آعظم کا وہ خطاب جو ”نا کرنے کے بہانے ہزار“کا عملی مصداق اور اس بات کی کھلی وضاحت کررہا تھا کہ وہ این آر او کے خلاف عدالت عالیہ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے کھلے بہانے اور جواز تراش رہے ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ اس سے قبل بھی وزیراعظم ملتان کے جلسہ عام میں اس عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ اداروں میں تصادم نہیں ہونے دیں گے، اس کے علاوہ وزیر اعظم کئی موقعوں پر اس بات کی یقین دہانیاں بھی کراچکے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کیا جائے گا، اسی طرح وزیراعظم صاحب کم و بیش سات ہزار سے زائد بار فرما چکے ہیں کہ حکومت نے 17ویں ترمیم ختم کرنے کا تہیہ کرلیا ہے، ان کے اس بیان کی ٹیپ پچھلے دو برسوں سے ہر تیسرے چوتھے روز مسلسل چل رہی ہے لیکن 17ویں ترمیم جو کی توں وہیں کی وہیں موجود ہے جہاں دو سال پہلے تھی، وزیراعظم بار بار کہتے ہیں کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں لیکن ان کے ہر ایسے بیان کے فوراً بعد صدر پاکستان کا بیان آجاتا ہے کہ جمہوریت کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں، یوں لگتا ہے کہ حکومت نے صرف بیانات اور ٹال مٹول سے مسائل کو الجھانے اور ٹہلانے کا طریقہ اختیار کیا ہوا ہے، اس وقت حکومتی لیت و لعل سے جو معاملات سامنے آرہے ہیں وہ عدلیہ حکومت تصادم کے حوالے سے اک نئے بحران کو جنم دے رہے ہیں، جناب یوسف رضا گیلانی کی آرزو اور خواہش اپنی جگہ کہ اداروں میں تصادم نہیں ہونے دیں گے لیکن اس وقت انتظامیہ اورعدلیہ میں اختلافات کا واضح منظر جو پوری قوم دیکھ رہی ہے وہ دو سال قبل والی تصادم کی کیفیت کو جنم دیتا دکھائی دے رہا ہے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ آئینی طور پر ججوں کے تقرر کیلئے صدر لازمی طورپر چیف جسٹس سے مشورہ کرنے کا پابند ہے اور اس مشورے کے بغیر کوئی جج مقرر نہیں کیا جاسکتا، اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ چیف جسٹس کی رائے کو نظرانداز یا بائی پاس نہیں کیا جاسکتا، مگر حالت یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے 60 ججوں کی نشستوں پر صرف20 جج کام کررہے ہیں اور40 ججوں کی نشستیں خالی پڑی ہیں انہیں پر کرنے کے لیے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف نے 29ججوں کے نام کئی ہفتے پہلے بھجوائے تھے مگر جمہوری ملک کے ایک گورنر نے یہ نام اپنی میز سے آگے نہیں بڑھنے دیئے، اس وجہ سے کہ گورنر اور صدر ان ناموں کی بجائے اپنی مرضی کے جج لانا چاہتے ہیں، چونکہ آئین کے تحت چیف جسٹس کے بھیجے ہوئے نام مسترد کرنا حکمرانوں کے بس کی بات نہیں تھی، لہٰذا یہ راستہ نکالا گیا کہ چیف جسٹس خواجہ شریف کو ہائی کورٹ سے تبدیل کر کے سپریم کورٹ بھیج دیا جائے اور ہائی کورٹ میں نئے چیف جسٹس سے نئے نام منگوا لیے جائیں، دوسری طرف صدر کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کی سفارشات صدر کے اس مؤقف کہ” 1996ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پہلے چیف جسٹس ہائی کورٹ کو سپریم کورٹ میں لانا چاہیے“واپس بھجوا کر کھلی محاذ آرائی کا پیغام دیا گیا، ان سب کے باوجود پھر بھی وزیر اعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ اداروں میں تصادم نہیں ہونے دیا جائے گا، حقیقت یہ ہے کہ چیف جسٹس کی سفارشات مسترد کرنے کا صدارتی مؤقف بلا جواز ہے کیونکہ آئین میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے، اگر ہوتی تو 1996ء کے اس فیصلے کے بعد جب جسٹس خلیل الرحمان رمدے، جسٹس اعجاز احمد چودھری، جسٹس فقیر محمد کھوکھر اور دوسرے صوبوں کے ان ججوں کو جو وہاں چیف جسٹس نہیں تھے کو ان ہائی کورٹوں کے چیف جسٹسوں پر ترجیح دے کر سپریم کورٹ لایا گیا، تو ایسے مواقع پر حکومت نے 1996ء کے فیصلے کی پیروی کیوں نہیں کی؟ کیوں چیف جسٹس کی سفارشات من و عن منظور کرلیں، صاف ظاہر ہے کہ اصل مسئلہ اصول اور فیصلے کا نہیں بلکہ نیت کا ہے، جب نیت و ارادہ ہی آمادہ تصادم ہو تو پھر کیا، کیا جاسکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت آئین کی دفعہ 260 کی روشنی میں اعلیٰ عدلیہ کے سابق ججوں اور ملک کے نامور آئینی اور قانونی ماہرین کی یہ مصدقہ رائے بھی سامنے آچکی ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں اور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے تقرر کیلئے چیف جسٹس پاکستان کی سفارشات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور حکومت ان سفارشات کی روشنی میں ہی تقرر عمل میں لانے کی پابند ہے، کیونکہ ججز کیس کے فیصلہ پر بہرصورت آئین کو فوقیت حاصل ہے، اگر چیف جسٹس اپنے آئینی اختیار کی بناء پر سپریم کورٹ کے ججوں کے تقرر کیلئے صدرمملکت کو سفارشات بھجواتے ہیں تو کیا ان پر عملدرآمد سے انکار کر کے آئین کی خلاف ورزی کی جائے گی، سینئر قانون دان عبدالحفیظ پیرزادہ نے یقیناً اسی تناظر میں حکمرانوں کو باور کرایا ہے کہ آئین کی دفعہ 190 کے تحت چیف جسٹس پاکستان اپنے احکام پر عملدرآمد کیلئے ملک کی مسلح افواج کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں، مگر اس تلخ حقیقت سے آگاہی کے باوجود عدلیہ کے احترام کی دعویدار حکومت چیف جسٹس پاکستان کی سفارشات پر نہ صرف عملدرآمد کرنے سے گریزاں ہے بلکہ اس سلسلہ میں چیف جسٹس پاکستان کی سفارشات انہیں واپس بھجوا کر عدلیہ کے ساتھ جان بوجھ کر محاذ آرائی کا راستہ اختیار کررہی ہے اور وہ دیدہ و دانستہ عدلیہ کے ساتھ ٹکراﺅ کا راستہ اختیار کر کے جمہوری نظام کو خود ہی پٹری سے اتارنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، خود حکومتی حلقوں کے قریبی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات اس خیال کو حقیقت کا روپ دے رہی ہیں کہ ایوان صدر اور اس کے قریبی مشیر اس کوشش میں مصروف ہیں کہ کسی طرح فوج مداخلت کر کے انہیں ایوان اقتدار سے باہر نکال دے تاکہ وہ سیاسی طور پر مظلوم بن کر عوام سے اپنی گرتی ہوئی ساکھ بحال کراسکیں، جبکہ دوسری طرف اس تناظر میں چیف جسٹس بجا طور پر حکومتی ریاستی اتھارٹی کو باور کرارہے ہیں کہ اچھی گورننس کیلئے قانون کی حکمرانی پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے اور آئین و قانون کی بالادستی کے سوا کوئی دوسرا نظریہ تسلیم نہیں کیا جائے گا، خواہ اس کی کتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے،اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے عوام نے مشرف کی جرنیلی آمریت کی پیدا کردہ لاقانونیت کے خاتمہ اور قانون و آئین کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کیلئے ہی 18 فروری کے انتخابات میں موجودہ حکمرانوں کو سلطانی جمہور کا مینڈیٹ تھا، اسلئے عوام اب بجا طور پر اپنے حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ معاشرے میں سرائت کر جانے والے کرپشن کلچر کا قانون و انصاف کی عملداری کے ذریعہ خاتمہ کیا جائے، عام آدمی کو بھی انصاف کے یکساں مواقع حاصل ہوں اور تمام آئینی ریاستی ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر اپنے فرائض انجام دیں، اگر آج آزاد عدلیہ کو وکلاء اور سول سوسائٹی کی سرکردگی میں عوام کی تحریک کے ذریعہ ملک میں قانون و آئین کی حکمرانی کو یقینی بنانے کا مینڈیٹ ملا ہے اور یہ اس کے آئینی فرائض میں بھی شامل ہے تو عدلیہ کی جانب سے ان فرائض کی بجاآوری میں کسی کو جزبز ہونے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے قانون و آئین کی حکمرانی کو مستحکم بنانے کی کوشش کرنی چاہئے، جبکہ اس سے سسٹم کی بقاء و استحکام کی بھی ضمانت مل سکتی ہے مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ماضی کے تلخ تجربات سے ابھی تک کوئی سبق نہیں سیکھا۔

بظاہر صدر آصف علی زرداری نے چیف جسٹس کی دو سفارشات کو مسترد کرکے اپنا آئینی حق تو استعمال کرلیا، مگر ایک ایسی جنگ بھی چھیڑ دی ہے جس میں ہر صورت انہیں پسپائی ہوگی، وہ غالباً یہ بھول گئے کہ اسی آئین کے تحت اگر چیف جسٹس نے نظرثانی کے بعد جسٹس ثاقب نثار کی سپریم کورٹ میں تقرری کی سفارش دوبارہ کر دی تو پھر صدر اس نظرثانی شدہ سفارش کو قبول کرنے پر مجبور ہوں گے، اس صورت میں ان کی کیا وقعت رہ جائے گی، ایک بار پھر وہی داستان دہرائی جائے گی یعنی کہ عدلیہ کی مانگ بھی پوری ہو جائے گی اور صدر زرداری کو کریڈٹ کی بجائے ملامت ملے گی، کتنا ہی اچھا ہوتا اگر یہ معاملہ کاغذی محاذ آرائی کی بجائے افہام تفہیم سے طے کرلیا جاتا، یقیناً اب چیف جسٹس کی جانب سے مزید استدلال کے ساتھ صدر کو دوبارہ سفارشات بھجوائی جائیں گی جنہیں صدرمملکت کی جانب سے مسترد کئے جانے کی صورت میں چیف جسٹس کے آئینی احکام پر عملدرآمد کے پابند ریاستی ادارے خاموش نہیں رہیں گے اور ملک میں قانون و آئین کی حکمرانی کیلئے اپنا کردار بروئے کار لائیں گے، اگر اس صورت میں سسٹم کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کی راہ اختیار کرنے والی حکومت پر ہی اس کی ذمہ داری عائد ہوگی،پھر اس ایکشن کو جان بوجھ کر دہرانے کی کیا ضرورت ہے جو پہلے بھی جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے پر منتج ہو چکا ہے۔

لہٰذا وزیراعظم صاحب یاد رکھیں کہ ایسے ہی حالات فوج کے لیے سازگار ہوتے ہیں جب عوام سول حکمرانوں سے تنگ آجائیں، گورننس کا بیڑا عرق ہوچکا ہو، میرٹ کا قتل عام اور عدم تحفظ ہو، جمہوریت کے پردے میں شخصی آمریت پروان چڑ رہی ہو اور عوام بنیادی سہولتوں اور اشیاء ضرورت کیلئے ترس رہے ہوں، ایسی صورت میں صرف یہ کہہ دینے سے کام نہیں چلتا کہ اداروں میں تصادم نہیں ہونے دیں گے اور تمام ادارے آئین کے مطابق چلائے جائیں گے، بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ عدالت عالیہ کی طرف سے حکومت میں موجود کئی افراد مشکوک ٹھہرائے جا چکے ہیں، یہ ٹھیک ہے کہ ملزم اور مجرم میں فرق ہوتا ہے لیکن جب تک کوئی ملزم عدالت سے بے گناہی کی سند نہ حاصل کرلے، مشکوک ہی رہے گا، حقیقت حال یہ ہے کہ اب تو آئینی وقانونی ماہرین یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا صدر سزایافتہ ہے اور وہ اس منصب کا اہل نہیں، اس صورتحال میں اب دو ہی راستے ہیں کہ شخصیات کو بچایا جائے یا نظام کو، اگر حکومت نظام کو بچانے کے راستے کا انتخاب کرتی ہے تو اسے چاہیے کہ فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل کرکے ایک نئی تاریخ رقم کرے، لیکن اگر اس کے برعکس شخصیات کو بچانے کا عمل شروع ہوتا ہے تو اس سے نہ صرف حکومت کا نقصان ہوگا بلکہ پورا سیاسی نظام اور ڈھانچہ بھی تباہ ہوجائے گا اور غیر جمہوری قوتوں کو موقع ملے گا کہ وہ جمہوریت کے خلاف سازشیں کریں، آج جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے حکومت کو خطرہ ہے وہ دراصل اس نظام کی بساط لپیٹ کر اپنے پس پردہ مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، بہ نظر غائر دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کے فیصلے سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حکومت کے خلاف نہیں بلکہ ان لوگوں کے خلاف ہے جنہوں نے ملکی دولت لوٹی اور قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے، ہمارا ماننا ہے کہ پیپلزپارٹی ایک عوامی جماعت ہے اور ایک عوامی جماعت ہونے کے ناطے اسے ملکی دولت لوٹنے والوں کا دفاع کرنے کے بجائے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کر کے کرپشن کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دینے چاہیں۔

آج اگر چیف جسٹس ایک ایسے معاشرے کے قیام کی جدوجہد کر رہے ہیں جہاں پر ہر ایک کیلئے انصاف ہو، تو اس میں غلط کیا ہے، قوم گزشتہ باسٹھ سالوں سے ایک ایسے ہی معاشرے کے متمنی ہیں جو انصاف فراہم کرنے والا ہو،62برسوں سے عوام اسی معاشرے کیلئے قربانیاں دیتے آئے ہیں لیکن عوام کی تمام کوششیں، قربانیاں، امیدیں اور خواہشیں نقش برآب ثابت ہوئیں، ہمیشہ چہرے بدلتے رہے لیکن نظام وہی رہا، جس میں کسی غریب و بے سہارا کے بجائے صرف سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کو تو تحفظ حاصل تھا، اسی ناانصافی کے نتیجے میں باسٹھ برس گزرنے کے بعد تمام تر وسائل ہونے کے باوجود ہم بحیثیت قوم ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکے، دولت کی ناجائز تقسیم اور اس کا چند ہاتھوں میں سمٹ جانا اور مصلحتوں میں لپٹے انصاف کی فراہمی سے ہمارے معاشرے کو افراتفری، انتشار اور انارکی کے سوا کچھ نہیں ملا، ماضی میں اگر عدالتوں نے انصاف فراہم بھی کیا تو وہ انصاف مصلحتوں اور نظریہ ضرورت کی چادروں میں لپٹا ہوا حکمرانوں کی مرضی و منشا کا پابند تھا، لیکن آج اگر عدلیہ تمام تر دباؤ سے آزاد غیر جانب دار اور بے لاگ انصاف کیلئے اپنا کردار ادا کررہی ہے تو حکومت کیوں اس کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کر کے محاذ آرائی کی طرف لے جانے کی کوشش کررہی ہے، شاید وہ یہ بات بھول رہی ہے کہ یہ 90ءکی دہائی والے حالات نہیں ہیں کہ انصاف و قانون کی عملداری کیلئے چیف جسٹس کے جاری کردہ احکام روبہ عمل نہ آسکیں اس لئے عدلیہ کے ساتھ ٹکراﺅ کا راستہ اختیار کرنا اب حکمرانوں کو بہت مہنگا پڑے گا، جبکہ قانون و آئین کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کیلئے عوام بھی عدلیہ کی پشت پر کھڑے ہیں، وہ ملک میں قانون و آئین کی حکمرانی کیلئے کاربند اور کرپشن کے خاتمہ کیلئے پرعزم عدلیہ کے ساتھ حکومتی ریاستی محاذ آرائی کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔

اسلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پیپلزپارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کریں کیونکہ اس میں ملک و قوم کا فائدہ ہے، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ این آر او کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد سے شخصیات کے لئے تو خطرہ ہے لیکن موجودہ نظام کیلئے نہیں، اب یہ سیاسی قوتوں کا کام ہے کہ وہ اس نازک مرحلے پر شخصیات کو مقدم رکھتی ہیں یا ملک و قوم اور نظام کو اہمیت دیتی ہیں، آج وقت نے حکومت اور تمام سیاسی قوتوں کو تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر لاکھڑا کیا ہے کہ جہاں ان کی سیاسی فہم و فراست اور دور بینی کا امتحان مقصود ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس امتحان میں حکومت اور سیاسی قوتیں نظام بچاکر کامیاب و سرخرو ہوتی ہیں یا شخصیات بچا کر علامہ عنایت اللہ مشرقی کے اس قول بلیغ کہ”دنیا کی مکر کی تاریخ میں سیاست صرف اپنے نقطہ نظر سے کامیاب حکومت کا نام ہے، سیاست کے سب چالباز اپنے حریف کی چال کو کم و بیش صاف طور پر دیکھتے ہیں، لیکن کیونکہ سب چور ہوتے ہیں اور سب کا مقصد بے بس اور بے خبر رعیت کا کامیاب شکار کرنا ہوتا ہے، اسلئے ہر چور اپنے حریف کی چال کو روایتی احترام کی نظر سے دیکھتا ہے اور سیاست کے تمام کھیل کو سرِمکتوم بنا دینا اپنی سیاسی شرافت سمجھتا ہے، اس نقطہ نظر سے راعی کی رعایا کے خلاف ہمیشہ ایک سازش رہی ہے، جس کا پورا انکشاف اسلئے نہیں ہوسکا کہ راعیوں کی ٹولی دنیا میں ایک مستقل گروہ رہا ہے، جس کی سیاسی شرافت اور آداب جماعت اس کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ چوروں کی منڈلی کے راز فری میسنوں کی طرح فاش کرکے رکھ دے“ کی تائید و حمایت کرتی ہیں۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358665 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More