مدارس اصلاحات٬ حقائق و تجاویز

حکومت طویل عرصہ سے مدارس دینیہ کیلئے اصلاحات کا نظام متعارف کروارہی ہے۔ جس کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں ہیں، کچھ رکاوٹیں خود مدارس کی طرف سے ہیں اور کچھ مدارس کی حقیقی صورتحال سے ناواقفیت کے سبب ہیں۔ مدارس میں اصلاحات کے لئے چند بنیادی حقائق کا جاننا بہت ضروری ہے۔ پاکستانی مدارس کا نظام فرقہ واریت میں لتھڑا ہوا ہے۔ ان مدارس میں فرقہ واریت کی کوئی ایک سطح نہیں ہے۔ کیونکہ فرقہ واریت ایک ایسی خود رو بیل ہے جو مزید فرقے پیدا کرتی رہتی ہے۔ لہٰذا ان فرقوں کے بہت سے ذیلی فرقے بھی ہیں۔ ان میں سے ہر فرقہ کے نزدیک اس سے مختلف سوچ رکھنے والا گمراہ ہے، اس کے ساتھ مقابلہ کرنا، اسے کمزور کرنا ہر فرقہ اپنی بقا کیلئے ضروری خیال کرتا ہے۔

دہشت گردو کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ جب تک ان کے فکری مراکز کو درست ڈگر پر نہ چلایا گیا تو پاکستانی فوج کی قربانیاں رائیگاں جاسکتی ہیں۔ یقیناً پاکستان میں موجود مدارس اس بات کا دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ان کے مدارس میں دہشت گردی نہیں سکھائی جاتی مگر یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کا بیج بونے کا عمل یہیں سے ہوتا ہے، مٹی یہیں نم ہوتی ہے۔ تنگ نظری، مذہب کا محدود اور جامد تصور، فرقہ واریت کی بنیاد پر تضادات، محرومی اور پسماندگی، تقسیم انسانیت، یہی وہ چیزیں ہیں جو آگے چل کر ایک فرد کو دہشت گردوں کا بطور آلہ کار معاون بناتی ہیں۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ مدرسہ اصلاحات کے حوالے سے گورنمنٹ جو اقدامات لینا چاہتی ہے اس کے حوالے سے چند اہم امور پر ضرور غور کرے۔

گورنمنٹ نے اعلان کیا ہے کہ ہر مدرسہ کا مدارس کے بنے ہوئے پانچ بڑے امتحانی بورڈز میں سے کسی بورڈ کے ساتھ الحاق کرنا لازمی ہوگا۔ ان امتحانی بورڈز کے مختلف ہونے کی اساس فرقہ وارانہ ہے، جس میں دیوبندی، اہلحدیث، بریلوی، شیعہ نمایاں ہیں، انہی فرقوں کی اساس پر تقسیم کے ساتھ بنے ہوئے امتحان لینے والے پانچ بڑے اداروں کو مدرسہ بورڈ کا نام دیا ہے۔ ایک فرقہ کے بورڈ میں دوسرے فرقہ کا کوئی فرد امتحان نہیں دے سکتا۔ انکے مخصوص نظریات جن کو مفادات کہنا زیادہ مناسب ہوگا سے میل نہ رکھنے والے مدارس کو ملحق ہونے کی اجاز ت نہیں ملتی بلکہ معمولی اختلافات کی بنیاد پر بورڈز سے مدارس کے اخراج کا عمل بھی ہوتا رہتا ہے۔ اس کا ثبوت ان بورڈز کے جاری شدہ رسائل اور جرائد میں فیصلہ جات کی رپورٹس کی صورت میں موجود ہے۔ ایسے میں مدارس کو چند بورڈ کے ماتحت کردینا کسی طور بھی دانش مندی نہیں کہلائے گی۔ یعنی ہم قانونی طور پرفرقہ واریت کو منظم ہونے اور قرآن کی نظر میں (فرقہ واریت جیسے )حرام امر کو تقویت دینے جارہے ہیں اور فرقہ واریت کو برا سمجھنے والوں کی حوصلہ شکنی کے اقدامات اٹھانے جارہے ہیں۔

پاکستان کے بہت سے مدارس نے پہلے ہی ان مذکورہ بورڈز پر عدم اعتماد کرکے اپنا خود مختار نظام قائم کیا ہوا ہے یا اپنے الگ بورڈز بنائے ہوئے ہیں۔ کیا یہ ان کو فرقہ واریت کی طرف دھکیلنے کا عمل نہ ہوگا؟ اور فرقہ واریت کی فضا میں ایک امید کی کرن وہ مدارس جو دین کو فرقہ واریت سے ہٹ کر پیش کرنا چاہتے ہیں، کیا یہ انہیں مایوسی کے ساتھ ادارے بند کرنے پر مجبور کرنے کا عمل نہ ہوگا؟ آج وطن عزیز پاکستان اور اس کی عظیم فوج کو درپیش دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بہت سی وجوہات کے ساتھ ایک بڑی وجہ وہ تقسیم اور تضادات سے بھرا ذہن بھی ہے جس کی آبیاری انہی فرقہ واریت سے جڑے ہوئے مدارس میں ہوتی ہے، جس کو انتہا پسند اپنے لئے بطور آلہ کار کے بآسانی استعمال کرلیتے ہیں۔ اس صورتحال میں کیا یہ درست عمل ہوگا کہ دین کی اجتماعی فکر رکھنے والے مدارس کو مجبور کیا جائے کہ وہ ان طبقات کے آگے جھکیں اور دین کے حقیقی تصور کا راستہ ترک کرکے رجعت پسندی کی گدلی دلدل میں جا اتریں؟

گورنمنٹ کی طرف سے مدارس کو قومی دھارے میں لانے کی، ایک دہائی سے زائد عرصہ کی، کوشش کو تاحال کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ جنوبی پنجاب میں گورنمنٹ کے تحت چلنے والے ثانوی و اعلی ثانوی بورڈز نے سائنس، آرٹس اور ٹیکنکل گروپس کی طرح درس نظامی گروپ میں میٹرک کا آغاز بھی کیا مگر اس میں کامیابی نہیں مل سکی۔ اس ناکامی کی وجہ جاننے کے لئے چند حقائق سے آگاہی ضروری ہے۔

دینی مدارس کے مذکورہ بورڈ کوئی اجتماعی ادارے نہیں ہیں بلکہ چند شخصیات کے نام ہیں۔ ان کے سربراہ کی تبدیلی کا عمل کسی سربراہ کے وفات پانے کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے۔ مذکورہ بورڈز میں کوئی قابل ذکر مشاورتی ڈھانچہ نہیں ہے۔ مخصوص اشرافیہ کی آمریت کا تصور پایا جاتا ہے۔ اگر کہیں الیکشن کا سلسلہ ہے بھی تو وہ نام نہاد ہے جہاں بااثر لوگ ہی (انتظامی عہدوں پر)قائم رہتے ہیں۔ ان شخصیات کا تقدس اساتذہ اور طلباء کے ذہنوں پر مسلط کیا جاتا ہے۔

دینی مدارس میں معاشی حوالے سے پسماندہ اور کمزور لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جن کی غذا، رہائش اور تعلیم کا مکمل بوجھ ادارہ اٹھاتا ہے ۔ بعض مدارس میں طلباء کو وظیفہ بھی دیا جاتا ہے، علاج معالجہ کی سہولت بھی میسر ہوتی ہے۔ اس کیلئے مدرسہ کا سالانہ بجٹ لاکھوں میں چلا جاتا ہے اور بڑے بڑے مدارس کا بجٹ کروڑوں سے بھی تجاوز کرجاتا ہے۔ جس کیلئے مدارس کو چندہ اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ یہ چندہ ہر فرقہ کی معروف شخصیات کی سفارش اور جاری کردہ لیٹرز کی بنیاد پر ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے کسی میں جرات نہیں کہ وہ ان شخصیات کے حکم کی سرتابی کر سکے اور ان سے ہٹ کرچلنے کا سوچ سکے۔ نہ تو ان بورڈز کے سرکردہ راہنما چاہتے ہیں کہ ان کی اجارہ داریاں ٹوٹیں اور نہ ہی کوئی مدرسہ ان کی ناراضگی مول لے کر اپنے چندے بند کروانا چاہتا ہے۔ اس وجہ سے حکومت کی طرف سے کئے گئے اقدامات ناکام ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں چند بورڈز کی دوسرے معنوں میں چند شخصیات کی اجارہ داری قائم کردینا کسی طور بھی مستحسن عمل نہیں۔ اس کیلئے گورنمنٹ کی طرف سے درست قدامات کا اٹھایا جانا ضروری ہے۔ اس حوالہ سے چند تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔

۱-پورے پاکستان میں گورنمنٹ کے ماتحت چلنے والے تمام ثانوی و اعلی ثانوی بورڈز میں درس نظامی گروپ کا اجراء کیا جائے۔
2-ملک بھر میں موجود دینی مدارس کے غیر رجسٹرڈ بورڈز کی فی الفور رجسٹریشن کی جائے۔
3- مزید بورڈز تشکیل کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں رجسٹرڈ کیا جائے۔ نئی رجسٹریشن میں مذکورہ بالا خامیوں کو ضرور مدنظر رکھا جائے۔ اس سے تمام بورڈز میں مسابقت کا جذبہ پیدا ہوگا۔ مدارس کے طلباء کو بہتر تعلیمی ماحول مل سکے گا۔
4-مدارس کیلئے بیت المال کے نظام کا قیام عمل میں لایا جائے۔ مخیر حضرات کو قائل کیا جائے کہ وہ اپنے عطیات، زکوة، صدقات کو مدارس بیت المال میں جمع کروائیں اور یہاں سے ان مدارس کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ اس سے علماء کو جگہ جگہ مانگنے اور در در پر جھکنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ علماء کی عزت اور ان کے وقار میں اضافہ ہوگا۔
5-قومی سطح پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اساس پر دینی یونیورسٹیاں قائم کی جائیں۔ ان یونیورسٹیز میں مدارس کے بورڈز سے فارغ التحصیل طلباء کیلئے اعلیٰ تعلیم و تحقیق پر مبنی دو سے تین سالہ نظام تعلیم تشکیل دیا جائے۔ مدرسہ بورڈزسے فارغ التحصیل صرف ان طلباء کی اسناد کو قومی اداروں میں تسلیم کیا جائے جو ان یونیورسٹیز میں تعلیم مکمل کریں۔ اگر مدارس یونیورسٹیز کے حوالے سے فرقہ وارانہ شناخت پر اصرار کریں تو ایک ہی یونیورسٹی میں ہر فرقہ کا الگ ڈیپارٹمنٹ بنادیا جائے۔ مستقبل میں یہی یونیورسٹیز، مدارس بورڈز کے امتحانی نظام کو بہتر کرنے میں انکی مدد بھی کرسکتی ہیں۔

مدارس اصلاحات کے سلسلہ میں ہونے والے کسی بھی عمل کو امریکی یا کسی بھی بیرونی امداد سے نہ جوڑا جائے۔ گورنمنٹ کی طرف سے جب بھی مدارس کی اصلاحات کا اعلان ہوتا ہے تو ساتھ ہی یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ امریکہ اس کیلئے فنڈ دے رہا ہے۔ جس سے مدارس کے لوگوں میں یہ پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ امریکہ کی ایما پر ہورہا ہے، یوں اس اقدام کے راستے میں ذہنی رکاوٹ کھڑی کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ گورنمنٹ امریکن امداد کو مدارس کی اصلاحات پر خرچ نہ کرے۔ اگر امداد ناگزیر ہے تو اس سلسلہ میں عرب ممالک سے امداد لی جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ مدارس کیلئے متعارف کروائے گئے کسی بھی نظام کو چند زعماء تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس کی تشہیر عام کی جائے۔ مذکورہ بالا تمام اقدامات اٹھاتے وقت میڈیا کے ذریعہ اس کی تشہیر کی جائے تاکہ اس کا شعور پیدا ہو۔ عام مدارس کو نیا نظام سمجھنے میں مدد دی جائے۔ قومی سوجھ بوجھ رکھنے والے علماء کے ذریعہ عام مدارس تک اصلاحات کو براہ راست متعارف کیا جائے۔
Shuban
About the Author: Shuban Read More Articles by Shuban: 4 Articles with 2956 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.