عالمِ اسلام راؤنڈ اَپ
(Dr Muhammad Abul Rasheed Junaid, )
اب پاکستان میں دینی مدارس نشانہ پر۰۰۰
عالمی سطح پر مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوششیں کسی نہ کسی طرح
جاری ہیں اور اسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیمی اور معاشی طور پر پسماندہ
بنانے کے علاوہ ان کی نسل کشی بھی کی جارہی ہے۔ گذشتہ تین دہائیوں کے دوران
عالم اسلام کے ممالک میں مختلف الزامات کے تحت حکمرانوں اور پھر شدت پسند
تحریکوں کو ختم کرنے کے بہانے مغربی ویوروپی ممالک نے جس طرح ان ممالک کو
نشانہ بنارہے ہیں اس سے سب ہی واقف ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ہزاروں
عام شہریوں بشمول معصوم بچوں اور خواتین کی ہلاکت ہوئی ہے ۔ شدت پسند
تحریکوں کو ختم کرنا تو دور کی بات ان میں کمی بھی واقع نہیں ہوئی بلکہ اس
میں مزید اضافہ ہوا اور نئی تحریکیں بھی جنم لینے لگی ہیں۔ ان دہشت گرد
تنظیموں کا نشانہ عام شہری ہوتے ہیں جبکہ دہشت گردو ں کو ختم کرنے کے نام
پر جو حملے امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کرتے ہیں ان میں بھی عام شہریوں
کی ہلاکت کی خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں۔ یعنی دو طرفہ ہلاکتیں عام
شہریوں کی ہورہی ہیں۔ نام نہاد جہادی تنظیمیں جو اسلام کے نام پر مسلمانوں
کا قتل عام کررہی ہیں اور مسلمانوں کی عبادتگاہوں، مزارات، مساجد ، مدرسوں
کو تک فضائی حملوں کے ذریعہ نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بعض
صحابہ کرام اور اولیاء ِ عظام کے مزارات پر حملے کرکے اپنی دنیا و آخرت
برباد کرلے رہے ہیں۔عالمِ اسلام کے کئی ممالک میں مذہبی اداروں، مدارس اور
مساجد میں حکومتی سطح پر نظر رکھی جاتی ہے تاکہ یہاں پر حکومت کے خلاف کوئی
غیر قانونی سرگرمیاں نہ ہوں۔پشاورکے آرمی پبلک اسکول کے سانحہ کے بعد
پاکستانی حکومت اور فوج نے سخت قوانین لاگو کئے ہیں اور آئین میں ترمیم بھی
کی ہے۔ پشاور سانحہ کے بعد تیار کئے گئے نیشنل ایکشن پلان کے تحت تمام
صوبوں کی سطح پر ایپکس کمیٹیاں قائم کی گئیں ہیں اور ان کمیٹیوں کے اجلاس
میں وزیر اعظم نواز شریف اور فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی شرکت کی
تھی۔ پشاور سانحہ کے بعد آئین میں اکسیویں ترمیم میں جن دو نکات کو زیادہ
اہمیت دی گئی ان میں فوجی عدالتوں کا قیام اور دوسرا تمام مدارس کی
رجسٹریشن شامل ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت مدارس کا سروے شروع کردیا گیا
ہے ان فہرستوں کے مطابق خیبر پختونخوا کی حکومت نے دینی مدارس کی فہرستیں
تیار کی ہیں جن کی تعداد تین ہزار سے زائد بتائی گئی ہے جن میں 770مدارس
ایسے بتائے گئے ہیں جو حکومت کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ ان مدارس میں کچھ
مدارس انتہائی حساس قرار دیئے گئے ہیں۔ وفاق المدارس کے ناظم مولانا حسین
احمد کا کہنا ہے کہ حکومت مدارس کو نشانہ بنارہی ہے جس کے خلاف ہو احتجاج
کرتے ہیں۔ ان فہرستوں کے مطابق خبیر پختونخوا کے مدارس میں تین لاکھ تیس
ہزار طلبا زیور تعلیم سے آراستہ ہورہے ہیں ان میں ساڑھے چار ہزار طلبا غیر
ملکی ہیں۔ ان مدارس میں سولہ ہزار کے قریب اساتذہ ہیں جن میں دواسی غیر
ملکی اساتذہ ہیں۔ وفاق المدارس خیبر پختونخوا کے ناظم کا کہنا ہے کہ مدارس
کا رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ حکومتی پابندیاں اور بیوروکریسی کے طور طریقے
ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2004تک مدارس کی رجسٹریشن پر پابندی عائد رہی اس کے
بعد متعدد مدارس کے فارم رجسٹرار آفس میں جمع ہیں لیکن اس پر کوئی عمل در
آمد نہیں ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت مدارس کو
نشانہ بنایا جارہا ہے جس پر پاکستان بھرکے مدارس احتجاج کا حق رکھتے ہیں ان
کاکہنا ہے کہ یہ درست نہیں ہے کہ مدارس دہشت گردی کا گڑھ ہیں یا یہاں عسکری
تربیت دی جاتی ہے کیونکہ اب تک کسی بھی ادارے نے یہ ثابت نہیں کیا کہ یہاں
عسکری تربیت دی جاتی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ پاکستان کے دیگر صوبوں سے کس قسم
کی رپورٹ آتی ہے اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت ان تمام مدارس کے حق میں یا
خلاف کارروائی ہوتی ہے۔ اس سے قبل گذشتہ ماہ فروری میں صوبہ سندھ کے ساحلی
علاقے ضلع بدین میں پولیس نے غیر رجسٹرڈ مدارس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے
14مدارس کو سر بہر کردیا ۔ ضلع بدین میں مدارس کے کوآرڈینیٹر مفتی عبدالغنی
گوپانگ کے مطابق دیہاتوں م یں موجود مکاتب کو سر بمہر کیا گیا ہے جہاں بچے
دوپہر کے بعد قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور شام کو اپنے گھروں کو چلے
جاتے ہیں۔ اندرون سندھ اکثر مدارس میں بچے قیام کرتے ہیں جہاں تعلیم کے
علاوہ ان کے طعام کا بھی بندوبست ہوتا ہے، شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں
تقریباً تمام مساجد میں دوپہر کے بعد محلے کے بچوں کو قرآن کی تعلیم دی
جاتی ہے جس کا اکثر جگہوں پر کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا ہے۔ اگر دینی مدارس
میں واقعی دہشت گردی کی تربیت دی جارہی ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی
چاہیے لیکن مسالک کی بنیاد پر حکومتی عہدیداراور پولیس دہشت گردی کا لیبل
لگانے کی کوشش نہ کریں ۔جن مدارس کو بند کیا گیا ہے حکومت مکمل غیر
جانبدارانہ تحقیقات کروائیں تاکہ قرآن کا علوم حاصل کرنے والے معصوم ہونہار
بچے دینی تعلیم و تربیت سے دور نہ ہوجائیں ۔پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک
کے مختلف علاقوں میں واقع دینی مدارس میں غیر ملکی افراد کے داخلے پر
پابندی عائد کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں سے ان احکامات پر عمل در آمد کو
یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ اس طرح شدت پسندی سے نمٹنے کے لئے قومی ایکشن
پلان کے ایک حصے کے طور پر دینی مدارس ان دنوں حکومت کے نشانہ پر ہے البتہ
تمام دینی مدارس کے انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اپنا رجسٹریشن کروالیں تاکہ اس
سے حکومت کے پاس مکمل اعداد و شمار ہو اور حکومت بھی رجسٹریشن کروانے میں
جو پیچیدگیاں ہورہی ہیں اس کے ازالہ کی کوشش کرنے کے احکامات جاری کریں اور
اس پر خصوصی نظر رکھیں تاکہ کہاں پر کوتاہی ہورہی ہے یا کیوں ہورہی ہے
معلوم ہوسکے۰۰۰
یمن میں حوثی بغاوت اور عالم اسلام کا ردّ عمل
یمن کے دارالحکومت صنعا میں حوثیوں کی مسلح بغاوت اور اقتدار پر قبضہ کے
بعدیمن کے لئے ایرانی پرواز بحال ہوگئی اور پہلی ایرانی پرواز کی صنعا آمد
پر صدر عبدربہ منصور ہادی نے شدید ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے غیر
قانونی قرار دیا۔جبکہ خلیجی ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت نے
حوثیوں کے زیر کنٹرول صنعا کے بجائے عدن میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھولنے
کا فیصلہ کیا ہے۔خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے چھ ممالک کے وزرائے خارجہ
کی جانب سے کئے گئے ایک معاہدہ کے مطابق یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ واشنگٹن نے
بھی دارالحکومت صنعا میں حوثیوں کا مکمل کنٹرول ہوجانے کے بعد اپنا
سفارتخانہ بند کرنے کا اعلان کیا تھا ، امریکی سفیر برائے یمن نے بھی اتوار
کو صدر عبد ربہ منصور ہادی سے جنوبی یمن کے شہرعدن میں ملاقات کی، جہاں سے
یمنی صدر منصور اپنی سرکاری ذمہ داری انجام دے رہے ہیں جو صنعا میں حوثیوں
کی جانب سے نظر بند کئے جانے کے بعد فرار ہوکر عدن میں قیام کئے ہوئے
ہیں۔صدر ہادی نے دارالحکومت صنعا میں حوثی باغیوں کے قبضہ کو مقبوضہ علاقہ
قرار دیا اور اسے حوثیوں کی جانب سے انقلاب کے دعوی کو مسترد کرتے ہوئے
مسلح غیر قانونی بغاوت سے تعبیر کیا ہے۔ ایران کی جانب سے پروازیں بحال کئے
جانے پر صدر ہادی نے کہا کہ ایران اور صنعا کے درمیان پروازوں کی بحالی کا
معاہدہ کرنے والوں کا احتساب کیا جائے گا صدر نے الزام عائد کیا کہ ایران
حوثیوں اور سابق صدر علی عبداﷲ صالح سے مل کر صنعا پر قبضہ کا منصوبہ تیار
کیا اور خلیج امن فارمولہ کو ناکام بنادیا ہے۔ ایران اور حوثیوں کے درمیان
تعلقات کو بین الاقوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور خلیجی
تعاون کونسل نے بھی یمن کے موجودہ صدر ہادی منصور کے ساتھ تعاون کررہے ہیں
جبکہ یمن میں القاعدہ تحریک بھی اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئی ہے ۔ یمن
میں اگر ایران حوثیوں کا ساتھ دیتا ہے تو اس سے شیعہ اور سنیوں کے درمیان
اختلافات شدت اختیار کرسکتے ہیں ۔
سعودی عرب اور مصر کے درمیان تعلقات
مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی گذشتہ اتوار کو مملکت سعودی عرب کا دورہ کرکے
سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی ۔ اس موقع پر دونوں
قائدین کے درمیان باہمی تعلقات اور اہم علاقائی اور عالمی امور پر تبادلہ
خیال ہوا۔ اس موقع پر ولی عہد شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز ، نائب ولی عہد اور
وزیر داخلہ شہزادہ نائف بن محمد ، وزیر دفاع محمد بن سلمان اور دیگر اعلیٰ
عہدیدار موجود تھے۔ سعودی عرب روانہ سے قبل مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا
۔ عرب خطہ گذشتہ چند برسوں کے دوران شدت پسندی کے خطرات سے دوچار ہے ان
حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے خلیجی ممالک کے حکمراں عرب ممالک کے درمیان
مضبوط اتحاد چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یمن میں حوثی بغاوت کے خلاف صدر ہادی
منصور کی قیادت کوہی تسلیم کرتے ہوئے ان ممالک کے سفارتخانوں کو جو صنعا
میں بند کردئے گئے تھے عدن میں قائم کئے ہیں اس طرح خلیجی ممالک خطہ میں
شدت پسندی اور بغاوت کو کچلنے کے لئے اتحاد کو فروغ دیتے ہوئے اہم اقدامات
کی کوشش کررہے ہیں اب دیکھنا ہیکہ عراق اور شام میں دولت اسلامیہ عراق و
شام ، النصرہ، القاعدہ جیسی نام نہاد جہادی تنظیموں کے خلاف کس قسم کی
کارروائی کرتے ہیں جبکہ مصر میں اخوان المسلمین کو ختم کرنے کے لئے مصری
صدر عبدالفتاح السیسی نے سخت قوانین لاگو کئے ہیں اور اخوان المسلمین کے
سینکڑوں کارکنوں پر الزامات عائد کرکے انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے ۔
اخوان المسلمین کے روحانی رہنما البدیع اور جمہوری طور پر پہلے منتخبہ صدر
محمد مرسی کو فوجی بغاوت کے ذریعہ بے دخل کرکے قید و بند کی زندگی گزارنے
پر مجبور کردیا گیا ہے ۔ مصر کے اندرونی حالات اپنی جگہ ہے اسی لئے موجودہ
مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے ساتھ خلیجی ممالک کے تعلقات ماضی کی طرح
مضبوط ہیں۔
ترکی صدر رجب طیب اردغان سعودی عرب میں۰۰۰
ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے مملکت سعودی عرب کا دورہ مکمل کرلیاوہ اپنے
دورہ کے دوران حرمین شریفین بھی گئے جہاں روضہ رسول ﷺ پر حاضری دی۔ رجب
اردغان ریاض پہنچنے پر سعودی حکمراں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سرکاری
تقریب کے ساتھ ان کا استقبال کیا ۔ خلیجی ممالک اور ترکی کے درمیان گذشتہ
دنوں کشیدہ حالات دکھائی دے رہے تھے لیکن خطہ میں شدت پسندی کے مدّنظر
ہوسکتا ہے کہ خلیجی ممالک اور ترکی کے درمیان تعلقات بہتر ہوں اور صدر رجب
اردغان کا دورہ سعودی عرب اسی کی کڑی ہو۔ دونوں ممالک کے قائدین کے درمیان
سیاسی، اقتصادی، سلامتی اور دفاعی موضوعات سمیت دونوں ملکوں کے درمیان
تعاون کو مزید فروغ دینے کے موضوع پر بات چیت ہوئی۔ بات چیت میں دونوں
فریقین نے شدت پسندی سے نمٹنے کے علاوہ شام کے حالات پر بھی بات چیت کرتے
ہوئے مختلف امور پر اتفاق رائے کا اظہار کیا۔ |
|