ہندو پاک کے درمیان بات چیت اور کشمیر کا مسئلہ۰۰۰
(Dr Muhammad Abul Rasheed Junaid, )
ہند و پاک کے درمیان جب بھی حالات بہتر
ہوتے نظر آئے تو بعض کے چہروں پر مسرت اور خوشی کے آثار دکھائی دینے لگتے
ہیں اور بعض کے چہرے مرجھائے ہوئے اوراور زبانوں سے نفرت بھرے الفاظ بھی
نکلتے ہیں۔ یہ تو دنیا کا دستور ہے کہ ہر اچھائی کے ساتھ بُرائی اور ہر
خوشی کے ساتھ غملازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہندو پاک کے حکمراں یا
اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان جب بھی بات چیت کے لئے خوشگوار ماحول بنتا
دکھائی دیتا ہے تو اس میں رخنہ ڈالنے کے لئے اپوزیشن پوری مستعدی دکھاتی ہے
اب تو اپوزیشن سے دو ہاتھ نہیں بلکہ کئی ہاتھ زیادہ رخنہ ڈالنے اور بہتر
ہوتے تعلقات کو بگاڑنے کے لئے الکٹرانک میڈیا بہت آگے دکھائی دیتا ہے۔
میڈیا کی آزادی بے شک اپنی جگہ مسلمہ ہے اور ہونی بھی چاہیے لیکن ایسے
افراد کو میڈیا سے دور رکھا جائے جو غیر ذمہ دارانہ بیانات اور بات چیت کے
ذریعہ ملک و بیرون ملک صحافت کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔ میڈیا کا رول
ہمیشہ مثبت اور تعمیری ہونا چاہیے۔میڈیا فریقین کے درمیان دشمنی اور
اختلافات کو ختم کرنے کے لئے خوشگوار ماحول پیدا کرکے دوستی کی سمت گامزن
کرے۔برخلاف اسکے ہمارا اور ہمارے پڑوسی ملک کانام نہادسب سے پہلے خبر
پہنچانے کا دعویٰ کرنے والا الکٹرانک میڈیا دوستی کو دشمنی میں بدلنے کی
مہارت رکھتا دکھائی دیتا ہے۔ایسے میں اپوزیشن بھی خبروں میں رہنے کے لئے
غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے کے لئے آگے آجاتی ہے۔ ان دنوں عالمی سطح پر
دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے اتحاد کی باتیں کی جارہی ہیں اور مغربی و یوروپی
ممالک اتحاد کے ذریعہ اور دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر خود دہشت گردی کے
بیج بوئے ہیں ، آج دہشت گردی کے اصل ذمہ دار امریکہ اور مغربی ممالک و
صیہونی طاقتیں ہی ہیں جنہوں نے پاکستان، افغانستان اور دیگر اسلامی ممالک
میں مختلف بہانوں کے ذریعہ اور دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر قدم جمانے میں
کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔ ہند و پاک کے درمیان بھی حالات بگاڑنے میں ان
ممالک کا عمل دخل رہا ہے۔
کشمیر کی علحدگی پسند تحریکیں چند دن آزادی کے لئے آواز اٹھاتی ہیں پھر کئی
کئی ماہ تک خاموشی چھائی ہوئی رہتی ہے۔ ان کی خاموشی اور آواز اٹھانے کے
درمیان کیا راز پوشیدہ ہے اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ کیا واقعی
کشمیری عوام آزادی چاہتے ہیں یا ہندوستان کے ساتھ مل کر خوشحال زندگی
گزارنا چاہتے ہیں؟ کشمیر اگر آزاد ہوتا ہے تو اسے کئی مسائل و مصائب سے
گزرنا پڑے گا۔ پاکستان آج جس طرح کشمیر کے مسئلہ کو عالمی سطح پر اٹھاکر
کشمیریوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرتا دکھائی دے رہا ہے وہ خود اپنے
ملک میں امن و سلامتی کی فضا ء قائم رکھنے میں ناکام ہے۔ پاکستانی شہروں
میں کہیں ڈکیتی، لوٹ مار، قتل و غارت گیری، چاقو زنی، فائرنگ، بم دھماکے،
خودکش حملے روز کا معمول بن چکے ہیں۔ انسان صبح سویرے گھر سے باہر نکل کر
شام واپس گھر صحیح سلامتی کے ساتھ پہنچنے کی امید نہیں کرسکتا۔ لوٹ مار کا
یہ حال کے خواتین و ضعیف حضرات بھی ان سے بچ نہیں پاتے، اگر ڈاکوؤں اور
لٹیروں سے بحث و مباحثہ کرنے کی کوشش کریں یا انکے مطالبہ کو پورا نہیں کیا
جاتا ہے تو چاقو یا گولی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ پاکستانی عوام کا کہنا ہے
کہ پولیس کی جانب سے ایف آئی آر تک درج نہیں کی جاتی ، ایسے ماحول میں جینے
والے پاکستانی عوام اور حکومت کس طرح کشمیریوں کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ کشمیری
عوام بے شک آزادی ہند کے بعد بہت صبر آزما دور سے گزرے ہیں انکے ساتھ
زیادتیاں ہوئیں ہیں ۔ ہماری ہندوستانی فوج کے بعض درندہ صفت اہلکاروں نے
کشمیری لڑکیوں اور خواتین کی عصمتوں کو پامال کیا ہے اورکئی کشمیری
نوجوانوں کو ہلاک بھی کیا ہے ۔ مظالم کا سلسلہ اب تک چلتا رہا ہے لیکن ایک
نہ ایک دن تو یہ بند ہونا چاہیے اور اس کے لئے پہل بھی ہونی ضروری ہے۔
کانگریس نے اپنے دورِ اقتدار میں کشمیریوں کے مفادات کا کتنا لحاظ کیا ہے
اور کتنا نقصان پہنچایا ہے یہ الگ بحث ہے ، ماضی کو یاد رکھنا چاہیے لیکن
حال اور مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے کوششیں بھی ضروری ہے اور آج جبکہ
مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف کہنے والے خود اقتدار پر فائز ہوچکے ہیں ،
یہ مسلمانوں کے کھلے دشمن کہلائے جاتے ہیں کیونکہ آج بھی بھگوا جماعتوں کے
تعصب پرست قائدین اپنی اصلیت دکھاتے نظر آرہے ہیں ان کی زبانوں سے نکلنے
والے الفاظ مسلمانوں کے خلاف ہوتے ہیں اور اگر وہ مسلمانوں کے خلاف کچھ نہ
بولیں گے تو بیمار پڑجائیں گے اسی لئے مسلماان مصلحت پسندی سے کام لیتے
ہوئے ان دشمنانِ اسلام کی زبانوں کو لگام دینے کے بجائے کھلی رکھنا مناسب
سمجھتے ہیں تاکہ انکی بیماری کا خاتمہ ہوجائے اور ایک نہ ایک دن وہ بھی
ماضی کی اُس تاریخ کو دہراتے ہوئے قبولیت اسلام اختیار کرلیں۔ہمیں کسی
بھگوا جماعت کے متعصب قائدین کے بیانات کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے ،
ہمکو اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کے لئے ملک کے دستور نے مواقع فراہم کئے ہیں
اور ہم اسی کے ذریعہ اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ کشمیری عوام بھی
اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کے لئے موجودہ بھگوا حکومت کے سامنے اپنے مطالبات
رکھیں، ہوسکتا ہے کہ کانگریس سے جو نقصانات کشمیری مسلمانوں کو پہنچے ہیں
اس کا ازالہ ہو۔ بی جے پی اسلام دشمن یا مسلم دشمن جماعت کی حیثیت رکھتی ہے
جس کا علم ہمیں ہے اگر ہم اسے مدّنظر رکھ کر اور اﷲ رب العزت سے خیر کی
امید رکھ کر اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو ہوسکتا ہے کہ اس میں
ہمیں کامیابی حاصل ہو۔ اﷲ تعالیٰ دلوں کو پھیرنے والا ہے اور ہوسکتا ہے کہ
جو ہمارے کھلے دشمن ہیں انکے قلوب بھی پھیر دے اور وہ ہمارے دوست بن جائیں۔
کشمیر مسئلہ کے حل کے لئے پڑوسی ملک کے ساتھ بہتر تعلقات خوش آئند اقدام ہے۔
کیونکہ آزادی ہندکے بعد سے یہ بات سیاسی ، عوامی اور حکومتی سطح پر کہی
جاتی رہی ہے کہ دونوں ممالک کے اندر جو بھی فساد یا دھماکے ہوتے ہیں اس سے
پڑوسی ملک کو جوڑدیا جاتا ہے۔ اس میں کتنی صداقت ہوتی ہے یہ تو ہماری اور
پڑوسی ملک کی انٹلی جنس اور خفیہ ادارے بہتر جانتے ہیں۔ جموں و کشمیر کے
موجودہ وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے اپنی تقریب حلف برداری کے بعد جس طرح
جموں و کشمیر کے ریاستی انتخابات کی کامیابی کا سہرا پاکستان، حریت اور
عسکریت پسندوں کے سر باندھا ہے اور اس کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے جس طرح بی
جے پی اور پی ڈی پی کے خلاف بیان بازی جاری رکھے ہوئے ہیں اس پر غیر
جانبدارانہ طور پر غور کیا جائے تو مفتی سعید کی بات میں حق و صداقت نظر
آئے گی کیونکہ اگر انتخابات کے دوران دہشت گردانہ حملے ہوتے تو اس کی ذمہ
داری پڑوسی ملک پاکستان، حریت یا عسکریت پسندوں کے سر باندھ دی جاتی اور
اگر کامیابی سے انتخابات کا عمل مکمل ہوا ہے تو اسے بھی قبول کرنا چاہیے کہ
واقعی ان کی خاموشی سے انتخابات پُر امن طور پر مکمل ہوئے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ
ہماری سیکیوریٹی ایجنسیاں اور سرکاری اداروں کا بھی انتخابات کی عمل آوری
اور پرامن طریقہ سے مکمل ہونے میں اہم رول رہا ہے۔ اب جبکہ دونوں ممالک کے
معتمد ین خارجہ ایس جے شنکر اور اعزاز احمد چوہدری کے درمیان پاکستان میں
بات چیت کا ماحول دوبارہ بنا ہے ایسے میں دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار
تعلقات کے استوار کے لئے مثبت لائحہ عمل ترتیب دینے ہونگے اور مرکزی
حکومتوں کو بھی چاہیے کہ وہ غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے والے متعصب عناصر
اور میڈیا کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا انتباہ دے تاکہ دونوں ممالک کے
درمیان امن و امان کی بحالی ہو ۔ اور دونوں ممالک میں دہشت گردانہ
کارروائیوں کے لئے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے کی روایت کو ختم کرکے اصل
خاطیوں کو گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے مل جل کر کام کریں ۔
ہندوستانی معتمد خارجہ ایس جے شنکر کے مطابق مثبت ماحول میں ہونے والی یہ
بات چیت تعمیری رہی۔ اسی روز شام میں وزیر خارجہ ہند کی وزیر اعظم پاکستان
نواز شریف سے بھی ملاقات ہوئی اس موقع پر ہندوستانی ہائی کمشنر ، مشیر
خارجہ سرتاج عزیز، وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی اور معتمد خارجہ
اعزاز چوہدری موجود تھے۔گذشتہ برس دونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول
اور ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ کے متعدد واقعات پیش آئے تھے اور دونوں ممالک
کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں جس کے بعد دونوں
ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا تھا ۔ اب جبکہ نئے سرے سے بات چیت
کا آغاز ہوا ہے ۔ اب اگر نریندر مودی حکومت پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات
بحال کرتی ہے اور کشمیریوں کے مسائل کو حل کرتی ہے تو یہ عالمی سطح پر
مستحسن اقدام ہوگا اور کانگریس اور دیگر نام نہاد سیکولر جماعتوں کے لئے جو
آج غیر ذمہ دارانہ بیانات کے ذریعہ مسائل کو الجھانے کی کوشش کررہے ہیں
ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ |
|