قومی قیادت کو ’’ فقدانِ کردار ‘‘ کا لاحق مرض
(Roshan Khattak, Peshawar)
گزشتہ چند روز ہم نے الیکٹرانک
اور پرنٹ میڈیا پر سینیٹ کے الیکشن اور اس سے متعلقہ معاملات ،واقعات،اخباری
رپورٹوں اور الیکٹرانک میڈیا پر ہو نے والے تبصروں کو سنا اور دیکھا، جو
کچھ ہوا ، اس نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ایسی کون سی وجہ ہے ؟کہ ملک
میں بار بار عوام کی انگلیاں اراکینِ اسمبلی یا دیگر بالائی طبقے کی طرف
اٹھتی ہیں ۔ہم نے سوچا اور بار بار سوچا تو اس نتیجہ پر پہنچے کہ صرف سینیٹ
کے الیکشن ہی نہیں بلکہ پورے کا پورا قومی ڈھانچہ ایک خطرناک مرض میں مبتلا
ہے اور وہ مرض ہے، کردار کی کمزوری۔
ذرّہ سو چئے نا ! اس وقت وطنِ عزیز میں جمہوری نظام کی ایک شکل بھی مرّوج
ہے ، پارلیمنٹ بھی موجود ہے اور عد لیہ بھی،انتظامیہ بھی موجود ہے اور سیول
بیو رو کریسی بھی ،سیاسی جماعتیں بھی کام کر رہی ہیں،مذہبی راہنماء اور
علماء بھی بڑی کثرت سے موجود ہیں، الیکشن کمیشن بھی کام کر رہا ہے، عدلیہ
بھی اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے لیکن اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا
جاسکتا کہ ان میں سے کسی بھی ادارے کا کردار مثالی اور معیاری نہیں ہے۔
خصوصا جب ہم اپنی مقننہ (پارلیمنٹ) کے گزشتہ کارکردگی پر نظر دوڑا تے ہیں
تو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا،ہمیں یہ کہنا ہی دشوار ہو جاتا ہے کہ ہماری
پارلیمنٹ عوام کی نما ئیندہ ہے۔کسی بھی ملک کی مقننہ اس کی سماجی اور
اقتصادی ڈھانچے کی عکاس ہو تی ہے، مگرا فسوس کہ ہمارا یہ ڈھانچہ ظالمانہ
بھی ہے، استحصالی بھی اور ہوسِ زر کی مریض بھی ہے اور وہ ملک میں ایک بہتر
تبدیلی کا ذریعہ ثابت ہو نے کی صلاحیت سے محروم ہے ۔اس کی بہت بڑی اکثریت
نہ صرف کسی بہتر تبدیلی کا ذریعہ بننے کی صلاحیت یا خواہش نہیں رکھتی بلکہ
یہ موجودہ ظالمانہ سٹیٹس کو برقرار رکھنے کا باعث بن رہی ہے ۔ہماری
پارلیمنٹ کے اکثر ارکان کو قومی مفاد سے زیادہ اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے اور
وہ اپنی رکنّیت کو قومی خدمت سے زیادہ ذاتی مفادات کی حصول کا ذریعہ سمجھتے
ہیں۔اس کے ارکان کی بڑی تعداد فقدان کردار کے مرض کی گرفت میں ہیں، یہی وجہ
ہے کہ عوام کی انگلیاں بار بار ان کے کردار کی طرف اٹھتی ہیں۔
انہوں نے بہت کم کبھی عظمتِ کردار کا ثبوت دیا ہے۔ ہم اس وقت کسی ارفع وژن
کی حامل قیادت کے فقدان کے بحران کے تو شکار ہیں ہی، مگر ساتھ ہی کردار کی
کمزوری نے ہمیں مزید دلدل میں پھنسا دیا ہے ، اگر ہماری قیادت صاحبِ کردار
ہو تی تو ملک اس دلدل میں یقینا نہ پھنسا ہو تا۔اس کے اندر جو وِژن کا
فقدان ہے، صاحبِ کردار ہو نے سے اس کی کچھ نہ کچھ تلافی ہو سکتی تھی۔ ہماری
اعلیٰ سول بیوروکریسی بھی مرغ باد نما کی حیثیت رکھتی ہے اور ایسی مثالیں
کم کم ہی ملتی ہیں کہ سول بیو روکریسی کے ارکان نے عظمتِ کردار کا ثبوت
دیتے ہو ئے وقت کے حکمرانوں کی نظرِ کرم یا نگا ہِ خشمگیں کی پرواہ
نہ کی ہو۔ سول بیوروکریسی کے اکثر کل پرزے چڑ ھتے سورج کی پو جا کرتے ہیں
اور صرف اپنے مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہیں ۔ان کے نزدیک اصول، ضابطے اور
قانون کی اہمیّت اور تقدّس حکمرانوں کے اشارہ آبرو اور ان کی خوشنودی سے
مشروط ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہماری انتظامیہ عوام کی خادم نہیں، صرف اپنے مفادات
کی خادم ہے۔ بے شک ہر ادارے میں با اصول اور صاحبِ کردار لوگ بھی مو جود
ہیں ہم ان کا احترام کرتے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
اگر ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں، کرپشن کا دور دورہ ہے۔اراکینِ اسمبلی
کی ہا رس ٹریڈنگ کے رمناک مظاہرے ہم دیکھ رہے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ
فقدانِ کردار ہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کی اکثریت اہلِ
زر اور بالائی طبقہ پر مشتمل ہے جو عوام کی محنت کے ثمرات خود سمیٹ رہے ہیں
پاکستان کے وسائل کا بڑا حصہ ان کے لئے مختص ہے اور یہ پاکستان سے اتنا کچھ
حاصل کر رہی ہے جس کا عشرِ عشیر بھی یہ ملک کو دینے کے لئے تیار نہیں،
ہمارے کل اور آج کے حکمرانون نے شاہانہ طور طریقے اختیار کئے ہو ئے
ہیں۔ہمارے تمام بالائی طبقے چادر دیکھ کر پاوٗں پھیلانے کی عادی نہین،
حالانکہ ان کی چادر ویسے بھی بہت بڑی ہے لیکن وہ اس سے بھی بہت زیادہ خرچ
کرتے ہیں ۔اس کے مقابلے میں عام آدمی کو ہم نہ تعلیم دے سکے، نہ طبّی
سہولتیں اور نہ دو وقت کی روٹی دے سکے۔حتیٰ کہ صاف پانی اور صھت و صفائی کی
ادنیٰ سہولتیں بھی عام آدمی کو میّسر نہیں۔آج معاشرے کے بہت سے طبقات اس
رائے کے حامل ہیں کہ آزادی حاصل کرنے کے آڑسٹھ سال بعد بھی اگر ہماری
کارکردگی قابلِ رشک نہیں تو اس کی بڑی وجہ ’’قومی قیادت کو لاحق مرض ’’
فقدانِ کردار ‘‘ ہے جو ایک خطرناک مرض کی صورت میں موجود ہے جس کا علاج بہر
صورت کیا جانا چا ہیئے- |
|