کیا طالبان سے مذاکرات امریکہ کی دوغلی
پالیسی تو نہیں....؟
افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کے لئے پاکستان کی رٹ تھی.....
آج کے مختلف اخبارات کا انبار میری میز پر پڑا ہے اور غالباً ہر اخبار نے
امریکہ کی افغانستان کے طالبان سے متعلق اِس خبر کو جس میں اِس بات کا بڑے
وثوق کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے کہ امریکا طالبان کو سیاسی دھارے میں شامل
کرنے کے حوالے سے لندن میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کر رہا ہے
جس کا صرف ایک ہی ایجنڈا ہے کہ افغانستان کے طالبان کو صدر کرزئی کی حکومت
کی حمایت پر آمادہ کیا جائے گا اور اِس کے لئے اِس کانفرنس میں امریکا اور
اِس کے اتحادی ممالک 500ملین ڈالر کے فنڈ کے قیام کا بھی اعلان کریں گے اور
اِس کے ساتھ ہی اِس خبر میں اِس کا بھی ذکر موجود ہے کہ طالبان سے متعلق
اپنی نوعیت کی اِس پہلی اور انوکھی لندن کانفرنس میں طالبان کے بڑے مخالف
امریکا، پاکستان اور خود افغانستان سمیت دنیا کے 60ممالک کے نمائندے خصوصی
شرکت کریں گے۔ جبکہ اِس کانفرنس میں جو لندن میں منعقد ہوگی اِس میں
پاکستان کے لئے امریکی صدر کے ایلچی رچرڈ ہالبروک کے مطابق امریکی وزیر
خارجہ ہیلری کلنٹن بھی اِس کانفرنس میں امریکہ کی نمائندگی کریں گے اور اِس
کے علاوہ کانفرنس میں افغانستان میں تعینات سینئر ترین امریکی کمانڈر جنرل
اسٹینلے میک کرسٹل بھی شرکت کریں گے
.
جبکہ اِس کانفرنس کی اِس کے علاوہ جو ایک اور خاص بات ہوگی وہ یہ ہے کہ اِس
کانفرنس کے تمام شرکاء باہمی اتفاق رائے سے اِس بات پر بھی زور دیں گے کہ
افغانستان میں سیکورٹی، گورننس، ترقی اور بین الاقوامی سویلین تعاون کو بھی
مربوط بنانے کے لئے امریکی صاف و شفاف منصوبے پر بھی برملا تبادلہ خیال
کریں گے۔
اور جب یہ کانفرنس منعقد ہوئی تو یہاں اِن سب سے زیادہ جو ایک اہم اور ساری
دنیا کے لئے چونکا دینے والا قابل ِ توجہ نکتہ رہا وہ یہ تھا کہ اِس
کانفرنس میں امریکا، پاکستان اور خود افغانستان سمیت دنیا کے 60ممالک جن
میں امریکہ کے اہم اتحادیوں خاص طور پر برطانیہ، جرمنی اور کینیڈا بھی شامل
ہیں اِن سب نے بھی اِس بات پر باہم متحد اور متفق ہو کر افغانستان میں
استحکام کے لئے ترجیحی بنیادوں پر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مفاہمت
کے لئے بات چیت کے عمل کو جاری کرنے کی حمایت کرتے ہوئے اپنا یہ واضح مؤقف
اپنایا کہ طالبان کے ساتھ قوت کے بیدریغ استعمال سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا
ہے اور الٹا قوت کے گھمنڈ میں مبتلا امریکا جیسے طاقتور ملک اور اِس کے
اتحادیوں کو افغانستان کے طالبان سے ٹکر لے کر اپنی ناکامی کا ہی سامنہ
کرنا پڑرہا ہے۔
اور اِس کے ساتھ ہی اِس کانفرنس میں شامل امریکا سمیت اِس کے اہم اتحادیوں
کا چھپے چھپے انداز میں یہ بھی کہنا تھا کہ اور اگر طالبان سے فوری طور پر
مذاکرات کی راہ نہ نکالی گئی تو کوئی بعیدالقیاس نہیں کہ طالبان سے ٹکر
لینے والے اور اِن کے ساتھ اپنا سر کھپانے والوں کو افغانستان میں اپنی
ایسی عبرت ناک شکست سے دوچار ہونا پڑے کہ اِن کی آئندہ نسلیں بھی پھرا یسی
غلطی نہ دہرائیں جیسی ہم سب ایک امریکا کے کہنے پر اِس کے اتحادی بن کر چکے
ہیں۔ لہٰذا غنیمت اِسی میں ہے کہ ہم سب کو افغانستان میں اپنی غلطی اور
سُبکی افغان طالبان سے پُر امن مذاکرات سے ہی چھپانی ہوگی اِس کے بغیر اور
کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ امریکا اور اِس کے اتحادی افغانستان میں اپنی
غلطی کا خمیازہ افغان طالبان سے پُرامن مذاکرات کر کے بھگتائیں اور
افغانستان سے امریکا سمیت اپنی اپنی افواج کی جانیں بچا کر نکل جانے ہی میں
اپنی اپنی عافیت جانیں۔
اَب جبکہ ساری دنیا یہ بات اچھی طرح سے جان چکی ہے کہ امریکا اور اِس کے
اتحادیوں کا امریکا میں 11ستمبر 2001 کو پیش آنے والے واقعات کے بعد
افغانستان پر 7اکتوبر 2001 کو پاکستان کے وقت کے مطابق رات 10بجکر 15منٹ
اور 36سیکنڈ پر امریکا نے اپنے بحری بیڑے سے جنگی طیاروں کے ذریعے
افغانستان پر نائن الیون کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کر کے اِن کے
ساتھ جو جنگی شروع کی تھی اِس جنگ میں آج تک امریکا کو ایک پائی کا بھی
فائدہ نہیں ہوسکا ہے اور نہ اُسے اور اِس کے اتحادیوں کو اسامہ بن لادن
جیسے وہ دہشت گردی ہی افغانستان سے اَب تک مل پائے ہیں جن کی تلاش میں
امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ گزشتہ کئی سالوں سے افغانستان میں خیمہ زن ہے
اور افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں کے طالبانوں سے جنگ میں مصروف ِ
عمل ہے۔
اِس سارے حالات اور واقعات کے بعد اپنی پسپائی کا منہ دیکھتا امریکا اَب
خود طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتا ہے اور یوں خود امریکا کی جانب سے
افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع کرنے کو ساری دنیا اِس سے تعبیر
کررہی ہے کہ بالآخر حق باطل پر غلبہ پاتا ہے اور سچے کا ہمیشہ بول بالا اور
جھوٹے کا منہ کالا ہوتا ہے اور آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کا
افغانستان میں حقیقی معنوں میں ایسا منہ کالا ہوگیا ہے کہ اِس کی ساری قوت
کا گھمنڈ بھی چکنا چور ہو کر رہ گیا ہے۔
کہ جس جھوٹ کے بدولت امریکا نائن الیون کے واقعات میں افغان طالبان پر
الزام لگا کر وہ افغانستان کو فتح کرنے اور نائن الیون کے دہشت گردوں کو
پکڑنے کے لئے افغانستان میں گھسا تھا اور آج امریکا کی جانب سے افغان
طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ” سچائی میں
بڑی طاقت ہے اور وہ اپنا آپ دِکھا کر ہی رہتی ہے“اور یہ حقیقت ہے کہ سچائی
خود ایک بہت بڑی قوت ہے جو بالآخر غالب آکر ہی رہتی ہے۔ اور آج دنیا نے یہ
خود دیکھ لیا کہ امریکا جس جھوٹ کے سہارے افغانستان میں اپنے قدم جمانے کے
لئے آیا تھا آج اُسی جھوٹ نے اِسے طالبان جو ایک ایٹمی قوت سے بھی کہیں
زیادہ بڑی قوت ہیں جو اِن کے ایمان کی قوت ہے اور جو اپنی ایمانی قوت سے
لبریز ہیں اُنہوں نے حق پر قائم رہ کر امریکا اور اُس جیسے اِس کے باطل
اتحادیوں کو بھی ایک ایسی اخلاقی شکست دے دی ہے کہ آج امریکا اور اِس کے
اتحادی طالبان کی حقیقت کو مانتے ہوئے خود اِنہیں افغان حکومت میں شامل
ہونے کی کھلی دعوت دے رہے ہیں۔
جب کہ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ جس کا اظہار حکومت پاکستان متعدد بار
امریکا اور اِس کے اتحادیوں سے واضح اور کھلے طور پر کر چکی تھی کہ طالبان
خواہ افغانستان کے ہوں یا پاکستان کے اِن کے خلاف قوت کا بیدریغ استعمال بے
معنی سا ہے اِن (طالبان) کی قوت اور حقیقت کو تسلیم کیا جائے اور اِنہیں
مذاکرات کے ذریعے قومی اور سیاسی دھارے میں شامل کیا جائے۔ تو اِس کے مثبت
اور سودمند نتائج سامنے آنے کے سو فیصد امکانات ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ
امریکا نے اُس وقت تو پاکستان کی یہ بات نہیں مانی مگر آج جب اِس نے
پاکستان کی اِس بات پر عمل کیا ہے تو اِس میں بھی پاکستان کو اتنا ہی کریڈٹ
جاتا ہے کہ جتنا کسی اور کو جائے گا۔
اگرچہ یہ اور بات ہے کہ امریکا نے اپنے یہاں نائن الیون کو پیش آنے والے
واقعات کے بعد اِس کا سارا الزام اور ملبہ افغان طالبان کے سر دے مارا تھا
اور اِس کے بعد سے ہی اِس نے اِن سے تنہا نمٹنے کے بجائے اپنے قریبی یورپی
ممالک کو بھی اِن کے یہاں طالبان کی جانب سے آئندہ ہونے والی اِس قسم کی
دہشت گردی سے ایسا ڈرایا اور دھمکایا کہ وہ اِس کے ساتھ ہوگئے اور اِس طرح
امریکا جب اِنہیں باآسانی پٹانے اور بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوگیا تو اِس
نے پاکستان جیسے اپنے اُن روائتی قرض خوروں کو بھی طالبان کے خلاف اپنی جنگ
شامل کرلیا جو اِس کے ہر اشارے پر آج بھی امریکا سے کہیں زیادہ فعل انداز
سے اِس امریکی جنگ میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ اور اِس طرح پاکستان سمیت
امریکی اتحادی اپنا حق کچھ بھی یوں ادا کررہے ہیں کہ اِن ہی ممالک نے
امریکی زبان میں طالبان کو دہشت گرد کہہ کر اتنا مرا ہے کہ دنیا اِس بات کی
شاہد ہے کہ آج بھی امریکا پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اپنے ڈرون حملے کرکے
روزانہ 20سے 25 نہتے اور معصوم انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل رہا ہے
اور اتنے ہی لوگوں کو روزانہ زخمی بھی کررہا ہے۔
جبکہ اِس سارے صورتِ حال کے بعد مجھ سمیت ہر اُس شخص کی یہ تمنا ہے کہ جو
دنیا میں دائمی امن اور سکون اور بھائی چارے کا متلاشی ہے کہ لندن میں
افغان طالبان سے متعلق ہونے والی کانفرنس کے مثبت اور تعمیری نتائج سامنے
آئیں اور امریکا جس سے متعلق آج بھی یہ خیال کیا جارہا ہے کہ کہیں اِس
کانفرنس کے بعد بھی اِس کی دوغلی پالیسی نہ ہو کہ امریکا ایک طرف تو افغان
طالبان کو قومی اور سیاسی دھارے میں شامل کرنا چاہ رہا ہے تو دوسری طرف
پاکستان کو طالبان سے نمٹنے کے لئے اپنے نمائندوں کے ذریعے یہ پیغامات نہ
پہنچائے کہ پاکستان طالبان کے خلاف اپنی کاروائیاں تیز سے تیز تر کردے
طالبان کو مارتا رہے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ اِس طرح تو اِس لندن کانفرنس
کا ہونا بے مقصد ہو کر رہ جائے گا۔
|